جب تک عقل نہیں آئی تھی، تب تک یہی یقین تھا کہ اماں اور باوا کو اللہ نے اتنا ہی بڑا دنیا میں بھیجا ہو گا اور پھر وہ ہم سب بہن بھائیوں کو کہیں سے سستے میں خرید کر لائے ہوں گے۔ جوں جوں ذرا شعور آیا تو اندازہ ہوا کہ ہماری کئی عم زاد ہمارے سامنے جوان ہوئیں، ان کی شادیاں ہوئیں اور پھر بچے۔ ہمیں علم ہونے لگا کہ ہمارے اماں باوا بھی کبھی بچپن اور پھر لڑکپن سے گزرے ہوں گے۔ کیسا ہو گا ان کا وقت؟ ان کے بچپن اور لڑکپن کی تو کوئی ایسی خاص تصاویر بھی نہ مل سکیں تو چشم تصور سے ہی ان کے بچپن تراش لیے تھے۔
کوئی کہتا کہ فلاں بیٹی اماں کی طرح ہے تو ہم اماں کا لڑکپن سوچ لیتے اور کوئی کسی بھائی کو ابا کے بچپن جیسا کہتا تو اس کے اندر ابا کا بچپن اور لڑکپن دیکھ لیا۔ ہاں مگر ایک بات کا یقین تھا کہ ہم میں سے کوئی بھی اماں اور باوا جیسا نہیں تھا… نہ شکلوں میں اور نہ عقلوں میں، نہ برداشت میں اور نہ سادگی میں۔ آج تک اس بات کا یقین ہے بلکہ اب یہ اور بھی واثق ہو گیا ہے۔
پہلی بار ماں بنی تو اندازہ ہوا کہ ماں بننا دنیا کا مشکل ترین کام ہے، اسی لیے ماں کی اتنی عظمت رکھی گئی ہے کہ اس کے سامنے دنیا کی ہر دولت ہیچ ہے۔ ماں بن جانے والی لڑکی، عمر بھر کے لیے ماں ہی بن جاتی ہے، اپنے بچوں کی بھی اور اپنے ارد گرد ہر بچے کی۔ اس کے اندر پیدا ہو جانے والا احساس ذمے داری غیر مثالی ہے، وہ ہر ماحول کو ایک ماں کی نظر سے دیکھتی ہے کہ وہ اس کے بچے کے ساتھ ساتھ دوسرے بچوں کے لیے بھی موافق ہے یا نہیں؟ ماں اور بچے کے تعلق کی جبلت نہ صرف انسانوں میں بلکہ جانوروں میں بھی بدرجۂ اتم پائی جاتی ہے۔ بے شک انسانوں میں بھی کچھ مستثنیات ہیں اور جانوروں میں بھی مگر ماں صرف ماں ہے۔
ماں بن کر میں نے جانا کہ ماں کسی اور جوگی نہیں رہتی، اس کی ذات کا سارا ارتکاز اس کے بچے ہو جاتے ہیں، اس کی سوچ، اس کے خواب، اس کے خیال، اس کی خواہشات ا ور تمنائیں، اس کے اندازے، اس کے خوف، اس کی پسند اور ناپسند، اس کے شک، اس کے واہمے، اس کی دعائیں، سب کچھ اس کی اولاد کے حوالے سے ہی ہو جاتا ہے۔ وہ اور کچھ نہیں رہتی، بس ایک ماں رہ جاتی ہے۔ اپنے بچوں کی ماں، ان کے بچوں کی ماں، ان کے شریک حیات کی ماں، ان کے دوستوں اور سہیلیوں کی ماں۔ ماں ایک ہستی نہیں … ایک کائنات ہوتی ہے۔ اس کا افق بے کنارہے اور اس کی دعا کی حد ساتوں آسمانوں تک ہے۔
