Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Hum Dekhenge

Hum Dekhenge

سنا تھا کہ جب قراۃ العین حیدر نے مشہور زمانہ ناول "آگ کا دریا " لکھا اور وہ لوگوں کے ہاتھوں میں آیا تو بہت سے لوگ ان کے دشمن ہوگئے، کیونکہ ان کے خیال میں قراۃ العین حیدر نے نظریہ دشمنی کی ہے۔ انھیں ہندوستان کا بٹ جانا پسند نہ تھا وغیرہ وغیرہ۔ وہیں بہت سے لوگوں نے "آگ کا دریا" کو ایک ادبی شاہکار قرار دیا جس میں قراۃ العین حیدر نے برصغیر کی تاریخ کو مختصراً لفظوں میں خوبصورتی سے رقم کیا، ادوار مختلف تھے کردار وہی تھے کہ اسے پڑھنے کے لیے دل میں ذرا وسعت کی ضرورت تھی۔

"آگ کا دریا" اس قدر دلچسپ تھا کہ ہم نے اسے ایک ہی دن میں چٹ کر دیا، ان بزرگ خاتون کا چہرہ آج بھی نگاہوں میں گھوم جاتا ہے جو خود اردو ادب کی بڑی مداح تھیں، شعر و شاعری سے شغف ازحد تھا کہ خود ان کے خاندان میں کئی شعرا موجود تھے۔ ان کے والد اور شوہر نامدار بھی اس کی محبت میں مبتلا تھے، شاعری کی اصلاح، شعر کا وزن، اس کا رنگ ان کے لیے زبان کی چاشنی کی مانند تھا، ان کا تعلق لکھنو سے تھا، جب کہ آباواجداد اہل فرہنگ تھے۔ یوں اردو کے علاوہ فارسی اور ہندی کے ساتھ عربی سے بھی شناسائی تھی، بڑے بڑے شعرا کا کلام زبانی یاد تھا۔ وہ مضامین کی طوالت کو دلچسپی اور خوبصورتی سے جوڑنے پر توجہ دیتی تھیں کہ قارئین بوریت نہ محسوس کریں۔

اردو زبان تو لشکری زبان ہے جیسے لشکر ہوتے ہیں آتے ہیں فتح کرلیتے ہیں مال و اسباب سمیٹتے ہیں اور آگے چل پڑتے ہیں ایسے ہی یہ زبان ہے جس میں دنیا بھر کی زبانوں کے الفاظ شامل ہیں کہیں ہندی، عربی تو کہیں فارسی یہاں تک کہ فرنگی زبان کو بھی اردو زبان نے سمیٹ لیا، یہ بڑی خوبصورت اور عجب زبان ہے۔ سنسکرت ان کے خیال میں یہ بہت خوبصورت زبان ہے بڑی چاشنی ہے اس میں۔

پتا نہیں ہم اب کس کس طرح کے الفاظ استعمال کرنے لگے ہیں مثلاً ایک چھوٹا سا بڑا خوبصورت لفظ ہے ترنت۔ لیکن ہم کہتے ہیں جلدی آؤ۔ اگر ہم یوں کہیں کہ ترنت آؤ تو کس قدر خوبصورتی بھر جاتی ہے جملے میں۔ ایسے خوبصورت لوگ اب کہاں ہیں جنھیں کبھی دیکھا تھا، عمر میں وہ جیسے نانی دادی تھیں، سفید براق سے بال چہرے پر سنجیدگی اور جھریوں سے جھلکتی گزرے وقتوں کی کہانیاں سناتی تھیں، ان کی زبانی بڑے قصے کہانیاں سنیں۔ اچھی باتیں، اثرانگیز، پرفکر، مثبت خیالی یہ سب کچھ ملے جلے سے تھے۔

کردار کی پختگی، پاکیزگی، پرعزم اور صداقت ان کی کہانیوں کے پسندیدہ موضوعات تھے۔ بات ہو رہی تھی قراۃالعین حیدر کی کہ جنکے قلم کی کاٹ نے کچھ تو ایسا کیا تھا کہ بہت سے سلگ اٹھے تھے، یہ ناول جب ہاتھ میں تھاما تو خیال آیا کہ اسے تو پہلے بھی پڑھا تھا پر پلے کچھ نہ پڑا تھا کہ بات بھکشو اوتار، کرما سے ہوتی پاکستان پر ختم ہوتی نظر آتی تھی، پھر بھی سوائے بہت مشکل زبان ہے کرکے نظروں سے گویا گزار کر فرض ادا کرلیا تھا کہ ہم نے بھی آگ کا دریا پڑھا ہے۔ پر اب حال کے چند گزرے برسوں پہلے اسے دیکھا تو دلچسپی سے پڑھنے کی کوشش کی اور اس بار کچھ سمجھنے میں کامیابی ہوئی۔ اس پر تبصرہ کرنے کا ارادہ ابھی تو نہیں ہے لیکن ایک مصنفہ کے خیال کو کچھ سمجھنے کا وہم ضرور ہے کہ پھر وہی بات کہ ابھی اس دشت میں نو وارد ہی ٹھہرے۔ فیض احمد فیض ایک مشہور شاعر ہیں جن کی شہرت دنیا بھر میں ہے ان کا کلام ان کا لہجہ اور بے باکی محبوبہ اور محبوب کے درمیان چونچلوں اور خیال انگیزیوں سے بڑھ کر ہے۔

