امی جب اس گھر میں منتقل ہوئی تھیں تو ہم سب بہن بھائی کم سن اور طالب علم تھے۔ اس زمانے میں پڑوس کے گھر کو بھی خاندان جیسا سمجھا جاتا تھا اور ان کے بچوں کو بہن بھائیوں جیسا۔ والدین کو ہم چاچا جی اور خالہ جی کہا کرتے تھے اور بہنوں کو باجیاں اور بھائیوں کو بھائی جان۔ ذہنوں میں پراگندگی نہ تھی اس لیے ہم ان کے گھر کے صحن میں کھیلنے جاتے یا وہ ہمارے گھر آتے تو ہمارے والدین کو یہ فکر نہ ہوتی تھی کہ کچھ برا نہ ہو جائے۔
اگرچہ مستثنیات اس زمانے میں بھی تھیں، مگر عموماً اللہ کی مہربانی سے اقدار کا پاس رکھا جاتا تھا۔ دوسروں کی بیٹیوں اور بہنوں کا درجہ دوستوں کے گھروں میں بھی وہی ہوتا تھا اورآج تک ایسے ہمسایوں کے ساتھ اسی نوعیت کے تعلقات ہیں کہ ہمارے بچے بھی ان بہنوں کو خالائیں اور بھائیوں کو ماموں کہتے ہیں۔ وہ بھی امی کی ایک ایسی ہی بہن تھیں اور کچھ عرصہ قبل علم ہوا کہ وہ ہمارے شہر میں رہتی تھیں، میں نے تجدید تعلقات کی خاطر انھیں ملنے کا ارادہ کیا۔ ان کا اتا پتا حاصل کیا اور ان سے رابطہ کر کے، وقت مقرر کیا اور ان کے ہاں جا پہنچی۔ وہ اتنی کمزور تھیں کہ میں اگر انھیں کہیں اور دیکھتی تو پہچان ہی نہ پاتی۔
انھوں نے بھی مجھے نہیں پہچانا اور سوال کیا کہ میں امی کی کون سے نمبر والی بیٹی تھی۔ مجھے نہ پہچان پانا تولازم تھا کہ کالج کے بعد، شادی ہوئی اور پھر سالوں سالوں کے وقفے سے ان سے ملاقات ہوئی ہو گی۔ یوں بھی مجھے لگا کہ ان کا حافظہ بھی عمر کے ساتھ متاثر ہوا تھا کہ انھوں نے دو گھنٹے میں کم از کم چھ دفعہ پوچھا تھا کہ میں امی کی کون سے نمبر کی بیٹی تھی، میرا نام کیا تھا، میں کہاں بیاہی گئی تھی اور میرا میاں کیاکرتا ہے، بچے کتنے ہیں۔ شاید ان کے پاس یہ سب پوچھنے کے علاوہ کچھ تھا بھی نہیں۔ یا وہ اپنی بات باربار دہرانے کی عادی ہو گئی تھیں۔ وہ اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کے ساتھ رہتی تھیں۔ گھر میں ان کے بیٹے اور بہو کے علاوہ دو پوتے اور دو پوتیاں بھی تھیں۔
سب سے بڑا پوتا شادی شدہ تھا تو اس کی بیوی اور اس کا ایک بیٹا بھی تھا۔ چھٹی کا دن تھا، سب لوگ گھر پر موجود تھے اور باری باری آ کر مجھے ملے بھی تھے۔ تھوڑی دیر بیٹھ کر ان کی بہو چائے پانی کے اہتمام کے لیے اٹھ گئی۔ پوتے کی بیوی کا بچے کو نہلانے کا وقت ہو گیا۔ باقی بچے بھی تھوڑی دیرکے بعد ایک ایک کر کے اٹھ گئے۔ میں اور وہ دونوں رہ گئے تو ہم نے پرانے وقتوں کی یادوں کی پٹاری کھول لی اور اس میں سے ایک کے بعد دوسری یاد کا سرا کھل جاتا۔
میں نے نوٹ کیا تھا کہ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے انھیں ہر بات اور واقعے کی پوری پوری تفصیل یادتھی۔ کرن… صباحت… مزنہ… کنزہ… عالم… کبیر… امیر… باتوں کے دوران انھوں نے گھر کے ہر فرد کو باری باری بلایاتھا، ان کے آنے پر ان سے سوال کرتیں، " تم کیا کر رہے / رہی تھیں، میری عینک تو نہیں دیکھی تم نے، ( آپ کے ماتھے پر دھری ہے اماں، جواب ملتا)، میری دوا کا وقت تو نہیں ہو گیا؟ ( نہیں اماں، دوا آپ کو رات کے کھانے کے بعد کھانی ہے)، بلڈ پریشر بھی نہیں چیک کیا تم نے میرا آج، ( اماں دو دفعہ کر چکی ہوں صبح سے، ان کی پوتی نے کہا جو کہ میڈیکل کی طالبہ ہے)، تو ایک بار اور کر لے نا میری بچی۔ عالم… دفتر کیوں نہیں گئے آج تم بیٹا؟ ( آج اتوار ہے اماں )۔ کبیر… امیر، ادھر آ کر بیٹھو، دیکھو کتنے عرصے کے بعد پھوپھو آئی ہے تم لوگوں کی! ( کرکٹ میچ کا فائنل دیکھ رہے ہیں اماں، چند منٹ بیٹھ کر انھوں نے معذرت کی، چند منٹ کا میچ میری وجہ سے مس ہو گیا تھا، بد دعائیں دے رہے ہوں گے) کرن تم کہاں غائب ہو گئی ہو… کیا سوچتی ہو گی میری بیٹی؟ ( نہیں خالہ جی، کوئی بات نہیں، وہ مصروف ہوں گی، سب گھر پر ہیں، خاتون خانہ کو تو کسی دن بھی چھٹی نہیں ہوتی، ان کے کام کار تو چھٹی کے دن دگنے ہو جاتے ہیں …)۔ پھر بھی، گھر پر بیٹی آئی ہے ( آگئی اماں، آپ کی بیٹی کے لیے ہی چائے کا اہتمام کر رہی تھی کہ کوئی کمی نہ رہ جائے۔
لوازمات سے بھری ٹرالی گھسیٹتی ہوئی بھابی آ گئیں، وہ بھی خالہ جی کی بھانجی تھیں سو ہمیں بچپن سے جانتی تھیں۔" دیکھا تم نے…" بھابی چائے کی ٹرالی لے کر گئیں تو وہ مخاطب ہوئیں۔" کیا خالہ جی؟ "" یہ سب لوگ کیسے جواب دیتے ہیں مجھے!" ان کی آواز بھرا گئی، " تنگ ہیں مجھ سے، مجھ سے کسی کو محبت نہیں ہے۔ میں بار بار انھیں بہانے بہانے سے بلاتی ہوں، کبھی دوا اور کبھی کھانے کے بہانے… انھیں دیکھ لیتی ہوں تو نظر سیراب ہو جاتی ہے۔ یہ چڑ جاتے ہیں اور اگر کسی کو دوسری بار آواز دو تو وہ آکر باقاعدہ گھور کر دیکھتا ہے۔
یہ سمجھتے ہیں کہ مجھے بھولنے کا مرض ہے۔ ایسا نہیں ہے، مجھے یہ سب یاد ہوتا ہے کہ میرا بلڈ پریشر مزنہ نے چیک کیا ہے مگر میں اسے اس بہانے سے بلا کر اس کی موہنی شکل دیکھتی ہوں اور اس کی آواز سن کر دل مسرور ہوتا ہے۔ پوتوں کی مصروفیات جانتی ہوں مگر انھیں دیکھ کر دل باغ باغ ہو جاتا ہے کہ وہ میرے بیٹے کے بازو ہیں۔ چڑیوں جیسی چہچہانے والی کنزہ کو بلا کر بار بار دیکھتی اور اس کی صورت کو دل میں بساتی ہوں کہ چند ماہ میں وہ اس گھر سے اڈاری بھرنے والی ہے۔
کرن میری مرحومہ، اکلوتی بہن کی نشانی ہے، اسی جیسی پیاری اور اسی جیسی خدمت گزار، اس میں اپنی بہن کا عکس نظر آتا ہے۔ بیٹا اپنے کمرے میں محصور اپنے فون یا اخبار میں محو ہوتا ہے۔ تم بتاؤ میں کیا غلط کرتی ہوں، کیا میں انھیں بہانوں بہانوں سے اپنے پاس بلا کر کوئی خطا کرتی ہوں؟ ان کا سوال میرے دل پر گھونسے کی طرح لگا تھا، مجھے یاد ہے کہ خالہ جی کی ساری جوانی اس اولاد کے پیچھے بھاگتے گزری تھی، اب ان کے بچے اور بچوں کے بچے بھی وہی کر رہے ہیں، مگر اس سارے قصے میں سب سے زیادہ خالہ جی نظر انداز ہو رہی ہیں، ایک ماں، گھر کا ایک بزرگ۔
ہم نے گھروں میں بزرگوں کا ایک خاص مقام دیکھا ہے، گھر کی ساری مصروفیات میں سب سے اہم بزرگوں کے کام کرنا، ان کی مرضی کے مطابق کھانا پکنا، ان کی وجہ سے گھر میں چہل پہل ہوتی تھی، اہم فیصلوں میں ان کی رائے افضل ہوتی تھی اور جب تک بزرگ موجود تھے، ان سے چھوٹوں نے خودکو بچہ سمجھا اور ان کے سامنے ہمیشہ بچے بن کر رہے۔ اب اقدار یکلخت اتنی بدل گئی ہیں کہ بزرگ، بچوں کو اپنی زندگیوں میں رکاوٹ لگنا شروع ہو گئے ہیں اور ان کی حیثیت فالتو سامان کی سی ہو گئی ہے۔ جن بچوں کی خاطر والدین زندگی کی چکی کے پاٹوں میں پس کر رہ جاتے ہیں، ان کے توانا ہوتے اور اپنے پیروں پر کھڑے ہوتے ہی ان والدین کی وقعت اولاد کی نظر میں اتنی حقیر کیوں ہو جاتی ہے؟
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہر شخص کے عروج کو زوال ہے، جس بستر پر آج آپ کی ماں یا باپ پڑے اور آپ کی صورت دیکھنے اوربات کرنے کو ترستے ہیں، کل اس بستر پر آپ کو بھی ہونا ہے۔