یادوں کا ایک ہجوم ہے، لوگوں کے دلوں میں تمہاری تصویر جلوہ افروز ہے۔ یہ سب کچھ کیا ہو گیا۔ تم کہاں چلے گئے۔ موت تو ہر کسی کو مات دے دیتی ہے۔ یہ رب ذوالجلال کا فیصلہ ہے۔ جسے کوئی ٹال نہیں سکتا۔
وہ قہقہوں کے طوفان تھا۔ اس کے بولنے سے چہرے دمکتے تھے۔ وہ آنسو چرا لیتا تھا۔ خوشیاں بکھیرنے والا تھا۔ اس کی باتیں کیا تھیں۔ ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑجاتے تھے۔ وہ آواز کہاں کھوگئی کتنے پروگرام اور حسین راتیں اور وہ یادیں جو سب کے دل پر نقش ہیں۔
تمہارا انداز کتنا پر کشش تھا۔ تمہاری آنکھیں بولتی تھیں، تمہارے لہجے کے تیور اور اتار چڑھاؤ کیا دلکش تصویر بنتی تھی، سب دم بخود رہ جاتے پھر کھکھلا کر ہنس پڑتے۔ مسکراہٹوں کی آب و تاب جس کے دم سے تھی۔ تم لوگوں کی عادت بن گئے تھے۔ ہاں۔ کیونکہ تم نے کامیڈی کے معیار کو اتنا بلند کر دیا تھا کہ کوئی اور جچتا ہی نہیں تھا۔
عمر شریف کو دیکھ کر لگتا تھا کہ کامیڈین زندگی کا مشاہدہ کتنی گہرائی سے کرتا ہے۔ جملے پھینکنے، جملے جوڑنے، الفاظ کی ترتیب کو با معنی بنانے کے لئے تتر بتر کرنے اور بے ساختہ جملوں کا تڑکا عمر شریف کا انوکھا کمال تھا۔ اسے بہت جلد اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کی بے ساختگی میں ایک کشش اور دلفریب رنگ ہے۔ اپنے انداز، روئیے، اچھوتے زاوئیے، انوکھے استعارے چٹکیاں بھرتے جملے سب نے عمر شریف کو منفرد بنادیا تھا۔
وہ جو کہتے تھے اس میں باقاعدہ اسکرپٹ نہیں ہو تا تھا۔ بس سننے والے کے لئے تجسس کی لگن اور تڑپ ضرور ہوتی تھی۔ بعض اوقات وہ اپنی بات میں ایک انوکھا چسکا ڈال کر اسے معاشرتی حقیقت نگاری سے ہم آہنگ کر دیتے تھے۔ وہ زندگی کو اپنے دلفریب انداز میں پورے سیا ق و سباق کے ساتھ پیش کرنے کا ملکہ رکھتے تھے۔ وہ اپنے الفاظ اور انداز سے اپنے دیکھنے والوں کے ذہنوں کو متحرک کر دیتے تھے۔
جس طرح ایک مصور اپنے برش اور رنگوں سے کائنات کو نئے انداز سے سنوارتا ہے۔ ا س طرح عمر شریف کے جملوں کا بانکین اور الفاظ کے تیکھے اور ذو معنی تیر ہر کسی کو محظوظ ہی نہیں لوٹ پوٹ کر دیتے تھے۔ یوں تو روئے زمین پر ہر انسان بے غم رہنے کا آرزو مند رہتا ہے عمر شریف جیسے فنکار اسے اپنی باتوں کی سحر میں گرفتار کر کے مسحور بھی کرتے ہیں اور مسرور بھی۔
مسکراہٹیں بکھیر تے عمر شریف اچانک ہی چلے گئے۔ مجھے یاد ہے کہ جب لاہور کا تھیٹر جو پہلے ایک ڈانسنگ تھیٹر سے زیادہ نہیں تھا۔ عمر شریف نے وہاں پہنچ کر اس تھیٹر میں ایک نئی روح پھونک دی۔ تھیٹر کو ایک نئی جہت، نئی امنگ اور نیا حوصلہ دیا۔ جب وہ اپنی صلاحتیوں کی جادوگری بکھیرکر واپس آئے تو وہ تھیٹر پھر کہیں گم ہو گیا۔ حقیقتاً یہ عمر تو جانے کی نہیں تھی جس میں عمر شریف چلا گیا۔
