Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Mansooba Sazon Ki Kaari Giri

Mansooba Sazon Ki Kaari Giri

ائیروائس مارشل محمد سلیم الدین نے 1963ء میں پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کی۔ یہ وہ دور تھا جب ازلی دشمن پاکستان پر قبضے کے ناپاک خواب دیکھنے میں مصروف تھا۔ محمد سلیم الدین کو ایف 16طیاروں کے سلسلے میں امریکامیں خصوصی ذمہ داریاں تفویض کی گئیں۔ پریسلر ترمیم کے بعد امریکا نے ایف 16طیارے فراہمی میں لیت ولعل سے کام لینا شروع کیا تو پاکستان نے چینی کمپنی CATIC کیساتھ مل کر جے ایف 17(جوائنٹ فائٹر)منصوبے پر کام شروع کردیا۔ ائیروائس مارشل محمد سلیم الدین کو 1985ء میں اس منصوبے کا ڈائریکٹر تعینات کیا گیا۔ 34سال ایئرفورس میں شاندار خدمات سرانجام دینے کے بعد ائیروائس مارشل محمد سلیم الدین 1997ء میں ریٹائر ہوگئے۔ ائیروائس مارشل محمد سلیم الدین کو وفاقی حکومت نے شاندار قومی خدمات پر نشان امتیاز ملٹری اور ہلال امتیارملٹری سے بھی نوازا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد نیب میں ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے اورقائمقام چیئرمین نیب بھی خدمات سرانجام دیں۔

ائیروائس مارشل محمد سلیم الدین نے 2010میں اسلام آباد میں پاکستان کی ممتاز ہاؤسنگ سوسائٹی میں زیر تعمیر پلازہ کے پرکشش اشتہارات سے متاثر ہوکر ایک دوکان خرید لی۔ یہ ہاوسنگ سوسائٹی چونکہ ریٹائرڈ فوجی افسران کیلئے انتہائی محفوظ اور فراڈ سے پاک تصور کی جاتی تھی لہٰذا اڑھائی سو سے زائد ریٹائرڈ فوجی افسران نے بھی اس کمرشل پلازہ میں دوکانیں خرید لیں تاکہ دوکانوں کے کرایہ سے اُنکا اور بچوں کا اچھا گزر بسر ہوتا رہے۔ ریٹائرڈ فوجی افسران کی اس منصوبے میں شمولیت کے بعد دیگر شہریوں نے بھی اس منصوبے کو محفوظ تصور کرتے ہوئے اپنی عمر بھر کی جمع پونجی دوکانوں کی خریداری میں جھونک دی۔ معاہدے کے مطابق 2012میں یہ دوکانیں مالکان کے حوالے ہونا تھیں۔ بدقسمتی کیساتھ ہاؤسنگ سوسائٹی نے کمرشل پلازہ کی تعمیر کیلئے ایک نجی کمپنی کیساتھ شراکت داری کی تھی۔ قانونی سُقم اور مبینہ طور پر اندرون خانہ ملی بھگت کے نتیجے میں اس منصوبے میں مسائل نے سر اٹھانا شروع کردیا۔ 11سال سے زائد عرصہ گزر چکا مگر ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے والے ائیر وائس مارشل محمد سلیم الدین اورجانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہداء کے اہل خانہ کودوکانیں نہیں مل سکیں۔ یہ داستان صرف ائیروائس مارشل محمد سلیم الدین اور مسلح افواج کے ریٹائرڈ افسران تک محدود نہیں بلکہ لاکھوں افراد پراپرٹی فراڈ میں اپنی عمر بھر کی پونجی سے ہاتھ دھو ئے بیٹھے ہیں۔

