امریکہ کے صدور کی یادداشتوں اور سوانح کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے دنیا پر اپنی با لا دستی قائم کرنے کے لئے کیا کیا جتن کئے ہیں۔ سابق صدر اوباما نے اپنی کتاب A Promise Landمیں بے شمار باتیں لکھی ہیں۔ پوری کتاب پڑھنے سے آپکو اندازہ ہو سکتا کہ امریکہ پر 8سال حکمرانی کرنے والا پہلا سیاہ فام صدر وہائٹ ہائوس میں گزارے ہوئے دنوں کو کیسے یاد کر رہا ہے۔ وہ دنیا کو کس نظر سے دیکھ رہا ہے اور اپنی پالیسیوں پر کس طرح داد حاصل کرناچاہتا ہے۔
جی ہاں یہ امریکہ ہے! جہاں مقبول صدر جان ایف کینیڈی 60کی دہائی میں اعلان کر رہا ہے کہ سیاہ فام اور گوروں کے خون کا رنگ تو ایک جیسا ہے پھر تخصیص کس بات کی، امریکہ میں رہنے والے تمام شہریوں کے حقوق یکساں ہونے چاہیئے۔ وہائٹ ہائوس کا یہ مکین، سیاہ فام لوگوں کے غیر متنازعہ لیڈر مارٹر لو تھرکنگ کی آواز میں اپنی آواز ملاتا ہے۔
جی ہاں یہ امریکہ ہے! 1954کا واقعہ ہے، جب دوسری جنگ عظیم کے سارے زخم ابھی ہرے تھے اور برما کے محاذوں پر توپوں کا نشانہ بننے والے گورے فوجیوں کی بیوائیں لندن، پیرس اور بون میں عصمت فروشی کا دھندہ کرتی تھیں۔ اس وقت جرمنی کی فیکٹریوں کی چمنیوں میں پرندوں نے گھونسلے بنا رکھے تھے۔ جاپان ناگا ساکی اور ہیرو سیما کے کھنڈرات سے عبرت کی راکھ چن رہا تھا۔ چین افیون کو ٹھکانے لگانے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ عرب صحرا میں کھوئے ہوئے اونٹ تلاش کر رہا تھا اور روس اپنے عوام کو قطار بنانے کا آرٹ سکھا رہا تھا۔ اس وقت امریکہ دنیا کے ساٹھ فیصد جی ڈی پی کا مالک تھا۔ اس کی سڑکیں شیشے کی طرح چمکتی تھیں اور اس کی عمارتیں آسمان کو بوسہ دیتی تھیں۔ اس وقت امریکہ کا صدر دنیا کا مالک تھا لیکن اس طاقت کے با وجود اس کے شاطر ترین مشیر یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ہم اپنے مطلب کی صورت حال پیدا نہ کر سکے، بس اپنی چالاکی اور طاقت سے صورت حال کو گڈ مڈ ہی کر سکے۔ پھر دنیا کی سفارتی تاریخ نے گواہی دی، مشرق سے مغرب تک حکمرانی کرنے والا امریکہ سمندری چٹانوں پر کھڑے چھوٹے سے "کیوبا" کو فتح نہ کر سکا۔ صحرائوں کے ریت میں ہوائوں کے رحم وکرم پرقائم لیبیا کو مسخر نہ کر سکا، انقلاب کے بعد اپنے تمام تر جبر کے باوجود ایران کو سرنگوں نہ کر سکا، اور اپنی ساری عسکری طاقت کے باوجود ویت نام کے نہتے جنگلیوں کو قابو نہ کر سکا، انقلاب کے بعد اپنے تمام تر جبر کے با وجود ویت نام کے نہتے جنگلیوں کو قابو نہ کر سکا۔
یہ امریکہ ہے! جس نے ایرانیوں اور عراقیوں کے درمیان الجھائو پیدا کیا اور اس جنگ میں کتنے لوگ لقمہ اجل بنے۔ عراقیوں کو کس نے کیمیکل ہتھیار فراہم کئے، جس نے کردوں کی ایک نسل کو پگھلا کر رکھ دیا۔ امریکہ کے سفیر نے ایک دن پہلے نہیں کہا تھا کہ رومیو آئل فیلڈ کویت کی نہیں عراق کی ملکیت ہے اور دوسرے دن صبح جب کویتیوں کی آنکھ کھلی تو عراقی فوجی اس کی گلی کوچوں پر قبضہ کر چکے تھے۔
