بازار میں رش خاصا تھا اس بڑے اسٹال پر سوائے آٹے اور تیل کے کھانے پینے کی تمام اشیا دستیاب تھیں، اس اسٹال پر قیمتوں کی کچھ کمی کے باعث گاہکوں کا تانتا بندھا رہتا ہے، سودا فروخت کرنے والے انتہائی برق رفتاری سے کام میں جتے رہتے ہیں اس قدرکی مصروفیت میں ان سب کے منہ اکثر چلتے دیکھے گئے، وہ کیا چباتے رہتے ہیں خدا جانے۔
"ہاں دے۔۔۔ " انتہائی عجلت میں ایک نے دوسرے کو ہانک لگائی تو دوسرے نے کچھ کالا سا گویا املی کی مانند گندھا ہوا سا اس کے ہاتھ پر دھرا اور اس نے جھٹ میں پھانک لیا۔ یہ کچھ کالا سا جیسے کنکروں کو کسی سیاہی مائل محلول میں بھگوکر رکھنے کے بعد استعمال کیا جاتا ہے، اس کا مزہ کیسا ہے۔
اس بات کا تو علم نہیں لیکن دیکھا گیا ہے کہ کام کرنے والے خاص کر مزدور طبقے کے حضرات اسے بڑے ذوق وشوق سے استعمال کرتے ہیں اسے گٹکا کہا جاتا ہے جس کی بد ترین اقسام میں ماوا اور مین پوری شامل ہیں جس کے مستقل استعمال سے انسانی جسم پر انتہائی مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں جو زہر بن کر ان کی زندگیوں کو نگل رہے ہیں۔
حال ہی میں حکومت کی جانب سے اس زہریلے کاروبار سے منسلک افراد کی گرفتاریاں اور سخت کارروائی کی ہے جو یقینا ایک زبردست عمل ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طرح ان زہر آلود اشیا کو استعمال کرنے والوں کے رجحان میں کچھ تبدیلی آئی ہے؟
وہ ایک پان فروش کی دکان تھی جہاں لوگوں کو اس بات کا گلہ تھا کہ فلاں چھالیہ اب دستیاب نہیں ہے دراصل وہ خوبصورت پنی کی پیکنگ میں ایک گٹکا چھالیہ تھی جو لوگوں میں خاصی مقبول تھی، لہٰذا گاہک اب پان کھانے پر مجبور تھے، پان دراصل ایک ذائقے دار سبز، خوبصورت خوشبودار پتہ ہے جسے براعظم ایشیا میں خاص کر پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ پہلے اسے کھانے کے بعد نظام ہاضمہ سے منسلک بیماریوں کو رفع کرنے کے کام میں لایا جاتا تھا لیکن کسی عقل مند نے اس کے ساتھ کتھا، چونا اور چھالیہ کا بگھار لگایا لیکن اتنا ضرور ہے کہ ماوا، گٹکا اور مین پوری ہمارے کراچی کے قدیم علاقوں کی پیداوار ہے، ہو سکتا ہے کہ اس کے بنانے والوں نے اس خیال کو کسی سے چرایا ہو لیکن اسے نشے کی حد تک بنانا نہایت گھناؤنا عمل ہے جو آج کل کے الیکٹرانک میڈیا کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوسکا، اس کی پروڈکشن میں کیا کیا تراکیب اور حرام اشیا تک کا استعمال کیا جاتا ہے جو کھانے والوں کو سرور بخشتا ہے۔
پرانے زمانے میں جب عوام تمباکو، میٹھے اور سادہ پان چھالیہ سے مستفید ہوتی تھی اسی زمانے میں پان والے حضرات میٹھے پان میں استعمال کے لیے کتری ہوئی چھالیہ کو گلقند میں بھگو کر رکھا کرتے تھے، ایسے کاموں کے لیے گلی ہوئی پرانی چھالیہ جو پھینکنے کے لائق ہوتی کام میں لایا جاتا جس میں وقتاً فوقتاً پنواڑی حضرات اپنا بچا ہوا پرانا کتھا بھی ڈال دیا کرتے اسی طرح کچھ سونف اور میٹھے رنگین سونف دانوں کے ملغوبے کو اچھی طرح ملانے کے بعد اسے چمکتے ورق لگا کر سامنے رکھ دیا جاتا جو گاہکوں کو متوجہ کرتے اس طرح یہ گٹکے اپنے دور کے لحاظ سے برا اور گھٹیا بنانے کے باوجود اس قدر زہریلے نہ تھے جسے گزرتے وقت نے گلقند کو ایک طرف کرکے جانوروں کے خون کو بھی استعمال کرنے سے گریز نہ کرنے پر مجبور کردیا، یہ زیادہ پیسے مانے کا جنون تھا یا کچھ اور۔ لیکن جس تیزی سے ہمارے ملک میں اور خاص کر کراچی میں منہ کے امراض کے مبتلا نوجوان طبقہ بری بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں اس کا سدباب کرنا اشد ضروری ہے۔
خطرناک قسم کے گٹکے اور ماوے میں چونے کا استعمال بھی جس بے دردی سے کیا جاتا ہے جو آہستہ آہستہ منہ کے اندرکی نازک جلد کوکھرچتا جاتا ہے اور خطرناک مرض کی شکل میں ابھر کر سامنے آتا ہے، صرف یہی نہیں بلکہ دل کے امراض میں بھی کیلشیم کی موجودگی کو خطرناک قرار دیا گیا ہے۔
سائنس دانوں نے کیلشیم کی موجودگی اور تمباکو نوشی کو صحت کے لیے خطرناک قرار دیا ہے کیونکہ انسانی دل جو خون صاف کرکے پورے جسم میں سرایت کرنے کا ذمے دار ہے انتہائی مضبوط ہونے کے ساتھ انتہائی کمزور عضو بھی ہے کہ جس کی اگر صحیح طرح سے دیکھ بھال نہ کی جائے تو یہ مضبوط عضو ناکارہ بن کر موت کا پیغام لاتا ہے۔ سائنس دانوں نے دل کے معمولات، حرکات اورکیلشیم کی سطح کو جانچنے کے لیے پچیس ہزار لوگوں کے ڈیٹا حاصل کیے، ان لوگوں میں نوجوانوں کے علاوہ درمیانی عمرکے افراد بھی شامل تھے۔
اس تحقیق کے معاون ریسرچر ڈاکٹر ہنریک ٹیورن مویرا کا کہنا ہے کہ " کیلشیم کی سطح کے بلند ہونے میں مختلف عوامل کام کرتے ہیں، ان کے مطابق بڑھتی عمر، عمر رسیدگی، کولیسٹرول کی سطح کا بلند ہونا، ہائی بلڈ پریشر اور تمباکو نوشی (تمباکو چاہے کسی صورت میں بھی چاہے گٹکا، ماوا یا مین پوری) شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ریسرچ اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ ایسی صورتحال میں دل کا بایاں ونٹریکولر والیوم زیادہ متاثر ہوتا ہے کیونکہ دل کو خون آگے بڑھانے یا پمپ کرنے کے لیے زیادہ زور لگانا پڑتا ہے جس کے نتیجے میں دل موٹا ہوجاتا ہے جس سے دل فیل ہوجانے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے دیگر احتیاط کے علاوہ تمباکو کو کھانے پینے سے اجتناب بہت ضروری ہے۔ "
اس حالیہ تحقیق نے ایک بات تو واضح کردی ہے کہ تمباکو کھانے، پینے دونوں صورتوں میں انسانی دل کو متاثر کرتا ہے۔ ہمارے یہاں والدین بچوں کی صحت و تندرستی کے حوالے سے خاصے پریشان رہتے ہیں، چاہے ان کا تعلق کسی بھی طبقے سے ہو، سندھ میں اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے بڑی کارروائیاں جاری ہیں کیونکہ یہاں منہ کے کینسر کے باعث نوجوانوں کی بڑی تعداد موت کے منہ میں جا رہی ہے لیکن پاکستان بھر کے اسکولز، کالجز اور دوسرے تعلیمی اداروں کے پاس کیا ایسے عوامل متحرک نہیں ہیں جو ہماری نسل کو کسی نہ کسی بہانے تباہی کے دہانے پر لے جا رہے ہیں، چاہے وہ گٹکا، ماوا یا مین پوری ہو یا کسی بھی صورت میں ماڈرن تمباکو نوشی، تدارک تو ضروری ہے۔