کیا یہ مان لیا جائے کہ عمران خان بری طرح ناکام ہو گئے ہیں۔ شاید اب حکومتی فدائین کا یہ فارمولا بھی ناکام ہو گیا ہے کہ وہ پرانے والوں کو کوستے رہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ یہ قرضوں والی معیشت اور صارف کا معاشرہ ہے، اس میں اخراجات زیادہ ہیں اور وسائل اور آمدنی کے راستے محدود۔ مان لیں کہ آپ کا ایف بی آر کا پورا ادارہ ناکام ہو گیا ہے، یہ بھی درست ہے کہ ہمارے ہاں ٹیکس کا نظام اتنا ڈھیلا ڈھالا ہے کہ کوئی بھی ذمہ داری اور ایمانداری سے ٹیکس دینے کے لئے تیار نہیں اور حکومت عوام کے لئے کوئی اصلاح احوال اور فلاح کے پلان پر عملدرآمد کرنے کے لئے تیار نہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ ہمارے حکمران فراری ذہنیت کے لوگ ہیں، کامیاب لوگوں کا قرینہ تو یہ ہوتا ہے کہ وہ مسائل کا سامنا کرتے ہیں اور ان کا حل تلاش کرتے ہیں۔ قوم کا حال یہ ہے کہ سب کچھ حکمرانوں پر چھوڑ دیا ہے۔ منقسم معاشرہ، مختلف لیڈروں کے فدائیں، سارا دن ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلتے رہتے ہیں۔ مہنگائی کا طوفان برپا ہے، روزانہ کوئی نیا بحران سر اٹھاتا نظر آتا ہے۔ رہنمائوں کے پاس لفظوں اور تاویلوں کے علاوہ کچھ نہیں ایک دوسرے کے پرخچے اڑانے اور کردار کشی کے لئے میڈیا سیل قائم ہیں۔ جو انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور پوری قوم مسائل کے بوجھ تلے دب کر رہ گئی ہے۔
یہ انداز فکر اور طرز احساس کی خرابی ہے جو دلدل کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ حکومتی پالیسیوں کا رخ درست نہیں بلکہ فکر مندی کی بات یہ ہے کہ اس صورتحال کی سنگینی کا احساس کسی کو نہیں سب کو اپنی اپنی پڑی ہے۔ اب اپوزیشن نئی توانائی کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ ایک طرف پی ڈی ایم نے مہنگائی مارچ کا پلان بنا لیا ہے، دوسری طرف بلاول بھٹو خبر دے رہے ہیں کہ حکومت جلد گھٹنے ٹیک دے گی۔ دونوں کے انداز جارحانہ ہیں۔
مریم نواز ایک بار پھر میدان میں آنے کے لئے کمربستہ دکھائی دے رہی ہیں۔ وہ لوگوں سے سوشل میڈیا کے ذریعے دریافت کر رہی ہیں کہ حکومت کو ہٹانے کے لئے اپوزیشن کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے۔ یہ تو حقیقت ہے کہ 75برس میں کبھی بھی ملکی معیشت اس طرح روبہ زوال نہیں رہی۔ خرابیوں کی جڑ تلاش کرنے کی فکر کسی کو نہیں۔ حکومت ہے کہ یہ بھی نہیں بتا رہی کہ ٹی پی ایل کے ساتھ معاہدہ خفیہ کیوں رکھا جا رہا ہے۔
وزیر اعظم قوم سے خطاب کر رہے ہیں اور یہ نہیں بتا رہے کہ اس وقت ملک کے سلگتے مسائل کیا ہیں ان کو حل کرنے کے لئے ان کے ذہن میں کیا ہے۔ اگر وہ بات نہیں کرنا چاہتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس اس کا جواب نہیں ہے یا وہ صورتحال سے خود بھی گھبرا گئے ہیں۔ وہ کرپشن کے خلاف نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے۔ لیکن اس وقت کرپشن مسلسل فروغ پا رہی ہے آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اناڑی پن اور نااہلی ہے پھر آپ یہ دعویٰ کیوں کرتے تھے کہ آپ کے پاس ایک ایسی ٹیم ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے کچھ ایسا کر دکھائے گی کہ سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔
