پچھلے دنوں جب میں نے اپنی خاموشی توڑ کر دوبارہ پاکستانی ٹی وی کے پروگراموں میں آنا شروع کیا اور کئی ٹی وی اور یوٹیوب کے چینلز پر انٹرویو دیے، توتقریباً تمام ہی اینکرز اورمیزبانوں نے ایک سوال بار بار کیا "نواز شریف نے کیوں فوج اوراسٹیبلشمنٹ کے خلاف اعلان جنگ کیا اور اب کیا ہوگا "۔ اس سوال کا جواب تو ایک ہی ہے اور تھا، نواز شریف نے جب ساری کوششیں کر لیں کہ کسی طرح پرانے طریقے استعمال کرکے اپنے لئے اور اپنی پارٹی کے لئے رعایت اور ہمدردی لے لیں مگر سوائے اس بڑی رعایت کے کہ انکو ملک سے باہرجانے کی اجازت مل گئی اور کچھ نہیں ملا اور انکے کیس ویسے ہی چلتے رہے اور شہباز شریف اور محمد زبیر کی تمام خفیہ کوششیں ناکام ہو گئیں۔ اب حالات اس نہج پر آ گئے کہ فوج کے ترجمان کو بیان دینا پڑا کہ زبیر صاحب نے آرمی چیف سے مریم اور نواز کی بات کی اور ان سے صاف صاف کہا گیا کہ آپ اپنے سیاسی معاملات پارلیمنٹ اور قانونی معاملات عدالت لے جائیں، نواز شریف سمجھ گئے کہ اب انکی دال نہیں گلنے والی اور وہ پلٹا کھا کرمزاحمت اور اپنے پرانے دوستوں کے ساتھ لڑائی اور گالم گلوچ پر اتر آئے، دباؤ ڈالنے کا یہ طریقہ، انہوں نے ایک دفعہ پہلے بھی استعمال کیا تھا، جب انہوں نے ٹی وی پر تقریر کی تھی: کہ میں صدرغلام اسحاق خان سے ڈکٹیشن نہیں لونگا۔ پھر اس دباؤ میں صدر کو بھی استعفیٰ دینا پڑا تھا، مگر اب نہ وہ لوگ ہیں، نہ وہ سیاست، نہ وہ وقت، نہ ہی جمہوریت کو کوئی خطرہ ہے۔ سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ پہلے صرف دو سیاسی پارٹیاں ہوتی تھیں مگر اب ایک اور بہت طاقتور اور مختلف پارٹی، تحریک انصاف، بھی میدان میں ہے اور حکومت بھی کر رہی ہے۔ تو نواز شریف جتنے زور سے اور جتنی بار مزاحمتی تقریریں کر لیں انکی آواز آہستہ آہستہ منظر سے غائب ہی ہوتی جائیگی کیونکہ انکے پاس دو نمبرالطاف حسین بننے کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں۔
یہ بات میں اس لئے کہہ رہا ہوں کے پاکستان میں انکی باتوں کو سوائے کچھ شکست خوردہ اور گھبرائے ہوئے، لوگوں کے کوئی پسند نہیں کر رہا، کچھ دوسری حزب مخالف کی پارٹیاں انکو استعمال کرکے اپنے سیاسی مقاصد پورے کرنا چاہتی ہیں، جیسے پی پی پی۔ جو یہ تو چاہتی ہے کے عمران خان کسی طرح سے ہٹ جایئں، مگر وہ کسی قیمت پر سندھ میں اپنی حکومت چھوڑنے یا قومی اسمبلی سے باہر جانے کو تیار نہیں۔ مولانا فضل رحمان چاہتے ہیں نہ صرف عمران خان جایئں بلکہ پوری اسمبلی بھی جائے اور نئے انتخاب کرائے جایئں تاکہ انکو پھر کچھ حصّہ مل سکے، باقی چھوٹی چھوٹی پارٹیاں بس شامل باجا ہی ہیں، اصل کھیل توان تین پارٹیوں کا ہی ہے۔
ملک سے باہر بہت سے لوگ خوش ہیں مگر کوئی یہ کہنے کو تیار نہیں کہ نواز شریف کسی طرح جیت جایئں گے اور انکے ساتھ باقی پارٹیاں کھڑی رہیں گی۔ اپنے تجزیہ کار اور لکھنے والے تو شاید ایک متعصب رائے دیں مگر میں نے ایک مشہور اخبار ایشیا ٹائمز کی خبر اور تجزیہ دیکھا، جو بھارت میں لکھا گیا اور 80 فیصد نواز شریف کی تعریفوں اور انکی جرات اور بہادری کے قصّے سناتا رہا مگر حقیقت کے کچھ الفاظ بھی لکھنے پڑ گئے، اخبار کا کہنا تھا نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ پر صحیح وقت اور صحیح وار کیا مگر اگلی ہی لائن میں سوال اٹھایا کہ کیا خود نون لیگ، پی پی پی یا باقی دوسری پارٹیاں اپنے کندھوں پر یہ بھاری بوجھ اٹھا سکیں گی۔ اخبار نے فوری طور پر نتیجہ نکالا کہ ایمانداری سے اس سوال کا جواب یہ ہے کے ایسا نہیں ہو سکتا۔ اسکی وجہ یہ بتائی کہ زرداری سندھ میں اپنی حکومت کو کسی صورت نہیں چھوڑ سکتے اور کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے، جو انھیں خطرے میں ڈالے اور انکی حکومت چلی جائے۔ اسی طرح شریف کی اپنی پارٹی میں کئی ایسے پرانے اور مضبوط لیڈر ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے تعلقات ٹھیک کرنا چاہتے ہیں تاکہ اسکی مدد سے دوبارہ حکومت میں آ سکیں اور وہ فوج کی قوت کا مقابلہ نہیں کرنا چاہتے۔ ایشیا ٹائمز لکھتا ہے کہ یہ لڑائی اب نواز شریف کے بھائی شہباز شریف کی بے جان مخالفت اور بلاول زرداری کے ہاتھ میں ہے، جو کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتے۔ یہ تجزیہ ایشیا ٹائمز میں عماد ظفر نے لکھا اور 21 ستمبر کو چھپا اور اخبار کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ اب یہ ایک بھارتی تجزیہ ہے اور ٹھیک ہے۔ نواز شریف کی بے انتہا تعریفیں کی گی ہیں مگر سچی باتیں بھی کر دی گی ہیں۔
نواز شریف کی زور دار تقریروں کو عمران خان نے ملک کے ٹی وی پر دکھانے کی خاص اجازت دی اور یہ ایک بہت ہی سمجھداری کا فیصلہ تھا۔ لوگوں نے جب سنا کہ تین بار وزیر اعظم بننے والا لیڈر کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہا ہے، تو اسکا ردعمل بھی سخت ہوا اور ملک کے خلاف باتیں کرنے پر بہت گالیاں پڑنے لگیں۔ کچھ لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ غدّاری ہے اور خبریں آنا شروع ہو گیئں کے نواز شریف بھارتی لیڈروں اور پاکستان دشمن لوگوں سے لندن میں مل رہے ہیں مگر سچ تو یہی ہے کہ نواز شریف کا بیانیہ چاہے غدّاری ہو یا نہ ہو۔ بھارت کے بیانیہ سے ملتا جلتا ضرور ہے۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ پیمرا نے جناب نوازشریف کی تقریروں پر بھی پابندی لگا دی اور سب نے ملکر نون لیگ کو سڑکوں پر دھکّا دے دیا۔ ساتھ ہی وزیر اعظم عمران خان کا بھی رد عمل سخت سے سخت ہی ہوتا جا رہا ہے کیونکہ انکو یقین ہے کہ فوج اور اسٹیبلشمنٹ انکے ساتھ کھڑی ہے اور جتنا نواز شریف زیادہ بولیں گے اتنا ہی ان دونوں کا اتحاد مضبوط تر ہوتا جائیگا۔ حزب اختلاف کا اصلی مقصد اور نشانہ تو تحریک انصاف کو مارچ میں سینیٹ میں اپنی تعداد بڑھانے سے روکنا ہے مگر جلدی میں انہوں نے یہ سارے کام بہت پہلے شروع کردیے ہیں۔ اب ایک تحریک کو پانچ چھے مہینے چلانا بہت ہی مشکل کام ہے اور وہ بھی اس صورت میں کہ ساری پارٹیوں کے اپنے مفاد ہیں اور ہر ایک اپنے فائدے کی جنگ لڑ رہا ہے۔
حکومت کو صرف ایک ہی مسئلہ تنگ کر رہا ہے اور وہ ہے عوام کو مہنگائی سے نجات دلانا۔ جب میں نے وزیر اعظم سے پوچھا کہ وہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے کیا کر رہے ہیں تو انکے وزیر اطلاعات شبلی فراز نے اگلے ہی دن پریس کانفرنس میں کہا کہ حکومت لوگوں کو ریلیف اور اشیاء ضرورت پر سبسڈی اور رعاتیں دینے کا سوچ رہی ہے۔ ابھی عمران خان کے پاس مارچ تک بہت ٹائم ہے اور اگر دو چار ہفتوں میں لوگوں کی شکایتیں دور ہونا شروع ہو گیئں، تو حزب اختلاف کی تحریک سے ساری ہوا نکل جائیگی اور پھر حزب اختلاف کے جوتوں میں دال بٹنا شروع ہو گی۔
اصل بات یہ ہے کہ ملک کی داخلی اور خطّے کی صورتحال اتنی نازک ہے کہ حکومت اور فوج تمام قومی سلامتی کے اداروں کو فرصت ہی نہیں کہ بیکار کے جلسے جلوسوں پر اپنا وقت ضایع کریں۔ اگر جمہوری طریقوں سے شور شرابہ ہوتا رہا، تو ٹھیک ہے ورنہ ملک میں افراتفری کی اجازت ملنا بہت مشکل ہے، مگر حزب اختلاف کا اس کے بغیر گزارا نہیں تو جلد ہی یہ سب لوگ بند گلی میں ہونگے، کچھ جیل میں، کچھ نیب میں، کچھ فراری اور کچھ معافیاں مانگ رہے ہونگے۔
حکومت کو بھی اپنی کرپشن کے خلاف مہم تیز کرنا ہوگی اور ماہرین کہتے ہیں: پاکستان سٹیل مل کا کیس انتہائی آسان ہے صرف ایک مضبوط تحقیقات کی ضرورت ہے کیونکہ 500 ارب سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے مگر کوئی ابھی تک قابو نہیں آیا۔ سٹیل مل انتظامیہ کو چاہیے کہ حکومت سے کہے فوری طور پرFIAیا کسی اور ایجنسی کو تحقیق پر لگائے، لوگوں کو نوٹس بھیجے جائیں اور جو لوگ مدد کرنا چاہتے ہیں، ان سے فائدہ اٹھایا جائے، بہت سے موٹے مرغے ہاتھ آ جائیں گے۔