یہ ان کا اپنا انداز ہے جو ان کی فطرت کا حصہ بھی ہے۔ ان کی مشہور نظمیں آج بھی بڑے شوق سے پڑھی اور گائی جاتی ہیں۔ ان کی زندگی میں جیل کی سلاخوں کا بھی بڑا اہم کردار ہے جس کے پیچھے ان کے جذبات کچھ اور بھی بپھر جاتے تھے جو شعری صورت میں امنڈے جاتے تھے۔ عام طور پر شاعروں کے حوالے سے جو باتیں مشہور ہیں فیض صاحب ان سے ہٹ کر تھے وہ خاصے پڑھے لکھے اور انگریزی زبان پر خاصا عبور رکھتے تھے۔ انھوں نے انگریزی ادب میں ایم اے کیا تھا۔

ترقی پسند شعرا میں ان کا اپنا ایک اعلیٰ مقام تھا۔ بھٹو صاحب کے دور میں وہ شاید اس لیے بھی اور مقبول ہوئے کہ خود بھٹو صاحب جنھوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی تھی اپنے منفرد خیالوں اور فلسفے کے باعث سیاسی میدان میں وہ الگ ہی تھے۔ پڑھے لکھے لوگوں کی ان کی نظر میں بہت عزت تھی، اسی دور میں ایک اور صاحب جو بہت خوبصورت انگریزی بولتے تھے خاصے پڑھے لکھے بھی تھے بھٹو صاحب کے بہت نزدیک آگئے تھے اور ان سے خاصا عہدہ بھی وصول کرلیا تھا۔

بھٹو صاحب علم اور قابلیت کے معاملے میں لوگوں کے لیے شاہ تھے یہ الگ بات ہے کہ بہت سے لوگوں نے ان کی اس طبیعت سے خوب فائدہ بھی اٹھایا اور جب انھیں ان کی ضرورت پڑی تو۔ بات ہو رہی تھی فیض احمد فیض جیسے بلند قد کے شاعر کی کہ جنکی مشہور نظم کے چند مصرعوں پر کانپور کی ایک تعلیمی درسگاہ میں تو ہنگامہ برپا ہو گیا۔ فیض کے انتقال کے چونتیس برس بعد وہاں کچھ لوگوں کو خیال آیا کہ فیض صاحب نے ہندوؤں کے مذہب کا مذاق اڑایا ہے۔

یہ انکشاف سترہ دسمبر 2019 کو اس موقع پر ہوا جب کانپور کے ایک اسٹیڈیم میں طالبعلم احتجاج کرتے فیض احمد فیض کی نظم "ہم دیکھیں گے" گانے لگے اور جہاں بتوں کی بات آئی وہیں ان کی سوئی اٹک گئی جو اس حد تک اٹکی کہ ایک شور مچ گیا تب ہی دو گروپ نظر آئے ایک گروپ اپنے لوگوں کی جہالت پر شرمندہ تھا کہ جنھیں اس مشہور نظم کی سمجھ ہی نہ آئی تھی جب کہ دوسرا گروپ مصر تھا کہ فیض صاحب نے ان کے دھرم کی ہنسی اڑائی ہے اور انھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، مشہور شاعر جاوید اختر اس پورے معاملے کو فنی قرار دے رہے ہیں، ظاہر ہے کہ اس احمقانہ خیال کی کون عقلمند، مدبر، دانشور تصدیق کرسکتا ہے۔ ایک اور ادبی شخصیت منور رانا کے مطابق "تو مت پڑھو فیض کو نقصان تمہارا ہی ہے۔"

صرف یہی نہیں بلکہ کئی بڑے ہندو ادیب اور شعرا اپنے نوجوانوں کی اس حماقت پر شرمندہ ہیں کہ ان کے اس بے وقوفانہ احتجاج پر دنیا ان کا مذاق اڑا رہی ہے۔ ہر ایک شخص کے اپنے نظریات ہوتے ہیں، بڑے بڑے ادیب، شعرا اور دانشور اپنے اپنے نظریے کو دیکھتے ہیں پسند کرتے ہیں اور جسے اوپر والا چاہے عزت دے لیکن ان دنوں بھارت میں جو آگ سلگ رہی ہے اسے بھڑکانے والی ان کی اپنی حکومت ہے جس نے نفرت کی آگ میں اس حد تک شدت پیدا کردی ہے کہ ان کی اپنی نوجوان نسل اب نظموں اور غزلوں میں بھی اپنے تعصب کو تول رہی ہے، ہو سکتا ہے کہ فیض کے بعد میر اور غالب کی بھی باری آجائے۔ شاید کوئی شعر، کوئی مصرع خدا جانے، بقول فیض کے:

وہ جب بھی کرتے ہیں اس نطق و لب کی بخیہ گری

فضا میں اور بھی نغمے بکھرنے لگتے ہیں