" کیا بات ہے رحمت بیٹا، تم رہنا نہیں چاہتے یہاں؟ " میں نے اس سے سوال کیا۔
" جی، رہنا چاہتا ہوں۔ غریب آدمی ہوں، گھر سے سیکڑوں میل دور اسی لیے تو آیا ہو ں کہ کام کروں اور اپنے بال بچے کا پیٹ پالوں، نہ کوئی ہنر پاس ہے نہ تعلیم، لے دے کر ایسی چاکری ہی کر سکتا ہوں اور کوشش کر رہا ہوں کہ کام کو بہتر طور پر سیکھ سکوں ! " اس نے عاجزی سے کہا۔
" تو بیٹا، جب سیکھنے کے لیے آئے ہو اور ایک کام ایک دفعہ بتایا اور سکھایا جاتا ہے تو اسے بار بار نہ کہلوایا کرو!! "
" جی کوشش تو کرتا ہوں … "
" کوشش کیا کرتے ہو، تم نے کوشش تو اتنی بھی نہیں کی کہ اپنے کوارٹر کے غسل خانے کی ٹونٹیاں اور شاور کا استعمال ہی سیکھ لو۔ پہلے دن تمہیں چھوٹے صاحب نے سب کچھ سکھایا تھا کہ ٹونٹی کس طرح کھولتے ہیں، شاور کس طرح استعمال کرتے ہیں، مسلم شاور کس طرح استعمال ہوتا ہے، سنک کی ٹونٹی کس طرح کھلتی ہے … لیکن تم نے اسے سجھنے کی بجائے پہلے بالٹی اور مگ کا مطالبہ کیا اور اسی پر اکتفا نہیں، اگلے روز تم نے لوٹا مانگ لیا۔ دنیا آگے کی طرف جا رہی ہے اور تم بجائے اس کے ساتھ چلنے کے، وہی پرانے زمانے کی چیزوں کو استعمال کرنا چاہتے ہو؟ ( اسے بتاتے ہوئے دل میں سوچ بھی رہی تھی کہ ہم گھروں کو ماڈرن بنانے کے چکروں میں یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے ملازمین کس کس بیک گراؤنڈ سے آتے ہیں، انھیں فلش پر بیٹھنا تک نہیں آتا اور ہم ان کے لیے مشکل میکنزم والی اشیاء لگوا دیتے ہیں ) برتن دھوتے ہو تو ایک برتن کو صابن لگا کر اسے دھوتے ہو، پھر پانی کھول کر اسے کھنگالتے ہو، اس کے بعد پانی بند کرتے ہو، پھر اگلے برتن کو اسی ڈرل سے گزارتے ہو، دس منٹ کا کام آدھے گھنٹے میں کرتے ہو… اگلے روز تمہیں بتایاتھا کہ میز پر کھانے کے برتن لگا کر، گلاسوں میں پانی ڈال کر رکھا کرو اور ساتھ ایک اور جگ بھی بھر دیا کرو، اتنی سی بات تمہیں یاد نہیں رہتی اور میز پر کھانا کھاتے ہوئے صاحب اور بچوں کا اس چھوٹی سی بات پر موڈ خراب ہو جاتا ہے۔ "
وہ سر جھکائے سن رہا تھا، بچے اس سے چند دن میں ہی چڑنے لگے تھے… اس نے اپنے استعمال کے لیے اسٹیل کا گلاس بھی منگوایا تھا، اس کا سائز بھی شیشے کے عام گلاسوں سے بڑا تھا اور گلاس منگواتے وقت اس نے یہی کہا تھا کہ اسے چھوٹے اور شیشے کے گلاس میں پانی پینے کی عادت نہیں۔ اسے اسٹیل کا گلاس لا کر دینا پڑا، آج کل کے زمانے میں ملازمین کے ایسے نخرے تو اٹھانا ہی پڑتے ہیں نا۔ لیکن ایک عادت اس کی انتہائی پر اسرار اور عجیب سی تھی کہ وہ ہمارے کھانے کے بعد برتن اٹھاتا تو تمام گلاسوں میں سے پانی اپنے اس اسٹیل کے گلاس میں ڈال کر جمع کرتا اور وہیں کچن کے فرش پر اکڑوں بیٹھ کر پی جاتا اور باآواز بلند، شکر الحمدللہ کہتا۔ اگر پانی اس گلاس سے زیادہ ہوتا تو وہ ایک گلاس پی کر باقی پانی کو جمع کر لیتا اور اپنے کمرے میں لے جاتا۔
