طریقے ظلم کے حیا نے سارے بدل ڈالے
جو طائر اڑ نہیں سکتا اسے آزاد کرتا ہے
اگر دل میں حسد، نفرت اور کینہ پرورش پانے لگے تو انسان اخلاقی پستیوں میں گر جاتا ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ اگر اس کی خواہشات کے برعکس ہوا تو جیسے اس کا دل بند ہو جائے گا، ہواؤں کا رخ بدل جائے گا، اسکا سکون برباد ہوجائے گا۔ درحقیقت ایسا ہرگز نہیں ہوتا نہ تو کسی کا دل اوپر والے کی مرضی کے خلاف بند ہوتا ہے، نہ ہی ہوائیں اپنی مرضی سے سمت بدلتی ہیں اور نہ ہی کچھ اور ہوتا ہے بس برا ہوتا ہے تو اخلاقی پستیوں میں گر جانے والے کا۔
خیبر پختون خوا کے ضلع صوابی کا ایک چھوٹا سا گاؤں گنراف میں ایک گھرانہ میں دنیاوی آسائشات میں سانس لینے کی خواہشات کا گھیرا بڑھتا ہی جا رہا تھا کیونکہ اس گھر کا ایک سپوت شہباز خان بیرون ملک امریکا میں کاروبار کر رہا تھا، ابھی چھ مہینے پہلے ہی اس کی شادی ایک معصوم، خوبصورت کمسن لڑکی زوہا سے ہوئی تھی۔
زوہا کی شادی جس وقت ہوئی تو یہی طے پا گیا تھا کہ لڑکی شادی کے بعد اپنے شوہر کے پاس امریکا چلی جائے گی جیساکہ اکثر ہوتا ہے اور اگر باقاعدہ یہ شرط نہ رکھی گئی ہو تب بھی ایسا ہی سوچا جاتا ہے جب کہ دلہا باحیثیت بھی ہو، کچھ ایسے ہی خواب زوہا نے بھی اپنی آنکھوں میں سجائے تھے پر اسے خبر نہ تھی کہ وہ جس گھر میں قدم رکھ رہی ہے وہاں ایک بیمار ذہنیت کی خاتون اس کی منتظر ہے جو اپنے بیٹے کی ساری کمائی پر صرف اپنا حق سمجھتی ہے حالانکہ ایسا ہرگز نہ تھا کہ زوہا انجان گھر میں بہو بن کر آئی ہو۔
اس سے پہلے اس کی بڑی بہن امن بھی شہبازکے بڑے بھائی محسن خان کی بیوی بن کر چند سال پیشتر آچکی تھی لہٰذا والدین کے لیے یہ سکون بھی تھا کہ دونوں بہنیں ایک گھر میں جا رہی ہیں، ایک پاکستان میں تو دوسری امریکا میں رہے گی لیکن ان دونوں کی ساس خاتون بی بی حسد کی آگ میں بھڑکنے لگی، یقینا یہ رشتے طے ہوتے وقت اس کی رضامندی بھی شامل ہوگی لیکن ایک غریب سادہ خاندان کی لڑکی امریکا جاکر اس کے بیٹے کی دولت پر عیاشی کرے شاید یہ بات اسے ہضم نہ ہو رہی تھی۔ اس نے چھ مہینوں کے اندر ہی زوہا کو اپنی جلن، حسد کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔
بات پہلے طعنے تشنوں سے شروع ہوئی پھر کسی دوسرے شخص سے تعلقات کی کہانی بھی شروع ہوگئی اور پھر تشدد بھی کیا جانے لگا۔ کمسن زوہا سب کچھ یہ سوچ کر برداشت کرتی رہی کہ وہ تو جلد ہی اپنے شوہر شہباز خان کے پاس امریکا چلی جائے گی کیونکہ اس کی کاغذی کارروائیاں جاری تھیں اور بتایا گیا کہ چند دنوں میں ہی زوہا کو امریکا اڑ جانا تھا لیکن خاتون بی بی کو کم سن پنچھی کی یہ اڑان ایک آنکھ نہ بھائی۔ یہاں تک کہ اس نے اسے دنیا سے ہی اڑانے کا پلان بنادیا۔
زوہا کی بہن امن کے مطابق زوہا کو زہر دے دیا گیا اور اسے کمرے میں بند کردیا گیا، پانچ گھنٹوں تک وہ چیختی چلاتی رہی لیکن خاتون بی بی نے یہ کہہ کر اسے خاموش کرا دیا کہ کچھ نہیں، بس بلڈ پریشر کی وجہ سے زوہا ایسا کر رہی ہے صرف یہی نہیں بلکہ امن سے اسکا سیل فون بھی چھین لیا گیا تاکہ وہ اپنے والدین کو زوہا کے بارے میں مطلع نہ کرسکے اور ایسا ہی ہوا تقریباً آٹھ گھنٹوں کے بعد جب زوہا قریب المرگ تھی، اسے ٹوپی کے ایک چھوٹے سے اسپتال میں لے جایا گیا لیکن زوہا کو کوئی نہ بچاسکا۔
