انہیں یہ تو پتہ چل گیا تھا کہ مقدر میں رزق کا ذخیرہ ختم ہونے کو ہے۔ لیکن وہ بھی کیا زندہ دل شخص تھے۔ زندگی ان کے انگ انگ سے نشر ہوتی تھی ایک ایک لفظ سے جھلکتی تھی۔ وہ آخر وقت تک یہی کہتے رہے کہ موت سب سے بڑی حقیقت ہے لیکن زندگی اس سے بھی بڑی حقیقت ہے اور وہ لوگ بڑے بے وقوف ہوتے ہیں جو چمکتی دوپہر ہی سے رات کے اندیشے سے کانپتے رہتے ہیں یہ زندہ دل شخص مشاہد اللہ کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے یہ تو حقیقت ہے کہ اللہ کی اس دنیا میں ہر ایک نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ ہم نے بالآخر اپنی پیدائش کا مقصد پورا کر کے مٹی کا رزق بن جانا ہے۔ مشاہد اللہ کے ساتھ اتنی ڈھیروں یادیں جڑی ہوئی ہیں جو ان کی شخصیت کی آئینہ دار تھیں۔ شاعری اور طنزو مزاح ان کے مزاج کا عکا س تھا۔ دوستی کا یہ شیریں رشتہ تین دھائیوں پر مشتمل تھا۔ وہ پی آئی اے کی پیاسی کا گونج دار لیڈر ہو یا نواز شریف کا وفادار ساتھی۔ وہ ہر بات دلیل کے ساتھ، کرتے، اسلوب میں شائستگی رکھتے، جس بات کو درست سمجھتے مضبوط قدموں سے اس پر کھڑے ہو جاتے۔ اس کے مناظر میں نے خود کراچی کے ریگل چوک پر دیکھے تشدد زدہ چہرہ اور پھٹے ہوئے کپڑے لیکن مصالحت اور سرنڈر ان کی سرشت میں نہیں تھی۔ مشرف کے دور میں جیلوں کی ہوا بھی کھائی اور مصائب و مشکلات کا شکار رہے لیکن میں نے کبھی بھی ان کے چہرے پر مایوسی نہیں دیکھی۔
ایک دن ملاقات ہوئی، حالات نابہ گفتہ تھے نواز شریف ملک سے باہر جا چکے تھے۔ میں نے پوچھا فی الوقت کچھ مصالحت کا راستہ اختیار کر لیں، مشرف حکومت طویل عرصے تک نہیں جائے گی کچھ لو اور کچھ دو کا آپشن اپنا لیں۔ کہنے لگے تم نے مجھے کبھی مایوس دیکھا۔ تم نے کبھی سوچا میں اتنا خوش کیوں رہتا ہوں میر۔ ے اطمینان کے پیچھے کیا فارمولا ہے۔ کہنے لگے میری جان میں نے اپنے اندر زندگی کی خواہش کو مرنے نہیں دیا۔ اس کی ایسے حفاظت کی جیسے ماں اپنے پیٹ کے بچے کی کرتی ہے۔ چنانچہ بیماری کے باوجود تمہارے سامنے ہوں خوش ہوں، مسرور ہوں، قہقہے لگتا ہوں، لطیفے سنتا اور سناتا ہوں اور ہاں تمہیں ایک اور بات بتا دوں۔ اسے میرا تحفہ سمجھ کر سنو۔ جب تک انسان کے اندر زندہ رہنے کی خواہش زندہ رہتی ہے وہ مر نہیں سکتا۔ یہ میرا ایمان بھی ہے اور تجربہ بھی۔ مشاہد اللہ کے انتقال کی خبر ملی تو میں سوچنے لگا کہ ایسا زندہ اور پرعزم شخص کیسے مر سکتا ہے۔ انہوں نے بس ہجرت کی ہے اس شہر سے نکل کر دوسرے شہر چلے گئے ہیں۔
مشاہد اللہ جو کچھ کہتے تھے اسے وہ اپنے تئیں درست سمجھتے تھے اس لئے اپنی سادگی اپنی سچائی اور کھرے پن پر کبھی شرمندہ ہوتے نہیں دیکھا۔ وزیر بنے، اہم عہدوں پر فائز رہے، پارٹی کے لئے سب کچھ قربان کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہتے۔ پارٹی اور نواز شریف کے بااعتبار ساتھی اورسیاسی طور پر بڑے، بالغ النظر لیڈر تھے۔ لوگوں کے ساتھ ہمیشہ محبت اور اپنائیت سے ملتے۔
