Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Out Of The Box

Out Of The Box

پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار آجکل میڈیا اور تجزیہ کاروں کی خاص توجہ کے مرکز ہیں۔ کچھ اینکرز نے کافی محنت کرکے مواد جمع کیا ہے اور کئی پروگرام بھی کر دیے ہیں اور انکے مطابق بزدار صاحب بھی وہی کام اپنے علاقے میں کر رہے ہیں جو ان سے پہلے کے حکمران کیا کرتے تھے یعنی کچھ دوستوں رشتے داروں اور فرنٹ مین کے نام ٹھیکے لینا، افسروں کی تعیناتی اور ٹرانسفر کرنا، ناجائز قبضے کرانا اور اپنی کرسی کی طاقت استعمال کرکے مال بنانا۔ بزدار صاحب ان سب الزامات کو بالکل بے بنیاد اور غلط سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں انہوں نے خود کوئی غلط کام نہیں کیا انکے نیچے والوں نے اگر کوئی چھوٹا موٹا ہاتھ مارا ہے تو وہ ذمہ دار نہیں۔ ایک اینکر کے خلاف انہوں نے 25 کروڑ کا عدالتی نوٹس بھی دے دیا ہے۔ اینکر نے کہا ہے انکے پاس تمام ثبوت موجود ہیں اور وہ انکو عدالت میں پیش کرینگے۔ تو یہ معاملہ اب عدالت جائے گا یا اگر درمیان میں کوئی بڑے لوگ نہ پڑ گئے اور مک مکا کرا دیا تو الگ بات ہے۔

بزدار صاحب کی میڈیا کا ایک حصہ شروع ہی سے مخالفت کر رہا ہے کہ وہ اتنے بڑے صوبے کی وزارت اعلیٰ کے لئے موزوں نہیں اور انکو کسی خاص وجہ سے کئی خاص لوگوں کے کہنے پر یہ منصب دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے سب کو حیران کر دیا تھا جب انہوں نے بزدار کو وزیر اعلیٰ لگایا تھا کیونکہ وہ نہ تو انکی پارٹی کے شروع سے ممبر تھے اور نہ ہی وہ اتنے مشہور اور تجربہ کار تھے کے انکو یہ منصب دیا جاتا مگر خان صاحب نے ان پرنہ صرف بھرپور اعتماد کیا بلکہ انھیں اپنی ٹیم کا وسیم اکرم پلس کہا اور ساری تنقید کو رد کیا۔ خان صاحب بھی مجبور تھے کیونکہ انکے پاس پنجاب اسمبلی میں اکثریت نہیں تھی اور وہ پنجاب کسی شاطراور چالاک سیاستدان کے حوالے نہیں کر سکتے تھے چاہے وہ انکی اپنی پارٹی کا ہی ہوتا۔ اسی لئے جہانگیر ترین چودھری برادران یا شاہ محمود قریشی ہاتھ ملتے رہ گئے۔ عمران خان پنجاب کو اپنی سخت گرفت میں رکھنا چاہتے تھے اور ہیں اور یہ ہی صحیح سیاست تھی۔ فرض کیجئے پرویز الہی وزیر اعلیٰ بن جاتے تو پھر پنجاب عمران خان کے ہاتھ سے گیا تھا کیونکہ وہ فوراً سے پیشتر نون لیگ اور کچھ لوٹوں سے مل کر عمران خان کے خلاف کھڑے ہو جاتے۔ یہی ان کی سیاست رہی ہے۔ خان نے اچھا کیا ان سب کو الگ رکھا جو پہلا موقع ملتے ہی اپنا کام دکھا دیتے۔ اسلئے بزدار یا بزدار جیسا ہی کوئی فرمانبردار وزیر اعلیٰ انھیں چاہیے تھا جو ہر کام کے لئے اسلام آباد سے اجازت لے اور خود یہ صلاحیت ہی نہ رکھتا ہو کہ کسی سے مل کر بغاوت کرے یا کوئی بڑا ہاتھ مار کر وزیر اعظم کو شرمندہ کرے۔ یہاں تک تو خان کی سیاست ٹھیک رہی مگر پاکستان کو کامیابی سے چلانے کے لئے پنجاب کو انتہایی تیز رفتار سے چلانا بھی ضروری تھا۔