اللہ تعالی نے اسے خالق بنایا اور رازق۔ یہ اللہ کی وہ صفات ہیں جو ایک ماں کو ودیعت کر کے خود اللہ تعالی سب کو بتاتا ہے کہ ماں کی عظمت کس قدر ہے اور اس کی تکریم سب پر فرض ہے۔ اس کے قدموں تلے جنت رکھ کر اس کا رتبہ ہر رشتے سے ممتاز کر دیا۔ اپنی ماں کو میں نے ہمیشہ ماں ہی سمجھا ہے، یاد ہی نہیں رہتا کہ کبھی وہ بھی بیٹی تھیں۔ ماہ محرم میں، بالخصوص محرم کی دسویں تاریخ کو، ہمارے ہاں ایک رواج سا بن گیا ہے کہ لوگ اپنے پیاروں کی قبروں کی مرمت کرواتے ہیں، ان پر تازہ مٹی ڈلواتے ہیں۔
میں اور بھائی صاحب بھی امسال جب اس کام کے لیے گاؤں گئے تو امی جان نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ بھی اس سال اپنی والدہ محترمہ کی قبر پر حاضری کی غرض سے جانا چاہتی ہیں۔ کافی عرصے سے وہ اس خواہش کا اظہار کر رہی تھیں، کچھ ان کی صحت کی وجہ سے اور کچھ قبر کے جغرافیے کا ٹھیک سے اندازہ نہ ہونے کے باعث ان کی اس چھوٹی سی خواہش کی تکمیل کا معاملہ التوا میں پڑتا جا رہا تھا۔ سو اس سال بھائی صاحب نے ان سے وعدہ کر لیا کہ انھیں بھی ان کی والدہ کی قبر کی زیارت کیلائے لے جائیں گے۔
تحصیل کھاریاں کے ایک چھوٹے سے گاؤں، ملک پور جٹاں جانے کے لیے راستے کا کسی حد تک علم تو تھا مگر اتنی مدت گزر جانے کے بعد سب کچھ بدل چکا تھا اور ہم بھولتے بھٹکتے ہوئے اور پوچھتے پاچھتے بالآخر ملک پور جٹاں پہنچ ہی گئے۔ کچے مگر مٹی کی لپائی کے باعث خوبصورت لگنے والے ایک گھر کے باہر ہم نے اپنی گاڑی پارک کی اور اس گھر کے مکینوں سے درخواست کی کہ گاڑی کا خیال رکھیں۔ انھی سے پوچھ کرہم نے قبرستان کی راہ لی۔ تمام راستے باجرے کی خوبصورت فصل اپنے پورے قد سے کھڑی نظر آ رہی تھی۔
تبھی باجرے کی فصل کے بیچوں بیچ قبریں نظر آنا شروع ہو گئیں۔ گویا قبرستان شروع ہو گیا تھا، دنیا سے چلے جانے والوں کی منزل، اس روز ہماری عارضی منزل تھی۔ اس قبرستان کی کوئی حد بندی نہ تھی، فصل کے بیچ میں قبرستان تھا یا قبرستان کے بیچ فصل لگی ہوئی تھی؟ قبروں کے اوپر قدموں کو گزرنے سے روکنے کی کوشش کرتے ہوئے، اونچے نیچے راستوں پر سنبھل سنبھل کر چلتے ہوئے ہم اپنی نانی جان کی قبر کی تلاش میں سرگرداں تھے۔
اپنی امی جان کی انتہائی تعظیم و تکریم کرتی تھی، ابا جی کی وفات کے بعد مجھے لگتا ہے کہ وہ چھوٹے بچوں کی طرح ہو گئی ہیں اور میں ان کی ماں جیسی ہو گئی تھی۔ اس روز مجھے ان میں اپنی ماں کی بجائے… اس بیٹی کی واضح جھلک نظر آئی تھی جو وہاں اپنی ماں کا مدفن ڈھونڈ رہی تھی۔ ان کا اشتیاق اور اضطراب دیدنی تھا۔ ہمیں اس وقت کیا معلوم تھا کہ وہ ان کی زندگی کا آخری ماہ محرم تھا اور ان کے دل میں جاگنے والی ماں کے مرقد پر جانے کی خواہش ان کی وہ آخری خواہش تھی جو ہمیں پوری کرنا تھی۔ وہ کبھی بول کر کسی چیز کی خواہش ظاہر ہی نہ کرتی تھیں۔
