وہ مرحلہ آن پہنچا ہے، میدان سجنے والا ہے اور لہو گرمانے والے اکھاڑے تیار کھڑے ہیں۔ دونوں طرف سے بلند بانگ دعوئوں اور وعدوں کا شور ہے۔ دونوں طرف سے بے رحمانہ الزامات کی بوچھاڑ ہے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی زور آزمائی ہے۔ لگتا ہے حکومت اپوزیشن کی تحریک کو کچلنے کیلئے بڑے کریک ڈائون اور طاقت کا استعمال نہ کرنے کا آپشن استعمال کر رہی ہے۔ آ ل پارٹیز کانفرنس میں نواز شریف کی تقریر احتجاجی اور جارحانہ انداز اختیار کرنے کا واضح اشارہ تھا۔ اس کے جواب میں حکومتی وزراء اور مشیروں نے تابڑ توڑ حملوں بظاہر اعلان جنگ کا طبل بجا دیا تھا۔ لیکن اب لگتا ہے کہ کسی سیانے نے وزیر اعظم کو ماضی کی یہ مثال دے کر سمجھایا ہے کہ 10اپریل 1986کو جب بے نظیر بھٹو لاہور تشریف لائیں تو وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے صدر ضیاء الحق کو ان کے خلاف کسی قسم کی حکومتی مزاحمت نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا اور اس کے نتیجے میں بے نظیر کے تاریخی جلسے اور جلوس ضیاء الحق پر فیصلہ کن دبائو نہیں ڈال سکے تھے۔
منظر اس وقت بدلا، جب بہاولپور کے نزدیک لال کمال بستی میں سی ون 30کے افسوس ناک واقعے کے نتیجے میں پاکستان میں سیاہ و سفید کے مالک ضیاء الحق اس دنیا میں نہیں رہے۔ اب یہ حقیقت بھی سامنے آگئی ہے کہ حکومت نے نسبتاً عجلت میں مسلم لیگ نون کی تمام قیادت کے خلاف غداری کا جو مقدمہ قائم کرنے کی کوشش کی تھی اس میں اسے پسپائی ہوئی کیونکہ پنجاب کے انسپکٹر جزل پولیس نے اس مقدمہ کے بابت وزیر اعظم کے پرسنل سیکریٹری اعظم خان کو ٹیلی فون پر تمام آگاہی فراہم کر دی تھی اس لئے وزیر اعظم کا یہ موقف درست دکھائی نہیں دیتا کہ انہیں اس مقدمے کے اندراج کا علم ہی نہیں تھا۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ حکومت اپنے خلاف چلنے والی تحریک کو کس مقام پر خطرہ سمجھتی ہے اور اس کے مقابل کیا حکمت ترتیب دیتی ہے اور اس سے بڑھکر یہ کہ اسٹیبلشمنٹ کتنی مضبوطی سے کہاں تک حکومت کا ہاتھ تھامے رکھتی ہے۔ اپوزیشن کو بھی یہ سوچنا چاہیئے کہ اس تحریک کے لئے انہیں جو انقلابی قافلہ چا ہیئے وہ ان کے پاس ہے بھی یا نہیں کیونکہ ان کے راستے میں حوالات، عقوبت خانے اور شاہی قلعے پڑتے ہیں۔
کیا یہ سب انکے ذہن میں ہے کہ جو قیامت برپا ہو گی اس سے یہ نمٹ سکیں گے۔ اس کے نتیجے میں ملک کے بعض علاقوں میں جو طوفانی جھکڑ چلیں گے ان سب پر قابوپانے کے لئے حزب مخالف پر فہم و فراست موجود ہے، ان سے جو نقصان پہنچے گا اس کا ذمہ دار کون ہو گا۔ وزیر اعظم نے تو کہا ہے کہ خدا کے واسطے آنکھیں کھولو، ہماری فوج بدل چکی ہے، اگر ہماری فوج نہ ہوتی تو اب تک ہمارے ملک کے تین ٹکڑے ہوجاتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فوج ہماری یکجہتی، آزادی اور دفاع کی ضامن ہے اور پوری قوم اس کی پشت پر کھڑی ہے۔ لیکن جناب وزیر اعظم آپ نے جو بات کی ہے کیا آپ قوم کو بتانا پسند کرینگے کہ کیا یہ شازشیں بین الاقوامی، علاقائی یا اندرونی تھی۔ اس کے سرکردہ عناصر کون سے تھے اور اب وہ سرکش عناصر کہاں ہیں۔ تین ٹکڑے کے جغرافیائی تفصیل بھی بیان کریں اور قوم کو بتائیں کہ ان ٹکروں کی بنیاد کن سوچوں، تحریکوں اور سیاسی عوامل پر رکھی گئی۔
