Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Obama Ki Kitab

Obama Ki Kitab

ماضی میں نائب صدر جو بائنڈن نے بارک اوبامہ کو مشورہ دیا تھاکہ اسامہ بن لادن پر حملہ کرنے سے قبل ہمیں پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو ضرورت اعتماد میں لینا چاہیئے ورنہ ہمارا یہ اقدام پاکستان کی خود مختاری اور سا لمیت پر منفی اثرات مرتب کریگا اور اس سے پاکستان میں امریکہ کے لئے شدید منفی جذبات پیدا ہو سکتے ہیں، لیکن اپنی کتاب A Promissed Landمیں بارک اوبامہ لکھتے ہیں کہ ان کے لئے یہ بات حیران کن تھی کہ جب انہوں نے صدر آصف علی زرداری کو اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے حوالے سے بتایا تو انہوں نے امریکہ کے اس اقدام پر انہیں مبارکباد پیش کی جو ان کے لئے غیر متوقع تھی۔

امریکہ کی تاریخ میں مختلف امریکی صدور نے اپنی زندگی اور دورہ صدارت کے تجربات اور مشاہدات کا تذکرہ کرکے پیش آنے والے واقعات کے بے شمار پوشیدہ گوشوں اور رازوں پر سے پردہ اٹھایا ہے اور ان کی خود نوشت اور یاداشتوں کی مقبولیت نے ان پر ڈالرز کی بارش کر دی۔ ماضی کے صدور کی طرح امریکہ کے سابق صدر بارک اوبامہ کی یہ کتاب بھی17نومبر 2020کو مارکیٹ میں آئی۔ اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پہلے ہی دن اس کی نو لاکھ کاپیاں فروخت ہو گئیں اور اب تک یہ کتاب دنیا میں ایک کروڑ کی تعداد میں فروخت ہو چکی ہے۔ میں امریکی صدر بل کلنٹن کی کتاب My Lifeاور جارج ڈبلیو بش کی کتابdecision point کی اشاعت کی تعداد اور ان کی کتابوں سے حاصل والی آمدنی کا تذکرہ کرکے آپکو مزید حیران نہیں کرنا چاہتا مگر حقیقت یہ ہے کہ باراک اوبامہ کی اس کتاب کی صرف رائلٹی (6)چھ ارب روپے ملی ہے۔ امریکی صدور نے اپنی کتابوں اور یاداشتوں میں دلچسپ انکشاف کئے ہیں۔ آئزن ہاور نے لکھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ پرل ہاربر پر جاپانیوں کے خوفناک حملے کے بعد امریکہ کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہ گیا تھا کہ وہ جرمنی اور جاپان کے حوصلے توڑنے اور انہیں سرینڈر کرانے کے لئے ایٹم بم کا استعمال کرے۔ ہٹلر نے اپنی حکمت عملی میں پے درپے غلطیاں کیں اور خاص کر روس پر حملہ کرکے اس نے اپنی قوت کو اپنے ہاتھوں میں برباد کیا۔ جان ایف کینیڈی نے انکشاف کیا تھا کہ ایک ایسا موقع بھی آیا، جب امریکی سیٹلائیٹ راڈار نے یہ غلط اشارے دیئے کہ روس نے میزائلوں سے امریکہ پر حملہ کر دیا ہے۔

