موجودہ صورت حال میں سیاسی ماحول میں دن بہ دن تلخی برھتی جا رہی ہے۔ حکومت اور حزب مخالف سیاسی حریفوں کے بجائے دشمنوں کی طرح ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں۔ بیانات اور الزامات کا شور ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے اور ہر اعتبار سے کشیدگی اور محاذ آرائی کا شور زوروں پر رہا ہے۔ دوسری طرف مہنگائی کا شور ہے، جس نے غریب اور متوسط طبقے کے مصائب، پریشانیوں اور محرومیوں میں نا قابل برداشت حد تک اضافہ کر دیاہے۔ حکومت اور اپوزیشن اپنے اپنے جا رحانہ سیاسی مقاصد کو ایسی منزل کی طرف لے کر جا رہے ہیں، جہاں انتشار اور بدنظمی پھیلنے کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے اور حالت یہ ہے کہ پوائنٹ آف نو ریٹرن کا بورڈ سامنے نظر آ رہا ہے۔ جمہوریت، پارلیمانی آداب، سیاسی روایات، پارلیمان کی بالا دستی، قانونی کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی، انتظامی شفافیت، معاشی ترقی، بھوک، بے روزگاری کا خاتمہ اور اقتصادی بریک تھرو کے سارے قصے ایک درد انگیز سیاسی محاذ آرائی کی نذر ہو گئے۔ اب تو دونوں جانب سے سیاسی کشمکش اور ٹکرائو کے ایسے پینڈورا بکس کھل گئے ہیں، جس نے مختلف اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
یہ لڑائی میں جو میدانوں اور ایوانوں میں ایک ساتھ چل پڑی ہے، اس کشمکش میں اپوزیشن میں شامل تمام جماعتیں سینہ تان کر میدان میں آ گئی ہیں اور حکومت بغیر کسی وقفے کے گولہ باری جاری رکھے ہوئے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی اس لڑائی میں اصل ہنگامہ خیز پنجہ آزمائی میں دو نوں فریق نمایا ں ہیں۔ نوازشریف جواب "جو ہوگا دیکھا جائیگا" کے مصداق اپنے بیانئے پر آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔ گذشتہ برسوں میں وہ اقتدار کے دوران اور انتخابات کے جن مراحل اورچیلنجوں سے گزرے ہیں، اس کے بعد وہ کچھ عرصے کے لئے اپنے بھائی کی بات مانی اورانہیں فری ہینڈ دے دیا۔ اس دوران انہوں نے جو کامیابی حاصل کی کہ وہ علاج کی غرض سے اپنے بڑے بھائی کو لندن لے جانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کے بعد مریم نواز کو بھی باہر چلا جاناتھا لیکن پھر عمران کے حلقے میں اس پر مزاحمت ہوئی اور انہیں سفر کی اجازت نہ مل سکی۔ شہباز شریف کرونا کے ابتدائی دنوں میں اس امید پر وطن لوٹ آئے کہ وہ ملک میں موجود رہ کر تمام معاملات کوزیادہ بہتر طور پر نمٹا سکیں گے۔ لندن روانگی سے قبل نواز شریف نے ان سے کہا کہ پاکستان ان کے لئے واپس جانا اس وقت بے سود ہو گا اور بعد میں کم و بیش وہی ہوا۔ ان کے خلاف پے در پے مقدمات بن رہے ہیں ان کے بڑے صاحبزادے حمزہ شہباز کافی وقت سے پابند سلاسل ہیں۔ نواز شریف کے خلاف عمران خان نے دھرنا دیا، پانامہ لیکس آئیں اور عدالتی فیصلے کے نتیجے میں وہ اقتدار سے محروم ہو گئے۔ اسکے بعد پھر ایک عدالتی فیصلے نے انہیں انتخابی سیاست کے میدان سے بھی باہر نکال دیا۔ وہ یہ دیکھتے ہوئے کہ ان کے پاس آپشن ختم ہو رہے ہیں، وہ شاید آخری گیند پر چھکا مارنے کے لئے کریز سے باہر نکل آئے ہیں۔ شاید انکا خیال ہے کہ اگر اب بھی وہ کچھ ہلچل برپا نہ کر سکے تو شاید سیاسی طور پر ان کے لئے " دی اینڈ" ہو جائے گا۔ نواز شریف نے جو بیانیہ اختیار کیا، اس سے ملک میں ایسی لہریں پیدا ہو رہی ہیں اور ایسے سوالات ابھر رہے ہیں، جس میں سے ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ بڑے لوگ چھوٹی باتیں کیوں کر رہے ہیں۔