یقین جانیں اس سے آپکی اور اداروں کی عزت و توقیر قوم کی نگاہوں میں بڑھ جائے گی۔ پاکستان میں اس وقت پاور پالیٹکس ہو رہی ہے اور اس میں عمران، نواز شریف، بلاول اور فضل الرحمن مد مقابل ہیں۔ ووٹ کو عزت دو کے نعرے کی اہمیت سے کوئی انکار ہی نہیں کر سکتا لیکن اس نعرے کے پیچھے کوئی ٹھوس نظریہ دکھائی نہیں دیتا، جس سے پاکستان میں عام لوگوں کے معاشی اور معاشرتی حالات بہتر ہوں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملکی سیاست پر ابھر نے والے مریم نواز اور بلاول بھٹو متبادل قیادت کا سیاسی تصور پیدا کر سکتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ عوام کے اندر خاصی کشش رکھتے ہیں۔ مجھے تو موجودہ اپوزیشن کی تحریک تاریخ کا ری پلے نظر آرہا ہے۔ 1977میں بھٹو کی خواہش اور کوشش تھی کہ پی این اے کی قیادت اصغر خان کو نہ ملے کیونکہ اصغر خان اس وقت کے مقبول ترین لیڈر تھے لیکن قیادت کا سہرا مفتی محمود کے سر سجا۔ آ ج پی ڈی ایم کی قیادت مولانا مفتی محمود کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمن کے ہاتھ میں ہے جبکہ ملک کے دو طاقت ور اور مقبول جماعتیں ان کے پیچھے کھڑی ہیں۔ ساتھ ساتھ ہم پوری سچائی کے ساتھ اپنے ارد گرد نظر ڈالیں تو یہاں مفلسی ہے، بے چارگی ہے تنگ دستی ہے، بے حسی ہے، وحشیانہ درندگی ہے، بے روزگای ہے اور بے رحم مہنگائی ہے۔
ہر طرف مجبوریاں ہیں جو بکھری پڑی ہیں، زہر پینا، چھت سے دھکا دینا، بچوں کو نہر میں پھینک دینا، اپنی اولاد کی گردن پر چھری پھیر دینا، تیل چھڑک کر آگ لگا لینا اور معصوم بچوں اور خواتین کے ساتھ ز یادتی کے نا قابل یقین واقعات تواتر کے ساتھ ہو نا ہمیں یہ بتاتا ہے کہ یہاں ظلم کا نظام ہے، یہاں دکھ ہے، تکلیف ہے، بیماری اور پریشانی ہے۔ یقین جانیں لوگ درد سے پگھل رہے ہیں لیکن ان کے پاس دوائی کے پیسے نہیں ہیں۔ کروڑوں والدین اپنے بچوں کو خواہش کے باوجوداسکول نہیں بھیج سکتے۔ کیا عوام کے ان حقوق کو ادا کرنا ہمارے حکمرانوں کی ذمہ داریاں نہیں ہیں۔ مجھے تو خدشہ ہے کہ وہ خدا جو ہم جیسے سنگ دلوں کو برسوں سے رزق دے رہا ہے کہیں ہم سے یہ نہ پوچھ لے کہ میں نے تمہاری تمام نا فرمانیوں، کوتاہیوں، کمزوریوں، گناہوں اور ظلم و ستم کے باجود تم پر اپنی نعمتوں کا نزو ل بند نہ کیا لیکن افسوس تم اپنی ذمہ داریوں پر پورے نہ اترے اور دنیا کی آزمائش میں ناکام و نامراد ہو گئے۔
پھر شاید ہمارے پاس وہ مہلت بھی نہ رہے کہ ہم چھپ کر اللہ کے پکڑ اور انصاف سے بچ سکیں۔ زندگی بہت مختصر ہے با لآخر ہمیں اس کے حضورر پیش ہونا ہے۔ فیصلہ آپ کر لیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں کیونکہ تاریخ صرف اور صرف ان قبروں پر رکتی ہے جہاں انسانوں کے نجات دہندہ سوئے ہوتے ہیں۔