اسلام آباد آزادی مارچ کا انتظار کر رہا ہے، جب وزیر اعظم نے اجازت بھی دے دی تو اب وردی والے ڈنڈا بردار لے کر آئیں گے اور کوشش کریں گے کہ کہیں مارپیٹ اور لڑائی بھی ہو تاکہ فضل الرحمن صاحب کو دو چار زخمی یا ایک آدھ شہید مل جائے تاکہ وہ زیادہ زور و شور سے اپنے لوگوں کا لہو گرم کر سکیں۔ یہ سب آزادی کے نام پر ہو گا مگر یہ نہیں معلوم آزادی صرف عمران خان سے چاہیے یا ان کے پیچھے جو لوگ ایک پیج پر کھڑے ہیں ان سے بھی۔ نظر تو یہ آ رہا ہے کہ دو چار دن کا ہلا گلا ہو گا اور پھر یہ آدمی پرانی تنخواہ پر ہی کام کرے گا۔ مگر جو مسئلہ میں آج اٹھانا چاہتا ہوں وہ یہ دھرنا یا مارچ نہیں، نہ ہی نواز شریف کی صحت کا مسئلہ ہے بلکہ وزیر اعظم نے حال ہی میں کراچی میں ایک بیان دیا ریکوڈک کے بارے میں۔ وہ میرے لئے زیادہ اہم ہے کیونکہ وہ پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا مسئلہ ہے اور جلدی میں بغیر سوچے سمجھے یہ فیصلہ نہیں ہونا چاہیے۔
ریکوڈک کا مسئلہ میں نے ہی پہلے رپورٹ کیا تھا اور بجائے اس کے کہ حکومت وقت کوئی قدم اٹھاتی ہماری سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لے کر سب کو بلا لیا اور کیس شروع کر دیا اور چیف جسٹس افتخار چودھری نے جلدی جلدی کیس چلا کر کینیڈا کی کمپنی کو ملک سے نکال دیا اور حکومت وقت کیونکہ خود کرپشن کے سمندر میں ڈوبی ہوئی تھی وہ کوئی راہ نہ نکال سکی اور ریکوڈک بند ہو گیا۔ موٹی موٹی باتیں جو الجھ گئیں وہ آسانی سے ملک کے مفاد میں سلجھائی جا سکتی تھیں مگر یہ انکشاف بعد میں ہوا کہ جناب افتخار چودھری کے بیٹے ارسلان صاحب بھی ریکوڈک میں بہت دلچسپی لے رہے تھے اور ایک موقع پر انہیں بلوچستان میں ایک سرکاری عہدہ بھی دیا گیا کہ وہ اس مسئلے کو حل کر لیں۔ مختصراً یہ کہ کینیڈا کی کمپنی بیرک گولڈ نے ان کانوں کا ٹھیکہ آسٹریلیا کی کمپنی سے خریدا جو ہماری سپریم کورٹ کے مطابق ایک غیر قانونی سودا تھا۔ بیرک نے تقریباً 300 ملین ڈالر اس پر خرچ کئے اور زیر زمین سروے کروائے اور پورا اندازہ لگا لیا کہ نیچے کتنے بڑے سونے اور تانبے کے ذخائر ہیں۔ پھر اس کمپنی نے پاکستان کے ساتھ معاہدہ کیا کہ 50 سال میں 56 ارب ڈالر کا سونا تانبا نکالیں گے اور اس میں کچھ حصہ ہی پاکستان کو ملے گا۔ پھر عدالت نے یہ سب کالعدم قرار دے دیا اور کام ٹھپ ہو گیا۔ بیرک نے پاکستان چھوڑ کر عالمی عدالت کا رخ کیا اور کیونکہ پاکستان میں کسی کو نہ ہی دلچسپی تھی اور نہ کوئی ڈیل کی امید، بے دلی سے کیس لڑا گیا۔ کچھ وکیلوں نے پیسے بنائے اور دنیا کا سب سے بڑا جرمانہ پاکستان پر عائد ہو گیا، تقریباً 6 ارب ڈالر۔ اب یہ مسئلہ عمران خان کی جھولی میں آ گرا ہے۔ جیسے ہی آئی ایم ایف نے کڑی شرطوں کے بعد پاکستان کو چھ ارب ڈالر قرض دیا، ریکوڈک میں ہمارے اوپر جرمانہ لگا دیاگیا۔
اب عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ بیرک گولڈ کے مالک ان سے امریکہ میں ملے تھے اور کہا کہ وہ واپس آنا چاہتے ہیں اور 6 ارب جرمانہ بھی چھوڑ دیں گے۔ یہ ایک بڑی اچھی اور ایک بہت خطرناک چال بھی ہو سکتی ہے۔ وزیر اعظم اس آفر کو بہت زیادہ مثبت انداز میں لے رہے ہیں لیکن اصل معاملے کی شاید ان کو معلومات نہیں ہیں۔ میں نے وزیر اعظم ہائوس سے رابطہ کیا تو جواب آیا کہ یہ مسئلہ جلدی حل کرنا چاہتے ہیں۔ حل تو جلد ہی ہونا چاہیے مگر کس کی شرائط اور کس قیمت پر، یہ ملک کے اہم اداروں اور ملکی معیشت کے لئے بھی ایک انتہائی اہم سوال ہے۔
