لکھنو میں ہندو سماج پارٹی کے رہنما کملیش تیواری کے قتل کے بعد بھارت میں ایک سراسیمگی سی پھیل گئی ہے۔ سارے شکوک و شبہات کا دائرہ پاکستان اور مسلمانوں کے گرد پھیلانے کی کوششیں تو جاری ہیں لیکن حقیقت میں سارے شواہد کوئی اور ہی کہانی سنا رہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ نریندر مودی دوبارہ برسر اقتدار مسلمان مخالف ووٹ بینک کے تحت آئے ہیں لہٰذا ان کے دور میں ہمیں کشمیر پر زبردستی اجارہ داری قائم کرنے کے علاوہ نجانے کتنی اور دکھ بھری داستانیں سننے کو ملتی ہیں۔
کملیش تیواری پہلے ہی مسلمانوں سے اس حد تک عناد رکھتے تھے کہ 2015 میں انھوں نے رسول اکرم کی شان میں کچھ نامناسب کہہ کر اپنے آپ کو مسلمانوں کے لیے واجب القتل توکردیا تھا۔ اس گھناؤنے بیان کے بعد مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ اٹھی تھی یہاں تک کہ بجنور سے اس کی گردن قلم کرنے کی اکیاون لاکھ روپے کی رقم کا بھی اعلان کیا گیا تھا جو ظاہر ہے کہ شان رسولؐ کے لیے بے حیثیت ہی ہے لیکن ان عاشقان رسولؐ نے اپنے اس بیان کے ساتھ جس میں انعام کی رقم دینے کا کہا گیا تھا ساتھ یہ بھی کھلم کھلا کہہ دیا تھا کہ اگر پولیس اس گستاخ کے خلاف کارروائی کرتی ہے اور قانون کے مطابق عمل کرتی ہے تو بہتر ہے ورنہ۔۔۔۔۔ گویا اگر پولیس مسلمانوں کے مذہبی جذبات کا خیال نہیں کرتی تو اس صورت میں اس گستاخ کو اس گھناؤنے فعل کی سزا دینے اور اس کا سر قلم کرنے والے کو انعام سے نوازا جائے گا۔
دنیا بھر میں کملیش تیواری کے اس گھٹیا بیان پر خاصی لے دے ہوئی تو بھارتی حکومت کو احساس ہوا کہ اگر انھوں نے اس پر کنٹرول نہ کیا تو نہ صرف بھارت کی بیس کروڑ سے زائد مسلمان آبادی بلکہ دنیا بھر کی جانب سے انھیں پریشر میں لیا جاسکتا ہے، لہٰذا اسے گرفتار کر لیا گیا لیکن بعد میں اسے ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔ اپنے قتل تک وہ ضمانت پر ہی تھا لیکن اسے زندگی سے خطرات کے پیش نظر اور سیاسی نقطہ نظر سے سیکیورٹی فراہم کی گئی تھی، جو اس کے قتل سے ایک دو روز قبل ہی ہٹا لی گئی تھی۔ اس کے پیچھے کیا حقائق تھے؟ یہ یوپی کے وزیر یوگی آدتیہ ناتھ بخوبی جانتے تھے جب کہ کملیش تیواری کو اپنی جان کی جانب سے خطرہ بڑھتا ہوا محسوس ہو رہا تھا، لیکن کس جانب سے؟
اٹھارہ اکتوبر کو جب ہندو سماج پارٹی کے رہنما کا قتل ہوتا ہے اس دن پولیس کے بیانات انیس اکتوبر کے بیانات کے مقابلے میں بالکل مختلف نظر آئے صرف یہی نہیں بلکہ اپنے تئیں انھوں نے کچھ لوگوں کو حراست میں بھی لے لیا۔ اور پھر الزامات اور شکوک کا دھارا مسلمانوں اور پاکستان کی جانب موڑنے کی کوششیں شروع ہوگئیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کملیش تیواری نے ایک گھناؤنا فعل کیا تھا لیکن 2015ء میں اس کے اس بیان کی وجہ سے مسلمانوں کے ردعمل کے سامنے آنے کے بعد اسے قانون کے مطابق سزا سنا دی گئی تھی اور یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ واقعی سزا وار تھا۔ ایک طرح سے یہ باب اس وقت بند ہوچکا تھا لیکن تین سال بعد اچانک سے اس باب کو کھولنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا واقعی کملیش تیواری جو ہندو ازم کی شدت پر یقین رکھتا تھا اسے مسلمانوں سے خطرہ تھا؟