مظلوم زوہا کے والدین اس کے سسرال والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرانا چاہتے تھے، پوسٹ مارٹم کروانا چاہتے تھے لیکن ایسا نہ ہوا۔ کہا جا رہا ہے کہ پولیس فرانزک رپورٹ کے بعد ہی سسرال والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کریگی۔ زوہا اور اس جیسی بہت سی لڑکیاں ہمارے ملک میں موت کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟ ہمارے اپنے اندر کے وہ خوفناک آسیب جنھیں ہم اپنا آپ سمجھ کر اس کی ہر بات پر اعتبار کر لیتے ہیں۔
یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہمارا دل یہ کہہ رہا ہے حالانکہ وہ اپنے دل کی بات نہیں سن سکتے یا سننا نہیں چاہتے کیونکہ وہ خوفناک آسیب ایسے دھندلکے پیدا کر دیتا ہے کہ ہمیں سوائے اس کی بنائی تصویر یا ویڈیو کے کچھ سجھائی نہیں دیتا اور یہ جعلی تصویر یا ویڈیو اس وقت مندمل ہو جاتی ہے جب حقیقت کا در وا ہوتا ہے۔
اس دروازے کے اس پار ایسا نہیں ہوتا جو ہمیں اس جعلی تصویر یا ویڈیوز میں دکھایا جاتا ہے مثلاً یہ کہ خاتون بی بی نے سوچ لیا ہوگا کہ اگر غریب گھرانے کی زوہا امریکا چلی جائے گی تو کیسے کیسے اس کے بیٹے شہباز سے ناز اٹھوائے گی، کپڑوں، زیورات، گھومنا پھرنا یہ ویڈیوز اسے ہلکان کرتے رہے۔
اس نے بھی زوہا کی مانند امریکا میں دونوں میاں بیوی کی پرسکون خوبصورت زندگی کے خواب دیکھے لیکن دونوں کا نظریہ مختلف تھا زوہا کا نظریہ مثبت تھا جب کہ خاتون بی بی کو اپنے نظریے کے تحت یعنی حسد، رقابت کے باعث وہ خواب دہکانے لگے تھے یہاں تک کہ اس نے سوچ لیا کہ کچھ بھی ہوجائے زوہا کو وہ امریکا جانے نہیں دیگی۔
بقول خاتون بی بی کہ زوہا کو بلڈ پریشر ہو رہا تھا دراصل خود خاتون بی بی کا اپنا حال برا ہوگا۔ بہرحال حقیقت کچھ بھی ہو اسکا آشکار ہونا ضروری ہے۔ ہر بار ہم غیرت کے نام پر لڑکی یا عورت کا قتل کہہ کر پیچھا نہیں چھوڑا سکتے اور دنیا میں اپنا تماشا نہیں بنا سکتے۔ دنیا کہاں سے کہاں جا پہنچی ہے۔
زوہا کے ساتھ زیادتی ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اسے ہائی بلڈ پریشر کے باعث جان سے ہاتھ دھونا پڑے تو یہ بھی ممکن ہے اور اگر یہ کہا جا رہا ہے کہ اسے زہر دیا گیا اور وہ پانچ گھنٹے تک بنا کسی طبی امداد کے کمرے میں بند چیختی چلاتی رہی اور آٹھ گھنٹوں بعد اسے اسپتال پہنچایا گیا، دونوں صورتوں میں فرانزک رپورٹ ضروری ہے لیکن دونوں ہی صورتوں میں خاتون بیگم کو معاف نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ اس قتل میں ملوث رہی ہے۔
دراصل یہ قتل زوہا کا نہیں ہے ہمارے معاشرے کی ان اقدار کا قتل ہے جہاں جب بیٹیاں بہو کے روپ میں ابھرتی ہیں تو اس کی ذات میں صرف کانٹے ہی کانٹے نظر آتے ہیں جب کہ تلخ حقیقت کا دوسرا روپ یہ بھی ہے کہ کہیں یہ بیٹیاں بہو بن کر بوڑھے ساس سسر پر قہر بن کر نازل ہوتی ہیں، خدارا ان خوفناک آسیب کے سحر سے نکلنے کی کوشش کریں جو کہیں اور سے نہیں بلکہ ہمارے اپنے اندر پنپتے ہیں۔ خدا ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ (آمین)