حال ہی میں اعلیٰ عدالت کی جانب سے ایک اہم اور چونکا دینے والے فیصلے نے بہت سے معاملات کو سنجیدگی سے سلجھانے اور ملک کے لیے اہم نتائج کی حصولی کو ناگزیر بنا دیا ہے۔
پاکستان کے قیام کو 72 سال گزر چکے ہیں کسی بھی ملک کے لیے 72 سال کی تاریخ معمولی نہیں ہوتی لیکن نامساعد حالات اور بیرونی دباؤ اور مداخلت کے باعث ملک کئی بار طوفانوں سے ٹکرا کر لوٹا ہے پھر بھی اب ضروری ہے کہ اداروں کو طاقتور بنانے کے ساتھ ان کے درمیان تعلقات اور معاملات کو اس حد تک سہل اور ضروری بنایا جائے کہ عوام مجبور تماشائی بن کر نہ رہ جائیں۔
یہ درست ہے کہ قیام پاکستان کے فورا بعد قائد اعظم کی رحلت کے باعث بہت سے اعلیٰ اداروں میں بوکھلاہٹ پائی گئی تھی، اس کا سبب چاہے کچھ بھی ہو لیکن ماضی میں کی گئی فاش غلطیوں کو بار بار دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ امریکا یا برطانیہ ہو یا پڑوس میں بھارت یہ دیکھنے اور تجزیہ کر کے عمل کرنے کی ضرورت ہے کہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک اپنے دفاعی اداروں اور حکومتی اداروں کو کس طرح متحد اور کن خطوط پر چلاتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ جس طرح ہمارے بہت سے ادارے ترقی کے خواہاں ہیں اور ترقی یافتہ ممالک کے اداروں کی اسٹریٹجی کو اپنا رہے ہیں۔
اسی طرح سرکاری اور دفاعی ادارے بھی عمل پیرا ہیں گو اب بہت سے سرکاری اداروں کو بھی بتدریج ترقی کی سیڑھیوں پر دیکھا تو جا رہا ہے، اب اس کے نتائج کس طرح کے مرتب ہو رہے ہیں یہ آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے۔ بہرحال ابھی حکومتی اور دفاعی اداروں کے درمیان عدلیہ جو کسی بھی ملک کے لیے نہایت اہم ہے بظاہر مختلف پلیٹ فارمزکی جانب نظر آ رہے ہیں جن سے ظاہر ہے کہ عوامی حلقوں میں بے چینی کا عنصر پیدا ہو رہا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟
پاکستانی قوم فطرتاً اپنی فوج سے جذباتی طور پر لگاؤ رکھتی ہے اور شاید ایسا ہمارے مذہب کی جانب سے بھی ہمیں ورثہ ملا ہے کیونکہ ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمدؐ نے بھی سپہ سالار بن کر جس ذمے داری کو بخوبی نبھایا، کیا آپؐ جیسے عظیم مرتبے والی ہستی کو ضرورت تھی کہ آپؐ غزوات میں خود شریک ہوکر اپنے ساتھیوں کا حوصلہ بڑھاتے، خود تلوار اٹھا کر دشمنوں کی چھٹی کرا دیتے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے کئی عظیم جرنیلوں کو جنم دیا، چاہے وہ حضرت علیؓ ہوں یا حضرت فاروقؓ، صلاح الدین ایوبی ہو یا محمد بن قاسم ایک کے بعد ایک ان عظیم فوجی رہنماؤں نے نہ صرف اپنی تلواروں سے جنگیں جیتیں بلکہ اپنے حسن سلوک اور اخلاق سے اس طرح لوگوں کے دلوں کو مسخر کیا کہ اسلام خود بخود پھیلتا چلا گیا۔