دوسری جانب سرکاری ملازمین اور افسران کیلئے اپارٹمنٹس تیار کرنے والے سرکاری اداروں کی کارکردگی پر بھی سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ شہر ِ اقتدار میں سرکاری ملازمین تودرکنار بلکہ تنخواہ پر قناعت کرنے والے افسران بھی اپنا گھر خریدنے سے قاصر ہیں۔ وزارت ہاؤسنگ کے ماتحت پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی اور فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ اتھارٹی مختلف منصوبوں کے ذریعے سرکاری ملازمین اور افسران کو چھت فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے۔ ملازمین اور افسران برسوں سے ادائیگی کرچکے مگر متعلقہ منصوبے مکمل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ آئی 16اور جی 13میں شروع کئے گئے اپارٹمنٹس منصوبے برسوں سے تاخیر کا شکار ہیں۔ ان منصوبوں پر کام کی رفتار انتہائی سُست روی کا شکار ہے۔ ناقص منصوبہ بندی کے باعث فنڈز کی قلت پیدا ہوچکی مگر ملازمین دن رات اپنی چھت کے لئے ترس رہے ہیں۔ بعض ملازمین تو اپنی چھت کا خواب دیکھتے دیکھتے دارفانی سے ہی کوچ کرگئے۔ وزیراعظم عمران خان نے پراپرٹی کے شعبے میں فراڈ اور تنازعات سے بچنے کیلئے ڈیڑھ سال قبل کابینہ سے ایک اتھارٹی کے قیام کا بل منظور کروایا تھا مگر یہ بل آج تک قانون کی شکل اختیار نہیں کرسکا۔ وزیراعظم درجنوں بلوں کی منظوری کیساتھ تھوڑی توجہ اس جانب مبذول کرلیں تو نہ صرف مذکورہ بل بھی پارلیمنٹ سے منظورہو کر قانو ن بن جائے گا بلکہ پراپرٹی کے شعبے میں فراڈکا سلسلہ قریباً ختم ہوجائے گا۔ 50لاکھ گھروں کی تعمیر کا وعدہ تو پورا نہیں ہوسکا مگر پراپرٹی فراڈ کا خاتمہ گھروں سے محروم افراد کے زخموں پر مرہم ضرور رکھ دے گا۔ بد انتظامی کی بیخ کُنی، ہزاروں سرکاری ملازمین کا اپنی چھت کا خواب پورا کرسکتی ہے۔

وزیراعظم عمران خا ن نے بااثر شخصیات کو قرض معاف کرنے کی ہمیشہ سخت مخالفت کی۔ 18جون کو کابینہ کے سامنے انکشاف کیا گیا کہ پاکستان تحریک انصاف کے دورِحکومت میں زرعی ترقیاتی بنک سمیت چار بینکوں کی جانب سے بااثرشخصیات اور کمپنیوں کو 1ارب 24کروڑ روپے معاف کردئیے گئے ہیں۔ سرکاری بینک کی جانب سے بعض افراد اور کمپنیوں کو نوازنے کیلئے خلاف ضابطہ قرض معاف کئے گئے۔ سٹیٹ بینک نے سرکاری بینک کو ایکشن لینے کی ہدایت کی مگر تاحال کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ سرکاری بینک نے 28کیسز میں 27کروڑ روپے جبکہ تین نجی بینکوں نے 97کروڑ روپے معاف کئے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی انسپکشن رپورٹ میں زرعی ترقیاتی بینک کی جانب سے 25کروڑ 43لاکھ روپے دو شخصیات کو خلاف ضابطہ معاف کرنے کی نشاندہی بھی کی گئی تھی تاہم وزارت خزانہ نے کابینہ میں پیش کردہ سمری میں مالی فائدہ حاصل کرنے والوں کے نام درج نہیں کئے تھے۔ کابینہ ارکان نے وزارت خزانہ کی جانب سے نامکمل تفصیلات کابینہ میں پیش کرنے پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے مالی فائدہ حاصل کرنے والی شخصیات کے نام پیش کرنے کی ہدایت کردی ہے مگر اطلاع یہ ہے تین ہفتے گزرنے کے باوجود وزارت خزانہ نے مالی فائدہ حاصل کرنے والی شخصیات کے نام کابینہ کے سامنے پیش نہیں کئے۔ وزارت خزانہ اور زرعی ترقیاتی بینک کے افسران کے پر جلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ امید ہے کہ وزیراعظم اور انکی کابینہ ارکان قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کے نام نہ صرف منظر عام پر لائے گے بلکہ قرض کی رقم وصول کرکے قومی خزانے میں جمع اور ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی کرکے بلاامتیاز احتساب کے دم توڑتے نعرے کو زندہ کریں گے۔