میں سوچتا ہوں کہ کامیڈی بھی کیا جادو ہے۔ چارلی چپلن کی کامیڈی ایک صدی پر محیط ہے۔ جنگ عظیم میں جہاں دنیا کے مختلف علاقوں میں لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ چارلی چپلن اس غم اداسی تباہی اور بربادی کے دور میں لوگوں کو مسکرانے پر اکسا رہا تھا۔ خوشیاں بانٹ رہا تھا۔ اسی طرح عمر شریف ایک طویل عرصے سے بجھے ہوئے دلوں کو جگارہا تھا، ہنسا رہا تھا ان کے آنسو چرا رہا تھا، وہ ایک تازہ ذہن بھر پور انرجی کے ساتھ لوگوں کو سوچنے کا دیکھنے کا اور قہقہے لگانے کا موقع فراہم کر رہا تھا۔ وہ جہاں جاتا مسکراہٹوں کا سیلاب آجاتا۔
ایک بار عمر شریف کی فرمائش پر ہم چند جرنلسٹ تھیٹر چلے گئے۔ مجھے پہلی بار احساس ہوا جس طرح ہم ایک آرام دہ بستر میں مزیدار میٹھی نیند کے مزے اٹھا سکتے ہیں اس طرح عمر شریف کا شو اس دکان کے مانند ہے جس سے ہم خوشیاں خرید کر لا سکتے ہیں۔ وہ لمحات ہوتے ہیں جب ہم سب کچھ بھول کر عمر شریف کا مزاح ہمارے لئے خوشیوں کا لبادہ بن جاتا ہے۔ ہم نے کیسے کیسے کامیڈین پیدا کئے کیسے کیسے فنکار دیکھے ہیں۔ منور ظریف، لہری، رنگیلا، معین اختر، امان اللہ جیسے عظیم فنکار ہر ایک کا اپنا رنگ تھا۔ عمر شریف اس قبیلے کا آخری مسافر تھا۔ اس کی شوخیوں کے سبب ہم شاید سب کو بھول گئے تھے۔
عمر شریف کی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے کسی اکیڈمی سے تربیت حاصل نہیں کی بلکہ وہ خود اکیڈمی کا درجہ رکھتے تھے۔ ان کی صلاحتیں ایک خود روپودے کی طرح تھی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ وہ فنکار نہیں تھے۔ وہ خود فن تھے۔ اپنی ذات میں وہ مزاح تھے۔ وہ مزاح کو ایجاد کر تے تھے۔ مسکراہٹیں بکھیرنے کے فن کے وہ کولمبس تھے۔ انہوں نے کیسٹس اور سی ڈیز کے ذریعے خو د کو دنیا بھر میں متعارف کر ایا۔ اور معین اختر کی طرح انہوں نے پاکستان کو ایک ایسے شائننگ، ٹیلنٹڈ ملک کے طور پر متعارف کرایا۔ جس نے ہر شعبے میں قابل فخر لوگ پیدا کئے۔
لگتا یہ ہے کہ آنے والے وقت میں شاید مزاح کا وہی انداز چلے گا جسے عمر شریف ترتیب دے گئے اسٹیج پر سجا گئے۔ وہ سچ مچ زندگی کو اپنے دلفریب انداز میں پورے سیاق و سباق کے ساتھ بیان کرنے کا ملکہ رکھتے تھے۔
کامیڈی چلتی رہے گی۔ کردار آتے رہیں گے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ عمر شریف کامیڈی میں ایک نیو کلئیس کا درجہ رکھتے تھے ان کے جانے سے سناٹا چھا گیا ہے۔ تھیٹر سنسان دکھائی دے رہا ہے۔ بد ترین حالات میں بہترین کامیڈی کرنے والے عمر شریف حقیقتاً کامیڈی کنگ تھے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ عمر شریف جیسے عظیم فنکار کے ساتھ اپنے رحم و کرم کا معاملہ فرمائے۔