میں اپنے بچوں کو اس بات پر مذاق سے کہہ رہی تھی کہ وہ چاہتا ہے کہ اس کا پیار آپ اور ہم، سب لوگوں سے بڑھے… ہم نے اپنے بچپن سے اپنے بزرگوں سے یہی سنا تھا کہ ایک دوسرے کا جھوٹا پانی پینے سے پیار بڑھتا ہے۔ ( اس کا اصل مقصد یہی ہوتا تھا کہ ایک دوسرے کا جھوٹا پینے اور کھانے سے بچے کراہت نہ کریں ) لیکن اب بچے کسی کا جھوٹا پینا تو درکنار، اس بات پر بھی معترض ہوتے ہیں کہ کوئی ان کا جھوٹا کیوں پئے۔ اسی بات سے مجھے بھی حیرت تھی اور اسے میں نے خود بھی ایسا کرتے ہوئے دیکھا تو عجیب سا لگا، شاید اس کی ذہنی حالت خراب ہے، میں نے یہی سوچا تھا۔
" ایسی بات نہیں ہے باجی، میں کام کرنا چاہتاہوں، سیکھ بھی رہا ہوں اور اللہ کا کرم ہے کہ اس نے ایسا دماغ دیا ہے کہ جو بات کوئی شخص ایک بار کہہ دے، وہ میرے دل اور دماغ میں ریکارڈ ہو جاتی ہے۔ میں تو سمجھا کہ آپ لکھتی ہیں، دردمند دل رکھتی ہیں، میرا آگا پیچھا اورمیرے حالات جانتی ہیں تو آپ کواندازہ ہو گیا ہو گا کہ آپ کے ان سب اعتراضات کے پیچھے ایک ہی نیت ہے۔ آپ کے بچے، صاحب اور آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ میراذہنی توازن خراب ہے… ( جانے کیسے وہ میری سوچ تک رسائی پا گیا تھا) لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کے لیے جو وقعت قیمتی گاڑیوں، ٹیلی فونوں، دولت، اچھے کپڑوں اور زیورات کی ہے، ان سب سے بڑھ کر ہمارے لیے قیمتی پانی ہے۔ میں تھر کے صحرائی علاقے مٹھی سے آیا ہوں۔
میز پر گلاسوں میں پانی اس لیے نہیں ڈال کر رکھتا کہ ہر کوئی اس میں سے ایک دو گھونٹ لے کر باقی پانی گلاس میں چھوڑ دیتا ہے، یہ پانی واپس جگ میں نہیں ڈالا جا سکتا، حالانکہ اس میں حرج کوئی نہیں۔ اس لیے میں نے سوچا کہ پہلے سے پانی ڈال کر ضایع کرنے کی بجائے، ہر کوئی اتنا ہی پانی اپنے لیے خود ڈال لے، جتنا کہ اس نے پینا ہے۔ میں اس بچے ہوئے پانی کا ایک قطرہ بھی ضایع نہیں کرتا، شکر کر کے پی لیتا ہوں۔ جو بچ جاتا ہے، اسے اگلے وقت کے لیے محفوظ کر لیتا ہوں۔ برتن دھوتے ہوئے بھی بار بار ٹونٹی اسی لیے بند کرتا ہوں کہ اتنی دیر پانی بے مقصد نہ بہتا رہے، جب تک کہ میں برتن دھو کر ٹوکری میں نہ رکھ لوں۔
میں اس صاف شفاف پانی کا ایک گھونٹ بھی پیتا ہوں تو اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے کتنی بڑی نعمت سے نوازا ہے، ساتھ ہی آنکھیں بھر آتی ہیں کہ میرے گھر میں ایسا پانی تو دور کی بات، اس سے سو درجے گھٹیا کوالٹی کا پانی بھی میسر نہیں ہوتا۔ جو پانی ہمارے گھر کاہر فرد اتنی مشقت کے بعد دور دراز سے ڈھو کر لاتا ہے، وہ آپ کے بچے پینا تو درکنار، اس میں اپنے پاؤں بھی نہ دھوئیں۔ اسی لیے میں نے آپ سے بالٹی، لوٹا اور مگ منگوایا کہ میں پانی کا زیاں نہیں کرسکتا، ایک قطرہ بھی بے مقصد نہیں بہا سکتا۔ میں وضو کر کے بھی اس کا پانی پودوں کو ڈالتا ہوں۔
