Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Modi Sarkar Dehshat Gardi Ke Sath

Modi Sarkar Dehshat Gardi Ke Sath

نریندر مودی اپنی حکمرانی کی دوسری اننگز کھیلنے کے لیے جس مستعدی سے پردہ سیمیں پر جلوہ گر ہوئے تھے تو خیال کیا جا رہا تھا کہ اس بار وہ کارنامہ کر جائیں گے، پر ایسا ہوا نہیں کیونکہ پچھلے پانچ سال میں انھوں نے اپنی جس بری کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا تو زیادہ تر ناقدین کا خیال تھا کہ الیکشن 2019کی بازی تو ان کے ہاتھ سے نکل ہی گئی۔

ابی نندن جیسے فائٹر پائلٹ کے کیریئر کی قربانی دے کر انھوں نے پاکستان دشمنی کے لیے نئے باب کا اعادہ تو کیا تھا لیکن قدرت کو ان کی تمام تر چالبازیوں کے باوجود دوسری بار حکمرانی کا تاج پہنانا مقصود تھا تو ایسا ہو گیا، گو گزرتی عمر کے ساتھ نریندر مودی اسے بھی اپنی پوجا پاٹ اور اندرونی اسکیموں کا انعام سمجھتے ہوں گے پر کون جانے کہ یہ جیت کب ان کی بڑی ہار میں بدلتی ہے۔

بھارت میں سرکار تو نہ بدلی اور نہ ہی وہاں کے رواج، البتہ سرکاری چیلے جیت کے نشے میں اس قدر مغرور ہو گئے ہیں کہ پہلے اپنے ہی بڑے سیاستدان نہرو اور گاندھی جی کی سیاست میں ان کی کی گئی عملی چالوں کو کہ جس نے خیر سے پاکستان کو تو خاصا نقصان پہنچایا تھا لیکن 2019 میں پہنچ کر انھیں احساس ہوا کہ نہرو جی اور گاندھی نے آخر ایسا کیا کر دیا تھا انھوں نے تو بڑا غلط کیا خاص کر کشمیر میں ان خاص آرٹیکلز کے حوالے سے جس کے تحت ان دنوں بھارتی حکمران لوہے کے چنے چبا رہے ہیں بہت سوال اٹھائے یہاں تک کہ حالیہ کانگریس کے کرتا دھرتا سونیا گاندھی کی اولاد کے ساتھ بہت سے عقل رکھنے والے سیاسی پنڈتوں نے انھیں جھنجھوڑا کہ اپنے ہی باپ کے ساتھ اب چھیڑ چھاڑ کیا۔ ستر برس سے زائد گزرنے کے بعد اب تنقید کرنے کا فائدہ بھی کیا۔

صرف یہی نہیں بلکہ نریندر مودی اور ان کی حکمران پارٹی کے رکن اقتدار کی کرسی پر بیٹھتے ہی پرتشدد ہو گئے اور وہ بھی اس قدر کہ نہ پوچھیے۔ یوگی ادتیا ناتھ نے تو کرسی پر بیٹھتے ہی حکم جاری کر دیا تھا کہ ان کی حکمرانی کی حدود میں بقول ان کے جرائم پیشہ افراد کو اگر رہنا ہی ہے تو انھیں سدھرنا ہو گا ورنہ ان کے رہنے کے لیے ان کی ریاست میں کوئی جگہ نہیں اور یہی وجہ ہے کہ ابھی ان کو بیٹھے دن ہی کتنے گزرے ہیں کہ پولیس ان کاؤنٹر میں مارے جانے والے افراد کی تعداد روز بروز بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ کیا یہ سارے افراد جرائم پیشہ ہیں یا یوگی جی کی مخالفت کا زہر انھیں جعلی پولیس مقابلے کا نشانہ بنا کر ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیتا ہے۔