جناب یہ امریکہ ہے! میں نے عراق امریکی جنگ پر باقاعدہ ایک کتاب لکھی۔ مشرق وسطیٰ کی جنگ کے دوران نوائے وقت کے صفحات پر اسے مسلسل شائع کیا، جہاں ڈھلکی ہوئی عراقیوں کی گردنیں انسانیت کے اجتماعی ضمیر پر ضرب لگا رہی تھیں۔ ان عراقیوں کے جسموں سے ٹپکتا لہو آج بھی درد دل رکھنے والوں کے لئے ایک تازیانہ کا کام کرتا ہے۔ میں نے سینکڑوں عراقیوں کی ایسی تصویریں دیکھی ہیں جن کی رگوں سے امریکی بارود نے زندگی اس طرح اڑا دی تھی، جس طرح گرم الائو پانی کو بھاپ بنا دیتا ہے۔ آپ خود سوچیں کہ ان ڈھلکی گردنوں، کٹے پٹے جسم، ان کے چیختے چلاتے جسم، دنیا کے ضمیر سے سینکڑوں سوال کرتے رہے لیکن کیا امریکہ کی باون ریاستوں میں ایک بھی ایسی تنظیم نہیں تھی، ایک بھی ایسا اخبار نہیں تھا۔ انسانوں کا ایک بھی ایسا گروہ نہیں تھا، جو ان کے لئے انصاف کا طلب گار رہا ہو۔ آپ سوچیں کہ عراق میں اب تک صرف انسان مرے ہیں، کوئی ٹم، جانسن، کوئی ڈیوڈ نہیں مرا۔ وہاں اب تک صرف مسلمان مارے گئے ہیں، کوئی کتا ہلاک نہیں ہوا، لیبیا کے کرنل قذافی کے ساتھ امریکیوں نے کیا حیوانی سلوک کیا، میں اس پر مزید لکھوں گا۔ آپ ذرا تصویر تو اس امریکہ کی دیکھیں جو انسانی حقوق کا سب سے بڑا چیمپئن بنا ہوا ہے۔ پاکستان کی تشکیل کے بعد وطن عزیز کے لئے اپنا کیمپ منتخب کرنا تھا تو اس وقت کے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان نے ماسکو کے بجائے واشنگٹن کا دورہ کیا تھا اور ہم نے اپنا وزن امریکہ کے پلڑے میں ڈال دیا تھا مگر آپ دیکھ لیں کہ امریکیوں نے ابتک ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ اسی امریکہ کے سیکریٹری آف اسٹیٹ ہنری کسنجر نے لاہور کے وی آئی پی لائونج میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آگر آپ نے ایٹم بم بنانے کی ضد نہ چھوڑی تو ہم آپ کو عبرت کا نشان بنا دینگے۔
ہم نے امریکیوں کا کہاں کہاں ساتھ نہ دیا، روسی جار حیت کے خلاف ہم امریکیوں کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ ہم نے اپنی معاشرت اور امن و سکون برباد کر لیا لیکن ہمیں کیا ملا۔ امریکہ میں رہنے والے ایک دوست نے کہا کہ آخر ہمارا قصور کیا ہے، ہم لوگ پچھلی ایک نسل سے پاکستان سے مفرور ہیں۔ دو چار سال بعد اسلام آباد، کراچی اور لاہور کا چکر لگاتے ہیں اور ہمارا سارا لائف اسٹائل امریکن ہے۔ ہم اردو بول سکتے ہیں نہ ہی سمجھ سکتے ہیں لیکن اس کے با وجود ہم جہاں بھی جاتے ہیں ہمیں پاکستانیوں کی طرح ہی ٹریٹ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ہمارا سارا سامان کھولا جاتا ہے اور ہمارے کپڑے، ہمارے سامان اور ہمارے جسم کی تلاشی لی جاتی ہے۔ ہمیں ڈرٹی پاکی کہا جاتا ہے، ہمیں چور، اسمگلر اور قاتل سمجھا جاتا ہے۔ کیوں؟ آخر کیوں؟ میرے دوست کا سوال مدلل بھی تھا اور حقیقت سے قریب بھی مگرمیں خاموش ہو گیا۔ میرا خیال ہے کہ آپ بھی میری طرح ایسے سوالات پر خاموشی اختیار کرینگے کیونکہ بعض سوال اپنے جوا بات سے زیادہ جامع، ذیادہ مکمل اورزیادہ بلیغ ہوتے ہیں۔