حکومت نے چینی کے معاملے کو جس طرح ہینڈل کیا وہ اس کے اناڑی پن اور کرپٹ ڈھانچے کا واضح ثبوت ہے کس حکیم لقمان نے بتایا تھا کہ پہلے چینی ایکسپورٹ کرو پھر اس سے زیادہ پیسوں میں امپورٹ کرو۔ یاد رکھیں جوڑ توڑ زیادہ دیر نہیں چلتا اس سے عدم استحکام پیدا ہوتا ہے، افراتفری اور بے چینی ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک اشرافیہ کا غلام بن کر رہ گیا ہے۔ جناب وزیر اعظم آپ آصف علی زرداری اور نواز شریف سے کہہ رہے ہیں کہ اگر وہ لوٹی ہوئی دولت کا آدھا حصہ بھی واپس لے آئیں تو وہ مہنگائی ختم کر دیں گے، اس سے کیا نتیجہ اخذ کیا جائے کہ آپ نے احتساب کا جو عمل کیا تھا وہ فلاپ ہو گیا ہے۔
آپ کو شاید اندازہ نہیں ہو رہا کہ 22کروڑ کے اس ملک کا معاشی پیکر بری طرح مجروح ہو گیا ہے۔ آپ کہاں کہاں مرہم لگائیں گے کیا کیا نسخے آزمائیں گے۔ آپ کی بیورو کریسی بگڑ چکی ہے، وہ من مانیاں کر رہی ہے۔ آپ کے وزراء ارسطو اور سقراط بنے ہوئے ہیں کہیں دھمکیاں لگاتے ہیں اور اگلے لمحے دبک جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے باہم اختلاف کی وجہ سے سیاسی طور پر آپ کو ایک کمزور وکٹ پر کھڑا کر دیا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں۔ سیاست سے لاتعلق ایک مضبوط فوج، ٹیکس وصول کرنے والا ایک قابل اعتماد ادارہ اچھی سول سروس اور پولیس ایسے بلدیاتی ادارے جو مقامی ضرورتوں کے مطابق ترقیاتی ترجیحات طے کر سکیں جمہوری سیاسی پارٹیاں جو اپنے بہترین افراد کو ذمہ داریاں سونپی خود دیکھ لیں کہ ان میں سے کون سی چیزیں حاصل ہیں۔
وزیر اعظم خود اندازہ کریں کہ انہوں نے قوم سے کیا وعدے کئے تھے اب دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ ان میں سے کتنے پورے کئے۔ آپ نے گھر دینے کا وعدہ کیا کیا ہوا۔ آپ نے ملازمتیں دینے کا وعدہ کیا تھا اس کا کیا بنا۔ یقین جانیں کئی لاکھ افراد بے روزگار ہوئے ہیں۔ آپ نے کرپشن ختم کرنے کی بات کی تھی لیکن یہ بڑھی ہے۔ آپ نے احتساب کی بات کی تھی نیب منہ تک رہا ہے کچھ ثابت نہیں ہو رہا۔ امن و امان کی صورتحال اچھی نہیں۔ صحت اور تعلیم کے شعبے میں کوئی قابل قدر پیش رفت نہیں ہوئی۔ احساس پروگرام کے تحت کچھ کام ضرور ہوئے۔ لیکن مہنگائی اور بے روزگاری کے عذاب نے آپ کے چند اچھے کاموں کو بھی بھسم کر دیا ہے۔ سچ پوچھیں مڈل کلاس اب غریب ہو گئی ہے اور غریب کے منہ سے نوالا چھین لیا گیا ہے۔
جناب وزیر اعظم آپ نے بلڈنگ کنسٹرکشن انڈسٹری کو مراعات دیں۔ اب تعمیراتی لاگت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ لاکھ کروڑوں میں گنے جا رہے ہیں۔ اسٹاک ایکسچینج ہچکولے کھا رہا ہے، آپ کی قبولیت کا گراف گرتا جا رہا ہیآپ کے وزیر کم کھانے کا مشورہ دے رہے ہیں، گرتی معیشت اور بڑھتی آبادی ہر شخص کی آمدنی میں کمی کا باعث بن رہی ہے۔ فی کس آمدنی بھارت اور بنگلہ دیش سے کم رہ گئی ہے۔ اپوزیشن آپ کے خلاف صف آرا ہو گئی ہے۔ مولانا فضل الرحمان، شہباز شریف، مریم نواز اور بلاول بھٹو نے آستینیں چڑھا لی ہیں۔ لوگ اضطراب کا شکار ہیں۔ وہ اپوزیشن کی محبت میں نہیں آپ کی مخالفت میں نکل آئیں گے۔
نئے حالات و واقعات میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ابھی بھی شاید کچھ وقت ہے کہ نیب اپنی غلطیوں کا احساس کرے، اپنے اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کریں ایک دوسرے کو تسلیم کریں، ساتھ مل بیٹھ کر غور کریں۔ آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کریں۔ نفرتوں کے تندور گرم نہیں ہونے چاہیئں۔ ورنہ مہلت کا وقت کم ہے انا، ضد اور ہٹ دھرمی بڑے بڑے مضبوط حکمرانوں کو ایسے گڑھے اور دلدل میں دھکیل دیتی ہے جہاں سے وہ نکل نہیں پاتے۔ یہی تاریخ کا سبق ہے خدا ہم پر رحم کرے، گھڑی کی ٹک ٹک بتا رہی ہے کہ کچھ ہونے والا ہے۔