آپ لوگ ہر روز نہاتے ہیں، حالانکہ اس کی ضرورت بھی نہیں اور نہ ہی ہر روز نہانا فرض ہے، آپ صاف ستھرے ہوتے ہیں تب بھی نہاتے ہیں، دفتر اور اسکول جاتے ہوئے اور واپس آ کر پھر۔ آپ کے غسل خانوں کے شاور یوں ہیں جیسے بارش ہو رہی ہو، اس میں نہانے سے کتنا پانی ضایع ہوتا ہے۔ آپ لوگوں کی گاڑیاں، باہر کی گلیاں، پورچ اور غسل خانے ہر روز دھلتے ہیں، حالانکہ اس کی بھی ضرورت نہیں ہوتی، مگر اس لیے کہ آپ کو پانی میسر ہے، کثرت سے اور اس کی کمی یا محرومی کا احساس آپ کو اور آپ کے بچوں کو کبھی ہوا نہیں۔ ہمارے ہاں لوگ پانی کی ایک ایک بوند کو ترستے ہیں۔
بچے، مریض، حاملہ عورتیں اور بچوں کو دودھ پلانے والی مائیں بھی باقی سب کی طرح پانی کی راشن بندی کے تحت کم پانی پی کر مزید بیمار ہو جاتے ہیں مگر آپ کے محلے میں میں نے لوگوں کو اپنے کتوں کو بھی کھلے پانی سے نہلاتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں پانی کی اس ناقدری پر دکھی ہو جاتا ہوں، بھلے آپ مجھے نہ رکھیں، ملازمت سے اس جواز پر فارغ کر دیں، بلا جوازبھی فارغ کردیں کہ آپ مالک ہیں مگر میں اپنی روش نہیں چھوڑ سکتا، جس طرح آپ لوگ اپنی روش نہیں چھوڑ سکتے!! " اس کی بات ختم ہونے تک اس کی آواز بھرا چکی تھی۔
رات کے کھانے پر میز پر پھر گلاسوں میں پانی نہیں تھا… اس پر صاحب اور بچوں کا موڈ آف ہونا یقینی تھا کہ انھوں نے مجھے کہا تھا کہ نئے ملازم کو سمجھا کر ایک موقع ضرور دوں۔ میں نے جگ اٹھا کر اپنے لیے پانی ڈالا، جتنا مجھے پینا تھا۔ " ہر کوئی اپنے لیے خود پانی ڈالے، جتنا کسی کو پینا ہے اور کوئی پانی گلاس میں نہیں چھوڑے گا، یوں پانی کا زیاں ہوتا ہے۔ دن میں دو دفعہ آج کے بعد کوئی بھی نہیں نہائے گا، بلا ضرورت ہر روز بھی نہیں، نہ ہی گلیاں اور گاڑیاں ہر روز دھلیں گی۔ ہم نے کسی اور کو نہیں مگر اللہ کو تو جواب دینا ہے کہ جو نعمتیں اس نے ہمیں عطاکیں، اس کا استعمال ہم نے کس طرح کیا۔ " سب مجھے حیرت سے دیکھ رہے تھے، رحمت روٹی دے کر چلاگیا تھا۔
" مجھے اندازہ ہوا ہے کہ ذہنی مریض رحمت نہیں، ہم سب لوگ ہیں جو فہم اور علم رکھنے کے باوجود اس طرح پانی کا زیاں کرتے ہیں۔ اگر رحمت اپنی پانی کی قدر کرنے کی روش تبدیل نہیں کر سکتا تو نہ کرے، وہ اچھا کام کر رہا ہے، ہم اپنی روش تبدیل کر لیتے ہیں اور اس کی نقل میں پانی کی بچت شروع کر دیتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ زندگی کے سارے اسباق استادوں اور کتابوں میں ہی لکھے ہوتے ہیں، سیکھنے کا شوق ہو تو انسان ہر کسی سے اور ہمہ وقت سیکھ سکتا ہے!! " سب کو میری ذہنی حالت پر بھی شبہ ہو رہا تھا!!!