ہر طرف سے آوازیں آنے لگیں کہ بزدار کچھ نہیں کر سکتا اور پنجاب خان کے ہاتھ سے نکل رہا ہے مگر خان صاحب نے اپنی پسند کے افسروں اور مشیروں کی مدد سے پنجاب کو سنبھال کر رکھا یہاں تک کے خاموشی سے بزدار کو بھی کچھ کچھ سمجھ آنا شروع ہوگئی اور وہ بھی اب کچھ کرتے ہوے نظر آنے لگے۔ پنجاب میں سب سے بڑا کام نون لیگ کو قابو میں رکھنا تھا پی پی پی تو پہلے ہی فارغ ہو چکی تھی سو نیب نے اور باقی اداروں نے نون لیگ پر اتنا ملبہ ڈال دیا کہ وہ بیچارے سوائے جان اور مال بچانے کے کچھ کرنے کے قابل ہی نہ رہے۔ پوری پارٹی اس بات پر جشن منا رہی تھی کہ بڑے میاں صاحب چکّر دے کر ملک سے بھاگ گئے یا بھگوا دیے گئے۔ کیسا افسوس کا مقام ہے کہ تین بار وزیر اعظم اور سالوں تک پنجاب کے بادشاہ رہنے کے باوجود ساری پارٹی صرف اسلئے رس گلے کھا رہی تھی کہ میاں صاحب فرار ہو گئے اور کوئی انھوں روک نہیں سکا۔ انکا نعرہ 'روک سکو تو روک لو' سچ ثابت ہو گیا اور وہ پاکستان سے ہی بھاگ لئے:

"کمر باندھے ہوے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں

بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں "

یہی کچھ حال زرداری اور انکی پارٹی کا ہے۔ وہ بھی ملک سے پتلی گلی سے نکلنے کے لئے جان توڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔ سارا زور اس بات پر ہے کے کیس نہ چلاے جاییں اور صحت اور بزرگی کی وجہ سے زرداری کو معاف کر دیا جائے اور بلاول کو سیاست کرنے دی جائے۔

تو عمران خان کو اب مشکل ایک ہی رہ گی ہے کہ بزدار صاحب سے یا تو کچھ اچھا کام لیا جائے یا اگر وہ کسی نیب کے چکر میں پھنس جاتے ہیں تو انکی جگہ کس کو لگایا جائے۔ کچھ معلومات رکھنے والے صحافی اور تجزیہ کار کہتے ہیں خان صاحب نے اس دوسرے نکتے پر غور کرنا شروع کر دیا ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ کسی ایک شخص کی وجہ سے انکا " احتساب سب کا نعرہ " مجروح ہو۔ کئی مثالیں موجود ہیں کہ پی ٹی آئی کے وزیر اور مشیر الزامات لگنے پر ہٹا دیے گئے اور پھر واپس بھی لے لئے گئے۔ تو بزدار صاحب کے ساتھ بھی یہی ہو سکتا ہے مگر خان صاحب کا سب سے مشکل فیصلہ وہی ہے کہ انکی جگہ کون لے۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے ایک"out of the box" حل نکالا جائے اور ایک تجویز کافی وزن دار لگتی ہے وہ کچھ اس طرح سے ترتیب دی جا رہی ہے کے اس سے پہلے کہ بزدار نیب کے شکنجے میں آئیں پنجاب میں خان صاحب اپنے کسی قابل بھروسہ ساتھی کو پنجاب کی کابینہ کا سینئر وزیر لگا دیں اور بزدار صاحب پہلے تو اپنی صحت کو ٹھیک کرنے اور پھر عمرہ وغیرہ کرنے کچھ ہفتوں کے لئے چھٹی پر چلے جائیں مگر وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ نہیں دیں تاکہ اسمبلی میں اور حکومت میں کوئی ہلچل پیدا نہ ہو۔ اسی دوران نیب بھی ان سے دو دو ہاتھ کرلے اور اس تمام صورتحال کو جتنا لمبا ہو سکے کھینچا جائے۔ اسی دوران نون لیگ کے حالات اور دگرگوں ہونے کی توقع ہے جسکے نتیجے میں اتنے پنجاب اسمبلی کے ممبر مل جائیں کہ ایک نئے وزیر اعلیٰ کا انتخاب ممکن ہو سکے۔ نون لیگ کے ناراض ممبروں کا ذکر بار بار آتا رہتا ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ ان ممبروں میں شدید ناراضگی نہ ہو کیونکہ انکے قومی لیڈر تو صرف اپنی ذات تک سیاست کر رہے ہیں اور ساری حزب اختلاف اور دوسری پارٹیوں کو بھی کھلے عام دھوکہ اور چکر دے رہے ہیں۔ خود مولانا فضل رحمان، محمود خان اچکزئی، بلوچی پارٹیاں اور دوسرے بھی شکایتیں کرتے پھر رہے ہیں، جوتوں میں پکی پکائی دال کھلے عام بٹ رہی ہے۔ تو اس سے اچھا موقع عمران خان کو نہیں ملے گا اپنی پارٹی اور اسمبلی میں طاقت بڑھانے کا۔