اس حوالے سے عمران کے گزرے دنوں کے بیانات اور کتابوں میں ان کے اقتباسات کا پوسٹ مارٹم ہورہا ہے، اتنا ذہنی انتشار برپا ہو رہا ہے کہ تاریخ کو پسینہ آ رہاہے۔ حزب مخالف سے پوچھنے کے لئے یہ سوال ضرور بنتا ہے کہ گذشتہ دہائیوں میں اس ملک میں مثالی نظام کیوں نہ لا سکیں، جس کی بات وہ آ ج کر رہی ہیں۔ دوسری طرف عمران خان ہیں، وہ عام پاکستانی بنیادی مسائل حل کرنے کے بجائے ہر مسئلہ، ہر ایشو اور ہر پریشانی کا ذمہ دار سابقہ حکومتوں کو ٹھہراتے ہوئے تھک نہیں رہے۔
ایسا لگتا ہے کہ حکومت صرف بیانات دیکر مطمئن ہے، وہ اپوزیشن پر الزامات لگا کر اور انہیں غداری کے سر ٹیفکیٹ بانٹ کر انجوائے کرنا چاہتی ہے اور وہ اپوزیشن کی ہر تقریر کو بھارت کے کھاتے میں ڈال رہی ہے۔ صبح، دوپہر، شام بیانات حکومت کے وزرااور مشیران بڑی خوبصورتی سے اپنا بوجھ دوسروں پر ڈال کر تالیاں بجا رہے ہیں۔ ایک فریق سینٹ کے الیکشن سے پہلے کچھ انہونی کرنے کی کوشش کرنا چاہتا ہے اور دوسرا فریق پینترے بدل بدل کر پاکستانیوں کو سہانے خواب دیکھا رہا ہے۔ دونوں فریق اپنے اپنے بیانئے پر مطمئن ہیں لیکن موجودہ صورت حال سے ملک کا نقصان ہو رہا ہے اور عوام مسائل کی چکی میں پستے چلے جا رہے ہیں۔ آپ مہنگائی غربت اور بے روزگاری کا حال دیکھ لیں، سال دو سال پہلے تک صرف غریب لوگ مہنگائی کا شکار تھے مگر آج مڈل کلاس یہاں تک کہ اشرافیہ بھی اس کا شکار بن چکی ہے۔ ملک اس طرح نہیں چلتے کہ آپ ہر معاملے کا ذمہ دار اپوزیشن اور مافیا کو ٹھہرا دیں، یہ لڑائی تو سسٹم کو ڈی ریل کر سکتی ہے۔ ملک آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کھسک رہا ہے، آخر اس کھیل کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ اس بحران سے کیسے نکلا جا سکتا ہے، جس میں ہم دھنستے جا رہے ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، غربت و افلاس کے ساتھ ساتھ، احتسابی عمل کی غیر جانبداری اور شفافیت پر سنجیدہ اور قابل غور سوالات اٹھ رہے ہیں۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر کا اسٹیٹس بدل ڈالا ہے اور دہشت گرد ی کی معاونت کرنے والے ملکوں کی گرے لسٹ سے باہر آنے کے لئے مطلوبہ حمایت کے حصول میں ہمیں اپنے دوست ممالک کے جس رویئے کا سامنا ہے وہ ایک الگ ایشو ہے۔ موجودہ صورت حال وطن عزیز کو جس طرف دھکیل رہی ہے، اس صورت حال کا مزید جاری رہنا کسی بڑے قومی سانحہ کا سبب بن سکتا ہے، جس کی تلافی شاید ممکن نہ ہو۔ اس لئے اس صورت حال سے نکلنے کا ایک بہتر راستہ یہی نظر آتا ہے کہ حکومت اور پوزیشن، پارلیمنٹ اور ریاست کے دوسرے تمام آئینی اداروں، کاروباری برادری اور میڈیا سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ایک گرینڈ ڈائیلاگ ہو، سب ایک میز پر بیٹھ کر مختلف شعبہ زندگی میں قومی ترجیحات کا تعین کریں۔ اس میں انتظامیہ، مقننہ سمیت تمام اداروں کے اختیارات، شرائط کار کی حد بندی، جمہوری نظام کی از سر نو صورت گری، سماجی حالات کے تحت جمہوری اقدار کے فروغ، آزادی اظہار کی حدود، خارجہ امور، دفاع، معیشت اور دوسرے شعبوں پر تفصیل سے گفتگو کی جائے اور قومی مشکلات سے نکلنے کے لئے راستے تعین کیا جائے۔ ایسا گرینڈ قومی ڈائیلاگ وقت کی ضرورت ہے، اس میں تساہل اور انا پرستی کو آڑے نہ آنے دیں کیونکہ یہ ملک ہے تو ہم سب ہیں۔ آیئے مہلت ختم ہونے سے پہلے سوچیں کہیں دیر نہ ہو جائے۔