جب 1970ء میں جنرل یحییٰ خان نے الیکشن کا اعلان کیا تو تقریباً پورے سال ہی خود سے الیکشن کمپین جاری رہی۔ ان دنوں میں پشاور میں خبر رساں ایجنسی PPI کا نمائندہ تھا اور میرا دفتر خیبر بازار کے شروع میں حبیب ہوٹل کے سامنے بلڈنگ میں پہلی منزل پر تھا اور برابر والا دفتر نوائے وقت اخبار کا تھا۔ اس الیکشن مہم میں ایک 16 سال کا نوجوان جس کے چہرے پر ابھی پوری داڑھی بھی نہیں آئی تھی اکثر اپنے والد کا سیاسی بیان یا کسی تقریر کا متن لے کر میرے دفتر آتا تھا اور خاموشی سے کھڑا ہو کر انتظار کرتا تھا کہ میں اگر فون پر یا ٹائپ کرنے میں مصروف ہوں تو اس کی طرف توجہ دوں۔ اس کا نام فضل الرحمان تھا اور وہ مولانا مفتی محمود کا فرزند تھا۔ مولانا مفتی محمود سے اکثر ملاقات ہوتی تھی کیونکہ ان کا دفتر مشہور نمک منڈی کے پاس کوئی میرے دفتر سے ایک میل دور تھا۔ وہ جب بھی پشاور آتے وہیں قیام کرتے اور فضل الرحمان اکوڑہ خٹک کے دارالعلوم حقانیہ میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ مفتی صاحب بہت شفیق اور کھلے دل کے آدمی تھے اور اکثر اخبار والوں سے کھل کر بات کرتے تھے۔ فضل الرحمان سے ہمیشہ شکایت کرتے تھے کہ یہ قابل بھروسہ نہیں بہت گڑ بڑ کرتا رہتا ہے۔ پھر الیکشن گزر گیا اور کوئی ایک سال بعد ہی یعنی مارچ 1972ء میں مولانا مفتی محمود وزیر اعلیٰ سرحد بن گئے اور فضل الرحمان کو 19/20 سال کی عمر میں ہی ایوان اقتدار کو اندر سے دیکھنے کا موقع مل گیا اور وہ اپنی اس کچی عمر ہی سے اقتدار کے دیوانے ہو گئے مگر ان کی گڑ بڑ کرنے کی عادت نہیں گئی۔
وہ گڑ بڑ کس قسم کی تھی یہ مجھے تفصیل سے معلوم ہے مگر کیونکہ وقت اور جگہ کم ہے صرف ایک اقتباس یہاں پیش کرتا ہوں جو 9 فروری 2012ء کو نوائے وقت میں ڈاکٹر اجمل نیازی نے لکھا۔"مولانا عبدالستار نیازی مفتی محمود سے ملنے گئے۔ ایک نوجوان بار بار کمرے میں داخل ہوتا اور مفتی صاحب اسے بھگا دیتے۔ مولانا نیازی نے پوچھ لیا کہ مفتی صاحب یہ کون ہے۔ انہوں نے فرمایا یہ میرا بیٹا فضل الرحمان ہے اور یہ پیسے لے کر میرے خلاف مخبری کرتا ہے"ملتان اور پشاور اور پھر واشنگٹن کے ہمارے ساتھی مرحوم محمد افضل خان جن کا سرکاری خبر رساں ایجنسی APP سے تعلق تھا۔ مفتی صاحب کے بڑے قریب تھے اور اکثر ان سے اکیلے میں ملاقات کرتے تھے۔ فضل الرحمان افضل خان کو انکل کہتے تھے اور سیاست میں آنے کے بعد وہ بھی ان کے بہت قریب رہے اکثر ان سے سیاسی مشورے لیتے اور کئی اندر کی خبریں بھی ان کو بتاتے۔ وہ بتاتے تھے کہ فضل الرحمن کو بے نظیر بھٹو بہت اچھی طرح ہینڈل کرتی ہیں اور ایک دن یہ بات خود بے نظیر نے ہم لوگوں کو بھی بتائی۔ اس گروپ میں 4، 5 اور بھی صحافی تھے اور بے نظیر کا کہنا تھا جب زرداری مولانا فضل الرحمن کو نہیں رام کر سکتا تھا کسی سیاسی مسئلے پر، تو وہ خود ان سے ون آن ون ملاقات کر لیتی تھیں اور ایسا کبھی نہیں ہوا کہ مولانا نے ان کی بات نہ مانی ہو۔ وجہ جو بے نظیر نے بتائی وہ لکھنا شاید موزوں نہیں لیکن وہ مفتی محمود صاحب والی گڑ بڑ سے کافی قریب تھی۔