سینئر وزیر بھی اس دوران اپنی کارکردگی دکھائیں اور پنجاب میں وہ کام کریں جو بزدار صاحب ابھی تک نہیں کر سکے۔ سب سے بڑا کام اپنی پارٹی کو اتنا مضبوط کرنا ہوگا کہ وہ ہر طرح کی بلیک میلنگ سے آزاد ہو جائے۔ اس تاثر کو مضبوط کیا جائے کے اب عمران خان اور پنجاب کی حکومت پانچ سال پورے کریں گے تاکہ قاف لیگ بھی اپنے دائرے میں رہے اور اسے بھی معلوم ہو جائے کہ اگراس نے آپے سے باہر ہونے کی کوشش کی تو چودھری پرویز الہی اپنی سپیکر کی کرسی سے بھی فارغ کئے جا سکتے ہیں۔

اس ڈبے سے باہر کے حل پر ابھی میں نے کسی بڑے سیاستدان سے رائے نہیں مانگی مگر کچھ لوگ جو بنی گالا اور وزیراعظم سے رابطے میں رہتے ہیں انکا کہنا ہے جناب بزدار کے بارے میں خان صاحب اب گہری سوچ و بچار کر رہے ہیں اور فیصلہ جلد ہی نظر آئیگا۔ اس کی نشاندہی سوشل میڈیا پر خان صاحب کے چاہنے والے اور پی ٹی آی کے جیالے بھی زور و شور سے کر رہے ہیں۔ ایک اینکر صاحب نے یہ خبر جب چلا دی کہ خان صاحب نے بزدار سے استعفیٰ مانگ لیا ہے تو میں نے خان صاحب سے پوچھ لیا۔ انکا جواب آیا یہ سب غلط ہے اور یہ باتیں ایسے لوگ پھیلا رہے ہیں جو پنجاب کے وزیر اعلیٰ بننا چاہتے ہیں۔ پھر انہوں نے کہا کہ بزدار کے خلاف الزامات کی انہوں نے تحقیق کرا لی ہے اور سب الزام غلط ہیں۔ مگر اس جواب سے یہ تو معلوم ہوا کہ پنجاب میں کھینچا تانی ابھی جاری ہے۔ جب تک خان صاحب کوئی فیصلہ نہیں کر لیتے بزدار صاحب کے پیچھے وہ کھڑے رہینگے۔ باقی کام ابھی نیب نے کرنا ہے۔

About Shaheen Sehbai

Shaheen Sehbai

Shaheen Sehbai is a Pakistani-American journalist and the current Group Editor of daily English newspaper The News International. Shaheen Sehbai resigned from The News International in March 2002 after receiving a memorandum from his publisher admonishing him for publication of libellous matter, alienating advertisers, and being generally inaccessible to senior government officials as well his own staff among other complaints; Mr. Sehbai defended himself saying that he was being persecuted for failing to support the Musharraf government. In August 2002, the Committee to Protect Journalists sent a public letter to then-President Pervez Musharraf to draw his attention to alleged harassment of Shaheen Sehbai's family members living in Pakistan.