اس بارے میں سوالات اٹھ رہے ہیں لیکن جواب دینے سے ڈر اور خوف کی فضا ابھرتی ہے۔ ویسے اب یہ قتل کانگریس کے کھاتے میں ڈالے جا رہے ہیں۔ (پہلی بار جب نریندر مودی برسر اقتدار آئے تھے تو انھوں نے فرانس کی ایک غیر معروف کمپنی سے سولہ جنگی جہاز خرید نے کا معاہدہ کیا تھا، اب اس معاہدے کو مکمل کیے جانے اور جہازوں کی درآمد پر کام ہو رہا ہے۔ بقول راہول گاندھی "ان جہازوں کی خریداری ایک ایسی کمپنی سے ہے جو پہلی بار ان جہازوں کو بنا رہی ہے کیا درست ہے؟"

صرف یہی نہیں اس نوآموز جنگی جہاز بنانے والی کمپنی کو ایک جہاز کی مد میں ایک خطیر رقم ادا کرنا اور پھر ایسے ہی سولہ جہازوں کی مزید رقم کی ادائیگی میں مودی سرکار کو کیا فائدہ؟ بات سوچنے کی ہے ظاہر ہے ماضی میں چائے بیچنے والے ایک عام سے آدمی سے جب جنگی ہوائی جہاز کی خریداری کا معاملہ کروایا جائے گا تو وہ اپنی ٹپ تو وصول کرے گا ہی جب کہ بھارتی پائلٹ اب اس جہاز کی تربیت لینے فرانس جا رہے ہیں۔ پاکستان کی طرح بھارت میں بھی قبضہ مافیا والوں نے شور مچا رکھا ہے لیکن اس بار وہ زیادہ مضبوط ہو کر سامنے آئے ہیں کچھ یہی حال یوپی کے ایک گاؤں میں ہوا، جہاں اپنی زمینوں پر قبضے کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو بے دردی سے کھلے عام بھون ڈالا گیا۔

ان غریب کاشتکاروں کا کون پرسان حال ہے جنھیں اپنے حق میں آواز اٹھانے کی اس قدر سخت سزا دی گئی، اس سے پہلے ان لوگوں نے اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کرایا تھا پر کس کے کان پر جوں رینگتی ہے گو ان مظلوم کسانوں کی شنوائی کے لیے پہلے پریانکا گاندھی پہنچی تو تھیں لیکن ان کے ساتھ سرکاری اداروں نے ناروا سلوک کیا اور انھیں ان سے ملنے بھی نہ دیا گیا۔ اس بات سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اس کارروائی میں حکومتی عناصر بھی شامل ہیں جو کھل کر من مانی کر رہے ہیں۔

نریندر مودی نے اپنے سارے دعوے پچھلے پانچ سال میں بھی مسترد کر دیے تھے اور اس بار بھی وہ اس پر عمل کر رہے ہیں۔ کلبھوشن یادیو کے معاملے میں پاکستانی حکومت نے جس رواداری کا مظاہرہ کیا تھا، اس کے انھیں شاباشی دینی چاہیے ورنہ جو شخص اپنے منہ سے بنا کسی زور زبردستی کے جس خون سے رنگے کھیل کی ساری کارروائیاں بیان کر چکا تھا۔

بھارت سرکار میں اگر ایسا ہوا ہوتا تو وہاں حکومت سے زیادہ وہاں کے نیوز اینکر پرسنز چیخ چیخ کر پھانسی کا مطالبہ کرتے لیکن سب کچھ جانتے ہوئے بھی اسے مواقعے دیے گئے یہاں تک کہ اب جس انداز سے عالمی عدالت سے فیصلہ آیا اس سے ایک بات تو واضح ہو گئی کہ بھارت براہ راست یا باالواسطہ پاکستان میں دخل اندازی کرنے اور دہشتگردی کی وارداتوں میں اپنے بڑے عہدوں کے ارکان کے ذریعے ملوث ہے جس کا بڑا مجرم کلبھوشن یادیو ہے، اب چاہے اسے ویانا کنونشن یا جنیوا کنونشن کے تحت کچھ بھی ہو لیکن بھارت میں نریندر مودی کے بٹھائے پٹھو اسے اپنی جیت قرار دیتے ممبئی میں جشن منا رہے تھے جب کہ سنجیدہ اور تعجب کی آنکھ سے دیکھنے سے ذرا پرے والے حضرات نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کر لی تھی اس لیے کہ دنیا والے بھی آنکھیں رکھتے ہیں۔