Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Naya Bharat

Naya Bharat

بھارت میں حالات کس طرف جا رہے ہیں، اس بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ نریندر مودی وہی ہیں، جنھوں نے نوے کے عشرے میں گجرات میں خون خرابہ کرانے میں نہایت اہم کردار ادا کیا تھا، مسلمانوں کے خون کو بے دریغ بہانے اور بھارت کی زمین پر صرف ہندو ازم کا خواب دیکھنے والے چائے والے، کو قدرت نے ایک اعلیٰ عہدے پر ایک بار نہیں بلکہ دوسری بار فائزکر دیا، اس میں کیا راز ہے کیا اسرار ہے، اس میں اس بارے میں محض باتیں ہی کی جا سکتی ہیں۔

سی اے اے اور این آر سی کا تماشا دنیا بھر میں دیکھا جا رہا ہے لیکن اس پر تنقید کرنے والے کم نظر آ رہے ہیں کیونکہ خود بھارتی حکومت نے اپنے تئیں ایک رسہ کشی کا ماحول گرم کر رکھا ہے۔ پہلے الیکشن میں کھینچا تانی اور اب ماحول کو سنوارنے کے بجائے اسے صرف دیکھنے پر گزارا کیا جا رہا ہے اور محسوس یہ ہو رہا ہے کہ جیسے اب حکمران یہ سوچ رہے ہیں کہ اس شیر اور مینڈھے کی لڑائی میں جیت کس کی ہو گی اس بات کا تعین بھی نہیں ہو سکا ہے کہ شیر کون ہے اور مینڈھا کون ہے؟

شاہین باغ کا اجتماعی پڑاؤ دو مہینے سے جاری ہے لوگ بیٹھے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سرکار کے لوگ آ کر ان سے بات چیت کریں تا کہ مسئلے کا کوئی تو حل نکلے لیکن یہاں تو یہ ہو رہا ہے کہ گولی مارو اس مسئلے کو۔ جیسے آپس میں لوگ بات چیت کرتے کسی کہانی کے کردار پر زیادہ الجھنے لگیں تو پھر چڑ کر اسی طرح گولی مارنے کی بات کرتے ہیں لیکن یہ مسئلہ نہ تو کہانی ہے اور نہ افسانہ، اس کی جڑیں زمین میں اس قدر گہری ہیں اس کا ذکر پھر کبھی کرینگے لیکن بھارتی سرکار نے شاہین باغ اور اس کے احتجاج کرنیوالوں کو جیسے یوں نظرانداز کر رکھا ہے جیسے ان تمام لوگوں نے سلیمانی ٹوپی پہن رکھی ہو۔

سی اے اے کے مسئلے کو سپریم کورٹ تک کے ایوانوں تک پہنچانے کی باتیں بھی سن رہے ہیں اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اسے تسلیم کر لیا جائے گا لیکن فیصلہ سنانے والے کیا کہہ سکتے ہیں اور تسلیم کرنیوالے کیا کر سکتے ہیں، کس جانب جھکاؤ ہو گا یا اکڑ کر یہ پرانی شکست خوردہ ڈنڈی ٹوٹ ہی جائے گی البتہ پٹنہ تک کی صدائیں تو تسلیم کر لینے کی اٹھ رہی ہیں۔

پچیس فروری کو دہلی کے جعفر آباد میٹرو اسٹیشن کے نیچے خواتین اور بچوں کے ہمراہ احتجاجی جلوس بیٹھا تھا جو دو دن پہلے یعنی 23 تاریخ کو ڈیڑھ بجے دوپہر بیٹھا تو اس وقت اندازہ نہ تھا کہ اس کے نتائج کیا نکل سکتے ہیں اور پھر خبریں پھیلتی گئیں دہلی میں آگ، خون اور دنگا یوں پھیلا کہ جس نے کئی معصوم جانوں کو نگل لیا، اس تمام فساد میں طاہر حسین کی بلڈنگ کا تذکرہ سنا گیا یہ بلڈنگ جس انداز سے مشہور ہوئی اس سے تاثر یہی دیا جا رہا تھا کہ جیسے یہاں ایک فوجی چھاؤنی قائم ہے جو آگ تیر اور گولیوں کی بوچھاڑ اپنے ارد گرد برسا رہی ہے۔ یاد رہے یہ بلڈنگ ایسے علاقے میں قائم ہے جہاں ہندو اور مسلمان مل جل کر رہتے ہیں۔