مشاہد اللہ سے پہلی ملاقات آج تک یاد ہے۔ ایئر پورٹ پر واقع پی آئی اے کے ہیڈ آفس میں وسیم باری کے کمرے میں ملاقات ہوئی۔ عالمی شہرت یافتہ وکٹ کیپر نے اپنے مخصوص انداز میں تعارف کراتے ہوئے کہا۔ یہ پی آئی اے کے لیڈر ہیں آپ اخبار والوں کے لئے ان کے پاس بڑی سنسنی خیز خبریں ہوتی ہیں۔ وہی ملاقات کا وقت طے ہوا اور ہم نے پہلے ہی انٹرویو میں جان لیا کہ راولپنڈی سے آنے والا دلچسپ گفتگو کرنے والا یہ شخص زندگی میں نجانے کہاں سے کہاں تک سفر کرے گا، ان کی پوری زندگی جدوجہد سے عبارت تھی۔ اسی لئے پہلی ملاقات میں ایک میٹھی مسکراہٹ ایک نیم گرم مصالحے اور بھاپ اڑاتے خوشبودار قہوے کے ایک پیالے پر میرے ذہن میں یہ بات ضرور سمائی تھی کہ بندہ دلچسپ ہے۔ اس کے ساتھ دوستی ہوسکتی ہے۔ پھر ان سے ملاقاتوں کا ایک سلسلہ چل نکلا۔ مشاہد اللہ ایک مجلسی انسان تھے۔ ایوان اقتدار میں رسائی کے باوجود ان کا طرز زندگی سادہ تھا۔ اگر میں کہوں کہ وہ ایئرکنڈیشن دفتر سے زیادہ تھڑے پر بیٹھ کر شگفتہ اور شیریں گفتگو کرتے تو غلط نہ ہو گا۔
اپنے آخری دنوں میں جب وہ کیمو تھراپی کے مرحلے سے گزر رہے تھے، ہسپتال میں فارغ اوقات میں وہ وی آئی پی روم سے نکل کر تھڑے پر بیٹھ کر سگریٹ کے مرغولے چھوڑتے اور وہاں موجود مالیوں، ڈرائیوروں اور سوئپروں کو اپنے مخصوص انداز میں لطیفے سنا رہے ہوتے۔ وہ اپنی زندگی کے اوراق پلٹتے اور کچھ بھی بتانے سے ہچکچاتے نہیں تھے۔ جب کبھی میں انہیں سگریٹ نہ پینے کی بات کرتا جھٹ کہتے۔ مرنا تو ویسے بھی ہے پھر اپنی حسرتیں کیوں نہ پوری کریں۔ داغ سے فیض اور میر سے پروین شاکر تک کے شعروں کا تڑکا ان کی گفتگو میں نمایاں رہتا۔۔ شعری ذوق اتنا کہ بات بات پر ایک سے ایک شعر حاضر رہتے۔ سینٹ میں ان کی شعری توپ کا دہانہ بھرپور انداز میں پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کو نشانے پر رکھتا۔ پھر انہوں نے وہ مرحلہ بھی دیکھا جب اس بیان پر کہ عمران خان کے دھرنے کو جنرل ظہیر الاسلام کی حمایت حاصل تھی، وزارت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ لیکن استعفیٰ پیش کرنے کے بعد میں نے کبھی ان کی زبان سے کوئی شکوہ کوئی گلہ اور ماتھے پر کوئی شکن نہیں دیکھی۔
نواز شریف کے ساتھ تھے اور آخری سانس تک ان کے ساتھ رہے۔ ایک ایسا زندہ دل اور خوش مزاج انسان اس دنیا سے ر خصت ہوا جو سسٹم میں تبدیلی کا خواہاں تھا۔ خواب دیکھنے والا شخص تھا۔ ایک فلاحی ریاست کے قیام کی لگن اور امنگ رکھتا تھا۔ اسلامی تشخص کا حامی تھی۔ اپنی بات پر ڈٹ جانے والا شخص، جس نے جو سچ سمجھا کہہ دیا۔ اب وہ دوستوں کی محفل کو اداس کر گیا۔ وہاں چلا گیا جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ لیکن کون ہے جو انہیں فراموش کرسکے گا۔ وہ چلے گئے۔ لیکن اپنی عادتیں اور باتیں چھوڑ گئے۔۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ایسے شاندار انسان اور خوشبودار یادیں بکھیر کر چلے جانے والے ہمارے بہترین دوست کے ساتھ اپنے رحم و کرم کا معاملہ فرمائے۔