تاریخ کے اوراق پلٹیں تو عورتوں کے عالمی دن کو سب سے پہلے امریکا کی سوشلسٹ پارٹی نے 28 فروری 1909کو منایا تھا۔ جرمنی کی ایک انقلابی لیڈر Clara Zetkin نے آٹھ مارچ 1910 کو عورتوں کی انٹر نیشنل سوشلسٹ کانفرنس کا انعقاد کرنے کی تجویز دی اور کہا کہ اس دن کو workning women ( کام کرنے والی عورتیں ) کے اعزاز میں عورتوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جائے۔ 8 مارچ 1917 سے روس میں عورتوں کے عالمی دن پر عام تعطیل کا اعلان کر دیا گیا۔ 1975 سے اقوام متحدہ کی طرف سے اس دن کو منایا جانے لگا۔ اب لگ بھگ دنیا کے تمام ممالک میں آٹھ مارچ کو ہر سال عورتوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے، ان میں ہمارا ملک بھی شامل ہے۔ یہ اوربات ہے کہ اس کی آگاہی ملک میں عورتوں کے فقط ایک خاص طبقے کو ہے، ہمارے ہاں کی عام عورت اب بھی ایسی انوکھی اختراعات سے لاعلم ہے۔
ہمارے ہاں اس دن کو منانے کی ضرورت ہے بھی نہیں، ہمارا مذہب تو ایسا عالم گیر مذہب ہے کہ اس نے عورت کو ہر ہر روپ میں اس کے حقوق دیے ہیں، اس کے حقوق اس کے فرائض سے منسلک ہیں۔ ہم کسی بھی معاملے میں جب اپنے حقوق کے لیے سوال اٹھائیں تو پہلے خود پوچھیں کہ کیا ہم ان کے اہل ہیں؟ کیا ہم نے اپنے فرائض کو جانا اور انھیں پورا کیا۔
ٹیلی وژن میں زیادہ دیکھتی نہیں کیونکہ ہر اہم بات سوشل میڈیا کے ذریعے ہم تک پہنچ جاتی ہے۔ آج کل سارا غوغا اسی دن کے لیے ہو رہا ہے… آج ہی وہ اہم دن ہے کہ جس کے لیے ہر طرف خرافات کا طوفان بپا ہے۔ میں نے جتنا سنا اور جانا، اندازہ یہ ہوتا ہے کہ سارا نزلہ… مردوں میں سے اس مرد پر گرتا ہے جسے عرف عام میں خاوند کہتے ہیں۔ اتنے کروفر سے آج کی عورت اپنے باپ یا بھائی سے اپنے حقوق کا مطالبہ نہیں کرتی جتنے زور شور سے وہ چلا چلا کر اس مرد کو، ’ میرا جسم، میری مرضی، کہتی ہے کہ جسے اللہ تعالی نے اس کے جسم پر اختیار دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ باپ، بھائی، داماد، سسر، بیٹے اور دوسرے رشتے تو عورت کے جسم پر مرضی نہیں چلاتے، جس کا اختیار صرف شوہر کے پاس ہے۔
ہاں وہ مرد جو کسی کے جسم کا استحصال کرے، خواہ وہ کسی بچی کا ہو، بچے کا، عورت کا یا مرد کا… زیادتی کے واقعات صرف عورت کے ساتھ تو نہیں ہوتے!! زیادتی کرنے والے، ونی اور سوارہ کرنے والے، جائیداد بٹورنے والے، عورت پر تیزاب پھینکنے والے مردوں کی تعداد ہمارے ملک کی آبادی کا کتنے فیصد ہے کہ ہم ایک ہی ہلے میں سب کو رگید دیں؟ ہمارا مذہب تو عورت کو ہر روپ میں عزت دینے والا مذہب ہے، ہمیں عورت کا سال میں ایک دن منانے کے لیے کسی اقوام متحدہ کی منظوری کی ضرورت نہیں۔ ہمارے ہاں اگر شرابی، نشئی، زانی، وحشی، غصیلے، لالچی، آوارہ اور بد کردار مرد ہیں تو بیٹیوں کو بانہوں کے جھولوں میں جھلا کر پالنے والے باپ بھی ہیں۔ بہن کی آنکھ میں آنسو دیکھ کر پریشان ہوجانے والے عزتوں کے رکھوالے بھائی بھی ہیں۔ ماں کی حرمت کے رکھوالے بیٹے بھی ہیں، بیویوں کو چاہنے اور ان کی ضروریات پوری کرنے والے مرد بھی ہیں۔
جہاں عورت کی ضرورت اور خواہش کا پیمانہ ہمیشہ خالی رہتا ہو، قناعت نہ ہو یا پھرحقیقی مجبوری سے گھر سے عورت کو مرد کے شانہ بشانہ کام کرنے کے لیے نکلنا پڑے، وہاں معاشرے کا توازن خراب ہوتا ہے۔ پھر باہر نکلنے والی عورت کتنی مضبوط ہے، کتنی مجبور ہے اور کتنی کمزور… یہ چیزیں اس کے ساتھ ہونے والے ہر عمل کا تعین کرتی ہیں۔
"مرد عورتوں پر حاکم ہیں، اس وجہ سے کہ اللہ تعالی نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں۔ پس نیک فرمانبردار عورتیں خاوند کی عدم موجودگی میں بہ حفاظت الہی نگہداشت رکھنے والیاں ہیں اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بد دماغی کا تمہیں خوف ہو انھیں نصیحت کرو اورانھیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انھیں مار کی سزا دو پھر اگر وہ تابعداری کریں تو ان پر کوئی راستہ تلاش نہ کرو، بے شک اللہ تعالی بڑی بلندی اور بڑائی والا ہے"۔ سورۃ النساء، آیت نمبر۔ 34
یہ میرا یا آپ کا نہیں، قرآن کریم کا فرمان ہے، جہاں عورت گمراہی کے راستے پر چلتی ہے، وہ پورے معاشرے کا چہرہ بگاڑ کر رکھ دیتی ہے، اس کی نسلیں اس کا خمیازہ بھگتتی ہیں۔ گھر پر بیٹھی عورت اس طرح ہے جیسے کہ وہ کسی محفوظ قلعے میں بیٹھی ہو، جہاں وہ اس قلعے سے نکلتی ہے، اس پر تیر برسیں یا پتھر، اسے ان کا سامنا تو کرنا ہو گا، یہ انسانی فطرت ہے۔
"عورتیں تمہارا لبا س ہیں اور تم ان کے لباس ہو"۔ سورۃ البقرہ، آیت نمبر۔ 187
لیکن جہاں عورت اپنے مرد کی کمزوریوں کو عیاں کر دیتی ہے، صرف اسی کو نہیں، خود کو بھی بے لباس کر دیتی ہے۔ گویا وہ اس کی عزت کرنا چھوڑ دیتی ہے۔ درست ہے کہ بسا اوقات عورت کو مجبوری میں بھی گھر سے نکلنا پڑتا ہے اور اسے بہت کچھ مجبوری میں برداشت کرنا پڑتا ہے، جہاں عورت کو اپنے کردار میں ثابت رہنے کو کہا گیا ہے وہیں مردوں کو بھی اپنی نظریں نیچی رکھنے کو کہا گیا ہے … مگر بد قسمتی سے ہمارے ہاں کے مرد ایسی چیزوں کو اہمیت نہیں دیتے کہ جہاں ان پر حرف آتا ہو یا انھیں نظر پر قابو رکھنے کی " مشقت" کرنا پڑتی ہو۔