جعفر آباد کی یہ بلڈنگ اور اس کے مالک طاہر حسین کو چند دنوں میں ہی ایک بھیانک دہشتگرد، فسادی اور جھگڑالو کے حوالے سے اتنی شہرت ملی کہ شاید اگر وہ حضرت الیکشن میں کھڑے ہوتے تو کچھ نہ کچھ تو ضرور ہی ملتا۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ میٹرو اسٹیشن کے نیچے ہونیوالے اس دھرنے کی پلاننگ کا مقصد ہی دراصل فساد اور دنگا تھا جس نے پچاس لوگوں کی زندگیاں نگل لیں اور نہ جانے کتنے سو لوگوں کو زخمی کر دیا۔

اس سوچے سمجھے منصوبے میں واقعی سچائی کا کوئی پہلو چھپا ہے یا اسے ڈرامائی کہانی بنایا جا رہا ہے اس ڈرامائی کہانی کا تعلق شاہین باغ کے پرسکون احتجاجی لوگوں سے جڑ سکتا ہے یا خدانخواستہ یہ ان لوگوں کو دھمکانے کا طریقہ ہے کیونکہ حکومتی عہدیداروں نے تو طے کر رکھا ہے کہ انھوں نے سی اے اے کو ہر طرح سے لاگو کر کے چھوڑنا ہی ہے، چاہے اب اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے اس کچھ کے سرے جعفر آباد سے جوڑنے میں کیا ان کا ہی ہاتھ ہے یا۔۔۔۔ !

دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بھارت میں آمد کے لیے جو تاریخی پنڈال یا میلہ سجایا گیا تھا اور مودی کو امید تھی کہ وہ ٹرمپ کا سر سہلا کر ان کا بھیجا کھا سکتے ہیں لیکن ٹرمپ ایک کاروباری شخص ہیں جو نقصان کا سودا نہیں کرتے، پاکستان دہشتگردی کے خلاف ٹھیک کر رہا ہے کہہ کر انھوں نے مودی اور ان کے حواریوں کا منہ بند کر دیا اور ان کی ترکیبیں جو انھوں نے ٹرمپ کو بنانے کے لیے بُنی تھیں ساری پانی ہو گئیں۔ بھارت کے کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ جب بھی امریکی صدر بھارت کا دورہ کرتے ہیں کوئی نہ کوئی ایسی پلاننگ کی جاتی ہے کہ دورے کو ناکام بنایا جائے ماضی میں بھی اس طرح ہو چکا ہے۔ اسے کہتے ہیں اپنے منہ میاں مٹھو۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت جا کر اپنے حصے کی داد عوام سے وصول کر لی اور ان کے سپنے چکنا چور کر دیے جس میں انھوں نے اپنے اوپر ان کی جانب سے عائد ٹیکسز کی چھوٹ اور تجارتی معاہدوں کو دیکھا تھا جس نے بھارت کی گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینا تھا۔

آیندہ وقتوں میں بھارت کے نقشے میں کس طرح تبدیلی دیکھی جائے گی لیکن یہ بات طے ہے کہ انسان اپنے آپ کو بہت عقل مند سمجھتا ہے پھر بھی کئی بار اسی شاخ کو کاٹنے پر جت جاتا ہے جس پر اس کا بسیرا ہو۔ نریندر مودی میں ایسا کچھ تو ہے جسے ہم نہیں جان سکتے لیکن جنھوں نے اسے اتنا بڑا عہدہ دیا وہ تمام اسباب وہی جانتے ہیں کہ سب کچھ ان کا ہی ہے۔