ایک چوڑی سی مگر خستہ حال قبر کو دیکھ کر انھیں شک ہوا مگر اس پر کتبہ نہ تھا۔ تب بھائی صاحب نے اسی قبر پر الٹا پڑا ہوا، سنگ مر مر کا وہ بھاری سا کتبہ اٹھایا اور اس کی عبارت پڑھی تو امی جان کے شک کی تصدیق ہو گئی۔ ان کے چہرے پر اس وقت جو اطمینان نظر آیا تھا، اس کو بیان کرنا الفاظ میں ممکن نہیں۔ دیر تک قبر کی تلاش میں خوار ہونے کی ساری کوفت… ان کی اس ایک مسکراہٹ سے دور ہو گئی تھی۔ ماں تو اولاد کی ساری خواہشات پوری کرتی ہے، ہم نے ان کی اتنی سی خواہش کو پورا کر کے اپنی دانست میں کوئی مشکل چوٹی عبور کر لی تھی جیسے۔
کیا کبھی کوئی میری قبر کو بھی یوں تلاشے گا؟ اس وقت میرے ذہن میں سوچ آئی تھی۔ شاید ماں نے بھی سوچا ہو گا کہ جانے میرے بچوں میں سے کبھی کوئی یوں میری قبر کو لگن سے ڈھونڈے گا کہ نہیں !! قبریں کیا ہیں … قبریں تو فقط مٹی کی ڈھیریاں ہیں، جن میں مٹی کا وجود مل کر مٹی ہو جاتا ہے۔ اصل قبریں تو جانے والوں کے بعد دلوں میں بن جاتی ہیں، جب دل دکھتا ہے تو ان قبروں کے ہونے کا احساس ہوتا ہے۔
ماں مرتی ہے تو ایک نسل کا پورا دور مر جاتا ہے، ماں کا آنچل مرتا ہے تواس کی اولادوں کے سروں کی چھاؤں مر جاتی ہے، ان کی وہ گود مر جاتی ہے جس میں سر رکھ کر وہ اپنے دکھڑے سناتے ہیں۔ وہ کندھے مر جاتے ہیں جس پر اپنے دکھوں کا بوجھ ڈال کر وہ آنسو بہاتے ہیں، ان کے سارے غم ماں اپنی انگلیوں کی پوروں سے چن کر انھیں شانت کر دیتی ہے۔ ان کے دعاؤں والے ہاتھ مر جاتے ہیں، اللہ کے سامنے گڑ گڑا کر اپنی اولاد کے لیے پھیلائی ہوئی جھولی مر جاتی ہے۔ وہ سجدے مر جاتے ہیں جو راتوں کو دیر تک کیے جاتے ہیں، جب اولاد کسی امتحان یا آزمائش میں ہوتی ہے۔
ماں جاتی ہے تو بچے کیوں تنہا ہو جاتے ہیں؟ ایک اکیلی ماں تو نہیں جاتی، اس کے ساتھ تو ان کا سارا بچپن، ساری جوانی چلی جاتی ہے، وہ لاپروائی چلی جاتی ہے جو ماں کے ہونے سے ہوتی ہے کہ ماں ہے نا!! ماں جو مشیر ہوتی ہے، باپ کے سامنے اولاد کی سفیر ہوتی ہے، مشکل میں با تدبیر ہوتی ہے۔ خاندان کا سب سے اہم فرد، نسلوں کی امین، سب کو جوڑے رکھنے کی زنجیر ہوتی ہے۔ ماں تسبیح کا امام ہوتی ہے، اس کے جانے سے تسبیح ٹوٹ کر بکھر جانے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ ماں کی کمی وجود میں ایک ایسا خلاپیدا کرتی ہے جسے کسی طرح پر نہیں کیا جا سکتا۔ دل کی گہرائیوں سے ماں کے لیے دعائیں نکلتی ہیں۔ وہ ماں جس نے ہمیشہ ہمیں اپنی دعاؤں کے حصار میں رکھا ہوتا ہے، مجھے لگتا ہے کہ ماں دنیا سے جا کر بھی اپنی اولاد سے دور نہیں جاتی، ہمیشہ ان کے لیے دعاگو رہتی ہے۔