قرآن میں عورت کی گواہی کو مرد کی نسبت نصف مانا جاتا ہے اور جائیداد میں اس کے لیے مرد کی نسبت نصف حصہ مقرر ہے ( بیٹوں اور بیٹیوں کے مابین)۔ مردوں کو عورتوں کے لیے Providers کہا گیا ہے اور انھیں عورتوں پر جسمانی طور پر بھی مضبوط اور عورتوں پر حاکم قرار دیا گیا ہے، تو عورت کو کسی اور کا نہیں تو اللہ کا حکم ماننے پر معترض نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اس پر سوال اٹھانا چاہیے کہ کیوں۔ یہ اللہ کی حکمت ہے اور اس سے بہتر جاننے والا کوئی نہیں۔ جہاں قرآن میں کئی مقامات پر مرد کو عورت پر فوقیت کا بتایا گیا ہے وہیں چند مقامات پر عورتوں اور مردوں کو برابربھی کہا گیا ہے، ہم ان کے معانی اور ان آیات کی روح سمجھے بغیر کہہ دیتے ہیں کہ قرآن کی رو سے عورت اور مرد برابر ہیں۔
غور کریں تو علم ہو گا کہ جہاں نیکی کے کام اوراچھے اعمال کے صلے کی بات آتی ہے وہاں کہا گیا ہے کہ دونوں برابر ہیں، کہ ان دونوں کو ان نیک اعمال کا اجر ایک جیسا ملے گا۔ دنیا کے کسی ملک میں بھی چلے جائیں تو عورت کا استحصال اسی طرح ہوتا ہے کہ ایک ہی نوعیت کے کام میں مرد کو زیادہ تنخواہ ملتی ہے اور عورت کو کم، یہ اس دنیا کا معاملہ ہے، اللہ کے ہاں ایک جیسے کام کرنے والوں کے ایک جیسے اجر ہیں خواہ وہ نیک کام ہوں یا بداعمال۔ اس سے بڑھ کر ہمیں کون حقوق دے سکتا ہے کہ ہم اپنے گھر کے آرام دہ کمرے میں جو نماز پڑھتے ہیں، اس کا اجرہمیں اتنا ہی ملتا ہے جتنا کہ ہمارے مرد سخت موسموں میں مسجد میں جا کر نماز ادا کر کے حاصل کرتے ہیں۔ جتنا اجر مرد کو جہاد کر کے ملتا ہے، اتنا ہمیں اپنے گھر پر رہ کر اپنے بچے پال کر ملتا ہے، بچے نہ ہوں تو اپنے خاوند کے گھر میں رہتے ہوئے اس کی اور اپنی عزت کی حفاظت کر کے ملتا ہے۔
اپنے اسلاف کی عورتوں کو دیکھیں، تاریخ عالم، تاریخ اسلام، تواریخ مذاہب کا مطالعہ کریں تو اس میں ان عورتوں کے تذکرے بھی ملتے ہیں جنھوں نے مردوں کے شانہ بشانہ کام کیے ہیں، جنگیں لڑی ہیں، حکومتیں کی ہیں، ایجادات کی ہیں، کارنامے کیے ہیں۔ آج بد قسمتی سے عورتوں کے عالمی دن کا مقصد یہ بن گیا ہے کہ مادر پدر آزادی اور مردوں سے بغاوت کے نعرے بلند کر کے، سستی شہرت حاصل کی جائے۔ عورت کو عورت کے مقام سے ہٹا کر ایک بد نما دھبہ بنا دیا جائے۔ عورت ہیں تو اپنے ہونے پر فخر کریں، مرد کی تذلیل کر کے سستی شہرت حاصل کرنے والی عورتوں کو ہمارا ہی نہیں، دنیا کا کوئی بھی معاشرہ قابل عزت و قدر نہیں سمجھتا۔ اللہ ہم سب عورتوں کو ہدایت دے کہ ہم اللہ کی فراہم کردہ کتاب ہدایت کی روشنی میں اپنی زندگیوں کا لائحہ عمل وضع کر سکیں۔ آمین