تو 20 سال کی عمر میں وزیر اعلیٰ کے گھر رہنے والے فضل الرحمان کی ساری سیاست پھر ایسی تگ و دو میں رہی کہ حکومت چاہے کس کی ہو، فوجیوں کی یا سیاست دانوں کی، ان کو حکومت کے اندر ہی رہنا ہے۔ پھر جب وہ جمعیت کے لیڈر بن گئے اور ان کی پارٹی کو سرحد اور بلوچستان میں سیٹیں بھی ملنے لگیں تو وہ دین سے زیادہ دنیا کی مزیدار زندگی کے ہی خواہش مند رہے۔ کبھی کسی پارٹی کے ساتھ مل گئے کبھی فوج سے لڑائی کی اور پھر فوج کے ساتھ مل کر حکومت بنا لی۔ ہمیشہ مفاہمتی سیاست کی اور اپنی پارٹی اور خاندان کو بے انتہا فائدے پہنچائے۔ دوست انصار عباسی نے ان کی فوج سے لی گئی زمینوں کے کئی قصے تحریر کئے ہیں مگر کیونکہ مولانا ہر طرح کی مفاہمت کے قائل ہیں اس لئے آج تک کسی نے ان سے پوچھا نہیں۔ کشمیر کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے وہ جب بھی ملک سے باہر جاتے تھے وہاں کے پاکستانی سفارت کار اور خاص کر امریکہ کی ایمبیسی کے لوگ ساری گڑ بڑ کے قصے سناتے ہیں اور لکھ کر وزارت خارجہ میں ریکارڈ بھی کراتے رہے ہیں۔
تو اب کیا ہو گیا کہ مولانا کی تمام سیاست بقول ڈاکٹر شاہد مسعود کے ڈھیر ہو گئی اور وہ انقلاب کا جھنڈا لے کر نکل کھڑے ہوئے۔ فرق صرف یہ پڑا کہ عمران خان نے ان کے سیاسی قلعے پر ایسی یلغار کی کہ ان کو کے پی کے کی سیاست سے ہی باہر نکال پھینکا۔ اب نہ وہ خود کہیں کے رہے اور نہ ان کا کوئی پوچھنے والا رہا۔ ان کے پاس ایک بڑا ہی مضبوط سیاسی کارڈ تھا اور وہ ان کے طالبان سے روابط اور دوستیاں تھیں کیونکہ طالبان کے اکثر لیڈر اکوڑہ خٹک کے دارالعلوم حقانیہ میں پڑھے تھے اور مولانا پاکستانی حکومت اور باقی دنیا کیلئے ایک اہم رابطہ کار تھے۔ اس کو انہوں نے استعمال بھی کیا مگر عمران خان کے آنے کے بعد اور حالات کے رخ نے وہ کارڈ بھی ناکارہ کر دیا۔ اب طالبان خود امریکہ سے براہ راست بات کرتے ہیں تو مولانا درمیان سے غائب ہو گئے۔ عمران خان کے الیکشن جیتنے کے بعد مولانا اتنے غصے میں تھے کہ وہ اپنی سیاسی چالیں اور پرانی گڑ بڑ بھول گئے۔ انہیں شاید یقین نہیں تھا کہ عمران خان کے پی کے کے علاوہ پنجاب اور اسلام آباد میں بھی حکومتیں بنا لیں گے اور وہ ڈنڈا لے کر ن لیگ اور پی پی پی کی بھی دوڑیں لگوا دیں گے۔ شاید مولانا کے روابط پنڈی سے بھی کٹ گئے تھے، ورنہ وہیں سے وہ اتنی خبر تو لے آتے کہ خلائی مخلوق آج کل کتنی بلندی پر پرواز کر رہی ہے اور کہاں ڈیرے ڈالے گی۔ ہو سکتا تھا اگر وہ شروع شروع میں زیادہ گالی گلوچ نہ کرتے اور الیکشن کے نتائج مان لیتے تو مرکز میں اور کے پی کے اور بلوچستان میں ان کو کافی حصہ مل جاتا اور عمران خان اور خلائی مخلوق کو ایسی مخلوط حکومت نہ بنانی پڑتی جس پر کوئی ہر وقت بلیک میل کر سکے۔ مگر اب تو بہت دیر ہو چکی اور اب مولانا صاحب گڑ بڑ میں بہت آگے نکل گئے۔
ان کے بیانات تو اب میڈیا میں رپورٹ کرنے اور دکھانے یا سنانے کے قابل بھی نہیں رہے۔ کسی نے ان کو دھرنے سے پہلے کوئی خواب دکھا دیے تو وہ لشکر کشی کر بیٹھے مگر اس کو پھُر کرنے والوں نے پانی ڈال کر اور دانا ڈال کر ٹھنڈا کر دیا۔ اس دوران ان کے ساتھ باقی بڑی پارٹیاں بھی ہاتھ کر گئیں۔ ان کو آگے لگا کر پیچھے سے ن اور پی پی نے اپنے اکثر الّو سیدھے کر لئے اور مولانا کو بول بچن کے بھلاوے میں ہی پھنسائے رکھا۔ اتنے زیرک جن کو حامد میر صاحب پاکستان کا سب سے ذہین ترین سیاستدان کا لقب کئی دفعہ دے چکے ہیں (حالانکہ پی ایچ ڈی زرداری کو ہی مانا جاتا ہے) اس دفعہ مار کیسے کھا گیا۔ کہاں وہ خواب کہ وزیر اعظم بننے کی خواہش اور صدر کا الیکشن لڑنے کی تگ و دو اور کہاں یہ دن کہ ن لیگ اور زرداری بھی بیچ دریا میں چھوڑ کر یہ جا اور وہ جا۔ تو اب مولانا کی سیاست کہاں کھڑی ہے۔ عمران خان سے ہاتھ ملانا تو شاید ان کیلئے ممکن نہ ہو لیکن غور سے سوچیں تو ایک راستہ ہے اور وہ ہے چودھری برادران کے ذریعے۔ آخر وہ دھرنے میں جب بالکل پھنس گئے تو چودھری صاحبان نے ہی انہیں پتلی گلی دکھائی اور باہر نکالا۔ ان کے کہنے پر اور کسی نامعلوم فرد یا افراد کی ضمانت دے کر انہوں نے مولانا کو دھرنے سے نکالا۔
مجھے نہیں یقین کہ کام کروانے والے لوگ چودھری صاحبان کی خدمات ہی حاصل کریں گے اگر انہیں مولانا کو کچھ پیغام دینا ہوتا تو بے شمار طریقے اور لوگ ہیں۔ یہ تو واضح ہے کہ چودھری صاحبان نے مولانا کو گھما دیا۔ مگر اب وہ ایک کام تو کر سکتے ہیں۔ اگر مولانا صاحب تیار ہو جائیں تو چودھری صاحبان مولانا کو عمران خان سے ہاتھ ملانے لے جا سکتے ہیں اور اگر یہ ہوا کا جھونکا ذرا سا بھی چلا تو مولانا فوراً راضی ہو سکتے ہیں۔ اب امتحان ان کی ذہانت کا ہے اور بقول ان کے والد اب ذرا گڑ بڑ کم کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا نیا دھرنا پھر کسی ن لیگ یا پی پی والوں کو تو فائدے پہنچا دیگا مگر مولانا ہاتھ ملتے رہ جائینگے۔ یہ انقلاب مولانا کے بس کی بات نہیں وہ کسی بڑی نہیں تو چھوٹی ہی سہی سرکاری کرسی کی تلاش کریں۔ شاید سب کا فائدہ ہو جائے۔