بیرک واپس آنا چاہتی ہے کیونکہ اس کمپنی کو معلوم ہے کہ پاکستان کے نیچے کتنے بڑے سونے اور تانبے کے ذخائر ہیں جو سروے انہوں نے کرائے تھے وہ تمام رپورٹیں لے کر پاکستان سے چلے گئے اور کسی کو اندازہ بھی نہیں ہونے دیا یہ بات بالکل صحیح ہے کہ بیرک نے بلوچستان میں ایک ناجائز ایئر پورٹ بھی بنایا ہوا تھا جب وہ وہاں کام کر رہی تھی اور اس رن وے پر کسی کا کنٹرول نہیں تھا۔ چھوٹے جہاز آتے اور جاتے تھے جس کمپنی کی زمین ہتھیا کر یہ رن وے بنایا گیا تھا اس نے بلوچستان ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں کیس بھی داخل کئے ہوئے ہیں اور ان کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔
عمران خان نے بڑی حیرت سے اعلان کیا کہ بیرک کے مالک نے انہیں بتایا کہ پاکستان کے پاس دنیا کے، جی ہاں دنیا کے، سب سے بڑے سونے کے ذخائر ہیں تو میں یہ بات صحیح سمجھتا ہوں کیونکہ سوائے بیرک کے مالک کے کسی نے ابھی تک کوئی تفصیلی سروے نہیں کیا ہے۔ اگر مقابلہ کریں تو جو کانیں بلوچستان میں ہیں وہی افغانستان میں بھی پھیلی ہوئی ہیں اور پچھلے برسوں میں امریکہ نے افغان سونے کی کانوں کا سروے کروایا تھا اور ماہرین کے مطابق ان کی مالیت تین کھرب ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔ تو اگر پاکستان دنیا کا سب سے بڑا ذخیرہ لے بیٹھا ہے تو پھر یہ 3 کھرب ڈالرسے بھی زیادہ ہے۔ اس لئے بیرک پاکستان واپس آنا چاہتی ہے مگر پاکستان کے لئے سوال ہے کس قیمت اور شرطوں پر؟
عمران خان صاحب کو غور سے دیکھنا ہو گا کہ صرف 6 ارب ڈالرکے جرمانے کو بچانے کے لئے وہ کھربوں کے ذخائر کوڑیوں کے دام نہ بیچ دیں۔ کئی دوسری کمپنیاں بھی بہت غور سے پاکستان کے ذخائر کی طرف دیکھ رہی ہیں اور بہتر ہو گا ان کمپنیوں سے بھی ایک دفعہ بات کی جائے اور دیکھا جائے کہ بیرک کیا دینے کو تیار ہے اور مارکیٹ ریٹ کیا ہے۔ جلدی میں یہ کام بہت بگڑ سکتا ہے کیونکہ پاکستان کو پہلے ہی ایک اسی طرح کے تانبے کے ذخائر کے کیس میں چونا لگ چکا ہے اور سینڈک کے ذخائر چینی کمپنیاں نکال کر لے گئیں اور پاکستان ہاتھ ملتا رہ گیا۔ مگر ریکوڈک سینڈک سے ہزاروں مرتبہ بڑا سودا ہے۔ کچھ کمپنیاں پچھلے چار پانچ برسوں میں حکومت اور ہماری فوج کو اپنے آفر بھی بھیج چکی ہیں کم از کم آفر جو مجھے معلوم ہے 100 ارب ڈالر کی تھی اور اتنے بڑے ٹھیکے میں چھ ارب ڈالر کا جرمانہ بھی ادا کرنے کو تیار تھے۔ میں وزیر اعظم سے درخواست کرتا ہوں کہ اس کیس کے لئے ایک عالمی ماہرین کی ٹیم کی خدمات حاصل کریں، صرف ایک کمپنی سے بات چیت کر کے اتنا بڑا کام بغیر کسی دوسرے کو موقع دیئے ایوارڈ نہ کریں اور یہ جرمانے کی رقم بھی پورے ٹھیکے کا حصہ بنا دیں تاکہ جو بھی اپنی آفر کرے وہ اس کو شامل کر لے۔ ماہرین میں فوجی ماہرین بھی شامل کریں کیونکہ کسی بھی عالمی کمپنی کو حفاظت اور سکیورٹی دینے کی گارنٹی صرف فوج ہی دے سکتی ہے۔ سونا نکالنے کی ریفائنری پاکستان میں لگنی چاہیے۔
ریکوڈک بلوچستان اور پاکستان کے لئے تیل اور گیس سے زیادہ قیمتی سرمایہ ہے اور ہماری نسلوں کی شکل بدل سکتا ہے اگر جلدی میں کسی کو یا بیرک کو اونے پونے حوالے کر دیا گیا تو قوم معاف نہیں کرے گی کہ عمران خان صاحب دبائو میں آ کر قوم کی بڑی امانت کا سودا کر گئے بلکہ ہماری عدالتیں اور قومی سلامتی کے ادارے بھی اس طرح کا سودا برداشت نہیں کریں گے کہیں یہ نہ ہو کہ جلدی میں فیصلہ ہو اور پھر عدالتیں اسے روک دیں اور معاملہ پھنس جائے۔
عالمی میڈیا میں اشتہار دیں ساری دنیا کی سونے اور تانبے نکالنے کا کام کرنے والی کمپنیوں کو بلائیں۔ ٹھیک ہے بیرک کے پاس سروے رپورٹ ہے وہ اس سے لیں اور اگر کچھ رعایت دینی ہو وہ بھی دیں مگر ملک کا فیصلہ ایسے نہ کریں کہ آپ کی ساری باقی محنت ایک طرف رہ جائے اور یہ گھنٹی آپ کے گلے میں بندھ جائے۔