ایک جانے پہچانے اینکر محمد مالک نے پچھلے ہفتے اپنا ٹاک شو اس جملے سے شروع کیا کہ آج میں نے اسلام آباد کے تین بڑے باورچیوں کو بلایا ہے جو اسلام آباد میں پکنے والی کھچڑیوں کا تجزیہ کرنے میں کافی تیز ہیں اور انہوں نے تین معروف اینکرز کو بٹھا کر اپنی قیمے آلو اور پیاز ٹماٹر کی سیاسی کھچڑی پکانا شروع کر دی۔ انکا موضوع بحث تھا نواز شریف کی پاکستان واپسی۔ سب نے بڑی بڑی خبریں اور بڑے بڑے تجزیے دینا شروع کر دیے اور زور سارا اس بات پر تھا کہ اسلام آباد میں نجانے کیا پلاؤ پک رہا ہے جسکی کسی کو خبر نہیں۔ ایک بڑے اینکر تو بات کرتے ہوے گھبرا بھی رہے تھے اور بار بار دوسرے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ وہ تبصرہ کریں۔ سارے سیاسی مسئلے جن میں پنجاب، اسلام آباد، لندن، نیب، مریم، شہباز شریف، مولانا فضل رحمان اور ہر ایک کو ملا کر واقعی ایک کھچڑی بنا دی گئی اور ان سب باتوں کو جوڑ کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ عمران خان اب بہت مشکل میں گھر گئے ہیں اور کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ سارے تجزیہ کار اور اسلام آباد کے باورچی میرے دوست بھی ہیں اور ساتھ کام بھی کیا ہے انہوں نے جو بھی کہا اور جو تصویر پیش کی وہ انکا کام ہے اور ہم سب یہی کرتے ہیں مگر جب ضرورت ہوتی ہے سب سے اہم اور ضروری نکتے یا تو بھول جاتے ہیں یا جان بوجھ کر چھوڑ دیتے ہیں، تو یہی ہوا۔ بات شروع ہوئی شہزاد اکبر کی پریس کانفرنس سے جس میں انہوں نے تفصیل بتائی کے کس طرح نواز شریف کو واپس لانے کے لئے برطانیہ کی حکومت کو پاکستان نے خط لکھ دیا ہے اور اب جیسے اگلی ہوائی ایمبولینس سے وہ واپس آ جائیں گے۔ جو بات سب بھول گئے وہ تھی کہ یہ خط ابھی نہیں بلکہ چھ مہینے پہلے مارچ میں لکھا گیا تھا۔ کسی نے نہیں پوچھا اتنے دن تک خاموشی کیوں تھی اور آدھا سال گزر گیا ابھی تک کوئی ہلچل ہی نہیں ہوئی، سب کا زور اس بات پر تھا کے مریم نواز باہرآ گئی ہیں اور حکومت پر حملے شروع کردیے ہیں اور اسکا مطلب یہ ہے کے بس عمران خان اب گئے اور تب گئے۔
اور بہت باتیں ہوتی رہیں مگر کیونکہ ٹاک شو کو ذرا چٹنی اچارڈال کر چٹ پٹا بنانا ضروری ہوتا ہے تو مسالہ کافی تھا۔ اصل سوال یہ تھا کہ کیا واقعی عمران خان کی حکومت نواز شریف کو واپس لانا چاہتی ہے اور اگر ایسا ہے تو کیا وہ یہ کام کر سکے گی۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ سیاست کرنا اور چیز ہے اصلی کام کرنا اور۔ یعنی آج تک جب پاکستان کی حکومت کسی چھوٹے سے چھوٹے اور الطاف حسین جیسے مجرم کو واپس نہیں لا سکی تو نواز شریف تو برطانیہ کے لئے ایک سونے کی چڑیا ہیں اور انکو وہ کیسے فوری طور پر روانہ کر دیں گے۔ کس طرح نواز شریف کو باہر بھیجا گیا تھا وہ مسئلہ ابھی تک لوگوں کا بھیجا کھا رہا ہے اور عمران خان سخت ناراض ہیں مگر کیا کریں۔
' آنے والے کو آنا ہوگا اور جانے والے کو جانا ہوگا '
اصل بات یہ ہے کر چکر دے کر جانے والے اس لئے چلے گئے کہ ان کووکنے والے اس وقت روکنے کے موڈ میں نہیں تھے ورنہ چھوٹے چھوٹے چوزے آنکھ چرا کر باہر نہیں جا سکتے تو نواز شریف تو ایک بہت موٹی مرغی ہیں ایک سزا یافتہ قیدی کا ایک عالیشان جہاز میں فروٹ کھاتے ہوے ملک سے چلے جانا کبھی بھی ممکن نہیں تھا۔ اسی طرح اس قیدی کا واپس آنا بھی ممکن نہیں کیونکہ ابھی انکی ضرورت ہی نہیں ہے۔