اس سے قبل کہ میں امریکی بین البر اعظمی میزائلوں کی کمانڈر کو جوابی کاروائی کا حکم دیتا، غلطی پکڑی گئی اور دنیا ایک تباہ کن جنگ سے محفوظ رہی۔ کینیڈی نے لکھا کہ میں نے اسرائیل کو ایٹم بم بنانے سے باز رہنے کی وارننگ اس لئے دی تھی کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ اس سے دنیا میں طاقت کا توازن بگڑ جائے گا۔ لنڈن بی جانسن نے اپنی مشاہداتی کتاب میں لکھا کہ پاکستانی بڑی جذباتی قوم ہے، یہ بڑی شدت سے محبت بھی کرتے ہیں اور نفرت بھی۔ ہم نے 1965میں پاکستان اور بھارت کے جنگ کو رکوانے میں کلیدی کردار ادا کیا کیونکہ دونوں ملکوں کی معیشت کسی طویل جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی اور ہمیں دونوں ملکوں کے وسائل کا ادراک تھا۔ رچرڈ نکسن نے لکھا تھا کہ1971میں سقوط ڈھاکہ کے بعد بھارت نے راجھستان کی سرحد سے پاکستان پر حملے کا پلان کیاتو میں نے روسی صدر کو ٹیلیفون پر بتا دیا تھا کہ وہ بھارتی وزیر اعظم اور اندرا گاندھی کو بتا دیں کہ Enough is Enough۔ اگر بھارت نے پاکستان کے مغربی حصے پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو اسے 72گھنٹے میں امریکی فوج کا سامنا کرناپڑیگا۔ نکسن لکھتے ہیں کہ میں نے امریکی( Air Bound Division)ائیر بونڈ ڈویژن کے کمانڈر ز کو بھارتی فوج سے نمٹنے کے لئے وہاں پہنچنے اور حکمت عملی بنانے کی ہدایت کر دی تھی اور اندرا گاندھی نے اپنی خود نوشت میں صدرنکسن کے اس دعوے کی صدیق کی ہے۔ امریکی صدور کی زندگی میں معاشقوں کی باز گشت بھی سنائی دی، جان ایف کینیڈی کی اداکارہ مارلین منرو سے دوستی اور بل کلنٹن کی مونیکا لیونسکی سے معاشقہ جس کی قیمت انہیں مواخذے کے ٹرائل کی صورت میں بھگتنی پڑی۔ امریکی صدور کی دو صدیوں سے ز یادہ عرصے پر پھیلی ہوئی یادیں اور باتیں تو نہ ختم ہونیوالی ہیں لیکن تازہ ترین سابق امریکی صدراوبامہ کی کتاب نے دھوم مچائی ہوئی ہے۔

بھارت کے متعلق انہوں نے بڑی دلچسپ باتیں کہی ہیں، جس پر بھارت میں تنقید کا ایک طوفان امڈ آیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ وزیر اعظم منموہن سنگھ نے مجھے بتا دیا تھا کہ بھارت میں مسلم دشمنی کی جذبات جس طرح بڑھ رہے ہیں، اس سے خدشہ ہے کہ بی جی پی کی مقبولیت میں بتدریج اضافہ ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت میں رواداری اور برداشت کا دائرہ سمٹ رہا ہے، تشدد کا عنصر بڑھ رہا ہے اور انٹرانیشنل ازم کو وسعت مل رہی ہے۔ بھارتی مسلمان پیچھے دھکیلے جا رہے ہیں، بھارتی اقتدارو سیاست کے ایوانوں میں ذات پات کی گرفت بدستور مضبوط ہو رہی ہے اور بھارتی سیاستدان پاکستان کے خلاف نعرے لگا کر اپنی قوم کو متحد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اوباما رقمطراز ہیں کہ سونیا گاندھی نے انہیں بتایا کہ انہوں نے منموہن سنگھ کو صرف اس لئے وزیر اعظم بنایا کہ ایسی شخصیت کو ملک کے سب سے با وقار اور طاقتور عہدے پر فائز کرنے سے ان کے اکلوتے بیٹے راہول گاندھی کی سیاست اور شخصیت کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ بھارت میں ظالمانہ حد تک دولت کی تقسیم غیر مساوی ہے۔ آج بھی کروڑوں بھارتی نان شبینہ کو ترستے ہیں اور مٹھی بھر دولتمند بھارتی ایسی شاندار اور مراعات یافتہ زندگیاں گرا رہے ہیں کہ ماضی قریب میں بڑے بڑے مہاراجہ بھی ایسی پر تعیش زندگی کا خواب نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ایک بھارتی وکیل نے اوباما کی کتاب کے خلاف اتر پردیش کی سب سے بڑی عدالت میں کیس کر دیا ہے کہ اوبامہ نے اپنی کتاب میں بھارت اور بھارتی سیاستدانوں کی توہین کی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکی صدر نے وہی باتیں کہیں ہیں جو ان کے مشاہدے میں آئیں اور انہوں نے کوئی لگی لپٹی بغیر من و عن اسے لکھ ڈالا۔ کہا جا سکتا ہے کہ بارک اوباما نے ہندوستان میں (بی جی پی) کی بھارتی مسلمانوں سے نفرت کو ظاہر کرکے دراصل اپنی رگوں میں دوڑنے والے مسلمان خون کا حق ادا کر دیا ہے۔