کملیش نے اپنے قتل سے چند روز قبل ایک ویڈیو میں اس بات کی جانب شک کا اظہار کر دیا تھا کہ اس کی جان کو خطرہ ہے جس میں اس نے اپنے ہندوؤں پر ہی اور خاص کر مودی سرکار پر انگلی اٹھائی تھی، صرف کملیش ہی نہیں بلکہ اس کے گھر کے تمام لوگ جن میں خاص کر اس کی ماں جو اپنے بیٹے کے لیے بڑھ چڑھ کر انصاف کے حصول کے لیے بھارتی حکومت کو للکار رہی ہے۔ واضح اشارہ مل رہا ہے کہ مودی حکومت ایک خاص مذہبی جماعت کی آڑ لے کر نہ صرف اپنے بدلے لے رہی ہے بلکہ بھارت میں ہندو مسلم فسادات بھی چاہتی ہے۔ ایک بہت بڑے ایشو کے باوجود کملیش کو ہندو برادری کے کرسی برداروں سے ہی خطرہ تھا لیکن اسے کسی اور جانب گھمایا جا رہا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کے قتل سے کس کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ تو جواب ملتا ہے کہ مودی سرکار کو۔ تاکہ وہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی پاکستانی حکومت کو اپنے زہریلے نفرت انگیز بیانات میں الجھا کر دنیا بھر میں رسوا کرنے کا سامان پیدا کرسکے اور یہ ثابت کرنے میں اپنے تئیں کامیاب ہوجائیں کہ یہاں دہشت گردی کے فروغ کے لیے بہت سے عوامل متحرک ہیں لیکن ہر بار کی طرح اس بار بھی کیچڑ خود قدرت نے ان کے منہ پر ہی ڈالی ہے۔
ماضی میں اور حال میں بھی پاکستان کی جانب سے پڑوس کے لیے ہمیشہ اچھے تعلقات اور روابط بڑھانے پر زور دیا گیا تھا لیکن دوسری جانب سے منفی جذبات کو ہوا دی گئی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد سے ہی یہ تلخیاں تھیں اور پاکستان کو جو اپنی نوزائیدہ مملکت کو بمشکل صرف حوصلے وہمت سے سنبھال کر رکھے ہوئے تھا ہر طرح سے زیادتیوں کا نشانہ بنایا گیا پھر بھی قائد ملت لیاقت علی خان شہید نے آگے بڑھ کر نہرو معاہدے کے علاوہ دوسرے اہم معاملات کو بھی صبر سے افہام و تفہیم سے نمٹانے کی پوری کوشش کی۔ ان کے بعد کی حکومتوں نے بھی اسی راہ پر چلتے ہوئے دشواریوں کا مقابلہ کیا، چاہے مارشل لا ہو یا جمہوری حکومتیں پاکستان کی جانب سے دوستی کے ہاتھ کو تھامنے کی کوششیں کی گئیں۔ کبھی مذہبی منافقت کے پرچارکا استعمال نہ کیا گیا اور امن وآشتی کے پیغام کو بڑھانے کی تحریک جاری رکھی، لیکن افسوس دوسری جانب سے ہمیشہ مذہبی منافقت کو ہوا دی گئی۔
قیام پاکستان کے وقت نواب جونا گڑھ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا تھا۔ لیکن وہاں کی اکثریت ہندوؤں کی تھی چونکہ یہ طے تھا کہ ہندو اکثریتی علاقے بھارت کے ساتھ اور مسلم اکثریتی علاقے پاکستان کے ساتھ الحاق کریں گے لیکن حکمران جوناگڑھ نے اپنی محبت میں پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا تو بھارت نے رائے شماری فوری طور پر کروا کر یہ ثابت کردیا کہ کیونکہ جوناگڑھ میں ہندو اکثریت ہے لہٰذا اسے بھارت میں شامل ہونا تقسیم پلان کے مطابق ہے جب کہ کشمیر کی صورت حال اس کے بالکل مخالف تھی جہاں حکمران تو ہندو تھا لیکن آبادی اکثریت سے مسلمان تھی لیکن یہاں تقسیم پلان کے مطابق عمل نہ کیا گیا اور آج اس مذہبی منافرت کی مثال دنیا کے سامنے ہے۔
اسی پر بس نہیں کیا بلکہ ہندوستان میں بستی ایک کثیر مسلم آبادی کو کسی نہ کسی طرح آگ میں جھونکنے کی ترکیبیں بنائی جاتی ہیں چاہے وہ کشمیر میں انسانی حقوق کی تذلیل کے ذریعے ہو یا ایک عام سے مذہبی جماعت کے رہنما کے قتل کی صورت میں الزامات کی شکل میں۔ کیونکہ جو دکھایا جاتا ہے عوام تو اسے ہی سچ سمجھتی ہے۔ دعا ہے کہ زہریلے تیروں کی بوچھاڑ کا سلسلہ اب رک بھی جائے۔ (آمین)