یہ چھوٹی موٹی کھچڑی کی کہانیاں ایسے ہی چلتی رہیں گی اور ہم میڈیا والے اپنی اپنی دکان چمکانے کے لئے نئے نئے مسالے لاتے رہیں گے۔ یہ بات اب نہ صرف پاکستانی بلکہ غیر ملکی تجزیہ نگاروں کو بھی سمجھ میں آنے لگی ہے۔ امریکا کے مشہور وڈرو ولسن سینٹر کے ایشیا پروگرام کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے رواں ماہ فورن پالیسی میگزین مین ایک لمبا مضمون لکھا جسکا خلاصہ یہ تھا کے عمران خان میں غلطیاں ہونگی لیکن وہ ابھی بھی پاکستانی فوج کے لئے سب سے محفوظ پتہ(BET ) ہیں۔ انکا ابھی تک کوئی منطقی متبادل نہیں ہے، نہ انکی اپنی پارٹی میں اور نہ ہی حزب اختلاف میں۔ کوگل مین کے مضمون کی بڑی سرخی یہ تھی کہ "عمران خان ابھی کہیں نہیں جا رہے اور وہ پانچ سال پورے کریں گے"۔ وہ کہتے ہیں حزب اختلاف میں اتنی طاقت اور خواہش ہی نہیں کہ وہ عمران خان کے خلاف ایک بڑی عوامی تحریک چلائے جو خان کو ہٹا سکے۔ حزب اختلاف ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے اور نون لیگ اور پی پی پی میں کھچاؤ ہے اور یہ پارٹیاں حکومت کو ناراض نہیں کرنا چاہتیں اور چاہتی ہیں کہ عمران پانچ سال پورے کرے تاکہ فوج کو یہ اندازہ ہو جائے کہ انہوں نے خان کی مدد کرکے غلطی کی مگر عمران ہو سکتا ہے نا تجربہ کار ہو اور فیصلے جلدی نہ کرتا ہو پھر بھی وہ فوج کا سب سے عزیز بیٹا ہے۔ اور اسکے اوپر خان نے کورونا پر قابو پا کر اپنے آپکو ملک مین بہت مضبوط کر لیا ہے کیونکہ بل گیٹس اور اقوام متحدہ کے لوگ انکو ایک شاندار کامیاب سٹوری قرار دے رہے ہیں۔
تو اصل سوال یہ ہے کہ ہمارے میڈیا کے چند حصّے بہت پریشان ہیں کہ انکی پیش گویاں اور تبصرے غلط کیوں نکلتے ہیں اور ساری غلطیوں اور ناکامیوں کے باوجود عمران خان کی حکومت نا صرف گر نہیں رہی بلکہ اچھے کام بھی مکمل کرے جا رہی ہے جیسے کے پی کے مین صحت کارڈ اور پشاور کی میٹرو یا کراچی میں فوج کا بھیجنا اورNDMAسے صفائی کا کام کروانا اور سندھ کی حکومت کو شرمندگی کا نمونہ بنا دینا۔
رہا نواز شریف کی واپسی کا طوفان تو یہ تو صرف ایک پیالی میں بلبلے ہی ہیں ورنہ سب کو پتا ہے نواز شریف واپس آنے کے لئے نہیں بھاگے۔ وہ صرف اپنی بیٹی کی سیاست کے لئے کوشش کر رہے ہیں مگر جو ہاتھ انہوں نے مولانا فضل رحمان کے ساتھ پچھلے آزادی مارچ میں کیا تھا اسکے بعد اب تو مولانا ساری رقم اور سارے سودے نقد ہی کرینگے خالی ٹیلی فون کال اور ادھار کے وعدوں سے کام نہیں چلے گا۔ مولانا کو بھی معلوم ہے کے اب نون لیگ اور زرداری صاحب میں وہ جان نہیں رہی کے سڑکوں پر ہزاروں لوگوں کو لا کر پنڈی والوں کے لئے درد سر کھڑا کر سکیں۔ اگر کسی بھی اے پی سی یا کوئی جلسہ جلوس کا پروگرام بنا تو سب مولانا کے مدرسوں کے بچوں پر ہی انحصار کریں گے مگر اس دفعہ عمران خان بھی تیار ہیں اور پنڈی والے بھی۔ مولانا صاحب کے خلاف زمینوں اور آمدن سے زیادہ اثاثاجات کے کیس تو پہلے ہی کھل چکے ہیں۔
عمران خان اب کھل کل کھیلنے کو تیار ہیں۔ اگر وہ جہانگیر ترین اور بزدار کو بچانے کے لئے تیار نہیں تو مولانا اور باقی سارے چور ڈاکوکیا بیچتے ہیں۔ میری پکّی خبر ہے کے خان صاحب نے ٹی وی پر تو بیان دے دیے جہانگیر ترین کے حق میں اور افسوس کا بھی اظہار کیا مگر انکو شاید بہت خطرہ ہے کے ترین صاحب برے پھنس گئے ہیں اور انکا اب بچنا مشکل ہے۔ وہ بھی ترین صاحب کو کسی مصیبت سے نکالنے کے لئے زیادہ پرجوش نہیں۔ تو اگر انکے پکّے ساتھی احتساب کی چکی میں رگڑے جائیں گے تو نواز شریف، زرداری، شہباز شریف، مولانا یا انکے چیلے چانٹے کیا بیچتے ہیں۔ رگڑا تو سب کو لگے گا۔ میڈیا والوں کو بھی تیار رہنا چاہیے۔