اسلام کو پھیلانے والے ان مجاہدین اسلام کو کیا ہم اپنی اسلامی تاریخ سے الگ کر سکتے ہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ دوسری جانب عدلیہ کا وقار بھی ہماری اسلامی تاریخ میں اس طرح سے ممتاز چمکتا نظر آ رہا ہے کہ جب آنحضرتؐ سے ایک امیر زادی کے چوری کے معاملے میں سفارش کی گئی کیونکہ اس کا تعلق قریش قبیلے سے تھا جو عرب میں ایک با اثر قبیلہ تھا پر آپؐ کے جذبے کو سلام ہے کہ آپؐ کا انصاف جس کے پائے آج دنیا بھر میں انصاف کے اعلیٰ میناروں کے قوانین کی بنیادیں رکھی گئیں، کتابیں رقم ہوئیں، کیونکہ وہ انصاف سچائی، صداقت اور ایمان کی روشنی میں ڈوبا تھا جس میں رنگ، نسل، مرتبہ، تفرقہ اور کوئی عصبیت کا شائبہ بھی نہ تھا، فرمایا کہ "خدا کی قسم اگر اس کی جگہ میری اپنی بیٹی فاطمہؓ بھی ہوتیں اور ان سے بھی یہ جرم سرزد ہوتا تو اس کے لیے بھی میں یہی سزا مقرر کرتا۔"
جرم چوری کا تھا اور فیصلہ آپؐ کا۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کے لیے تجوریوں کے منہ کھل جاتے یا شاید اسلام کے فروغ کا لالچ بھی حائل ہوتا، لیکن یہ سب ہمارے آج کے مفروضات ہیں۔ میرے پیارے آقاؐ نے تو صرف انصاف کے ترازو کو اپنے رب کے عطا کردہ قانون میں تولا اور نافذ کر دیا، یہ تھا، میرے پیارے آقاؐ کا انصاف۔ آج ہمارے اذہان سے وہ ساری تاریخ کیسے محو ہو گئی۔
آج مغربی ممالک میں حضرت عمر فاروقؓ کی طرز حکومت اور آپؐ کے قائم کردہ انصاف کی مثالوں پر حکومتیں اور انصاف کے اداروں میں بڑے جذبے سے کام ہو رہا ہے اور تعریفیں کرنے والے ہم جیسے ہیں جو واہ واہ کرتے ہیں جب ایک انگریز وزیر اعظم سائیکل پر اپنے دفتر پہنچتا ہے آفس میں اگر چائے گر جائے تو خود صاف کرتا ہے، ایک جج وزیر اعظم کو سزا سناتا ہے، سب مل جل کر ترقی یافتہ اقوام بننے کے عمل سے گزر کر آج ہماری آنکھوں کو خیرہ کر رہے ہیں کیونکہ ہم اپنی تاریخ بھلا بیٹھے ہیں۔
نظریات کی پختگی کو عقیدہ کہتے ہیں۔ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے جہاں اسلام کے ساتھ جمہوریت بھی جڑی نظر آ رہی ہے۔ عدل عربی زبان سے نکلا ہے جس کے لغوی معنی برابر تقسیم کرنے اور انصاف کرنے کے ہیں، جسے ہم عدالتوں میں دیکھتے ہیں۔ اسی طرح جنگ جو فارسی زبان کا لفظ ہے معنی ہیں لڑائی، معرکہ اور دشمنی جب کہ جہاد جو عربی زبان کا لفظ ہے اس کے لغوی معنی انتہائی کوشش، جدوجہد اور سخت محنت و مشقت کے ہیں، ہم ان دونوں کو فوج میں دیکھتے ہیں، مختلف الفاظ مختلف معنی اور عقیدہ ان سب کو اسلام نے خوبصورتی سے جوڑا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"وہ (لوگ) جو اللہ کے کیے ہوئے عہد کو پختہ کرنے کے بعد توڑتے ہیں اور جن رشتوں کو اللہ تعالیٰ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے انھیں کاٹ ڈالتے ہیں اور زمین میں فساد مچاتے ہیں ایسے لوگ ہی بڑا نقصان اٹھانے والے ہیں۔" (سورہ البقرہ۔ آیت نمبر 27)
سرکار ذمے داریاں سونپنے سے پہلے عہد لیتی ہے اور پاک مقدس کتاب کی قسم کھائی جاتی ہے یہ تقدس کا رشتہ تو دنیا میں آنکھ کھولتے ہی بندھ جاتا ہے لیکن پھر بھی دہرانے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے۔ ہم کہیں نہ کہیں سے کچھ تو بھول رہے ہیں کہیں نہ کہیں تو غلط کر رہے ہیں، کہیں ادارے اختیارات کی ناشکری تو نہیں کر رہے جو گزر چکا ہے اس وقت کو لوٹایا نہیں جا سکتا، لیکن آنے والے وقت اور نسلوں کے لیے اداروں کے درمیان روابط اور تعلقات کو بہترین اور ملک کے لیے موثر بنانے کی اشد ضرورت ہے کہ عہد توڑنے کی سزا ہم پہلے بھی بھگت چکے ہیں۔