کورونا کی انسانی زندگیوں اور معیشت پر تباہ کاریاں سمٹنے کیساتھ معیشت کا پہیہ بتدریج چلنا شروع ہوگیا ہے۔ ہرملک اور کمپنی خسارے سے نکلنے اور آگے بڑھنے کیلئے نئی حکمت عملی تیار کرنے میں مشغو ل ہے۔ ایسے حالات میں وطن عزیز کودرپیش عالمی اور ملکی سطح پر موجود سنگین مسائل نے پھر سے سراٹھانا شروع کردیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے دعوؤں کی روشنی میں قوم نے بہت سی توقعات وابستہ کررکھی تھیں مگر وزیراعظم نے حالیہ انٹرویوکے دوران ناتجربہ کاری اور سیکھنے کے عمل کا بیان دے کر عوام کو اضطراب سے دوچار کردیا ہے۔ رہی سہی کسر وسیم اکرم پلس وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے حالیہ دورہ اسلام آباد کے دوران پوری ہوگئی جب انہوں نے اعتراف اور انکشاف کیاکہ ہم ابھی سیکھنے کے عمل سے گزر رہے ہیں، بیوروکریسی کو واضح ہدایات دے چکا ہوں کہ میرے پاس کوئی فائل نہیں آنی چاہیئے۔ ایسی صورتحال کے دوران مسائل اور چیلنجز سے نمٹنے کا ہمالیہ کیسے سرہوگا؟
وزارت خزانہ کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو ایک اور ہوش اڑا دینے والی رپورٹ پیش کی ہے جس کے مطابق گزشتہ تین سال کے دوران قومی خزانے پر پینشن کا بوجھ 146ارب روپے سے اضافے سے 448ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ رواں مالی سال کے دوران پینشن ادائیگی کی رقم 22ارب روپے مزید اضافے سے 470ارب روپے تک پہنچ جائے گی۔ قومی خزانہ پینشنرز کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہے۔ ہر سال پینشن فنڈ کی رقم اور پینشنرز کی تعداد میں اضافے، ـپینشن فنڈ میں عدم تعاونـ، پینشن فنڈ میں مختلف الاؤنسز کی شمولیت، خودمختار اداروں کی جانب سے پینشن کی ادائیگی، ـپینشن کی فراہمی اور فیملی پینشن کے مسائل کے باعث پینشن فنڈ غیر پائیدار ہو چکا ہے۔ موجودہ سول پنشنر کی کل تعداد 3لاکھ53ہزار393ہے جن میں ڈائریکٹ کریڈٹ سسٹم( ڈی سی ایس)2لاکھ48ہزار 933جبکہ نان ڈی سی ایس1لاکھ4ہزار194ہیں۔ موجودہ عسکری پینشنرز کی کل تعداد 14لاکھ52ہزار717ہے، جن میں ڈی سی ایس 2لاکھ52ہزار 118جبکہ نان ڈی سی ایس 12لاکھ3ہزار130ہیں۔ ڈائریکٹ کریڈ ٹ سسٹم کے ذریعے پیینشنرز کے بنک اکاؤنٹ میں براہ راست رقم منتقل کی جاتی ہے جبکہ نان ڈائریکٹ سسٹم کے ذریعے پینشن بک بینک میں دکھا کر رقم وصول کی جاتی ہے۔
نان ڈی سی ایس سسٹم میں پینشنرز کو بھاری نقصان اٹھانا پڑرہا ہے جس کی آنے والے دنوں میں تحقیقات کا امکان ہے۔ پینشن کے بڑھتے بوجھ سے نمٹنے کیلئے اپریل2020میں پے اینڈ پینشن کمیشن قائم کیا گیا۔ جسے تجاویز جمع کرانے کیلئے6ماہ کا وقت دیا گیا۔ کمیشن کے شرائط و ضوابط میں پینشن کے متبادل ذرائع کی تشخیص اور پینشن فنڈ قائم کرنا شامل تھا۔ کمیشن کے چیئرمین کے مستعفی ہونے اور کورونا وبا کے باعث عمل سست روی کا شکار ہوا۔ فنانس ڈویژن کی جانب سے عالمی بینک سے پلان کی کلیئرنس کے بعد تکنیکی معاونت کی درخواست کی گئی۔ فنانس ڈویژن کی جانب سے پلاننگ کمیشن کی کنسیپٹ کلیئرنس کمیٹی کو کنسیپٹ پیپر ارسال کیا گیا، جسے کمیٹی کی جانب سے منظور کر لیا گیا۔ عالمی بینک سے مالی اور غیر مالی تکنیکی معاونت کی فراہمی کیلئے جولائی2020میں درخواست کی گئی۔ فنانس ڈویژن کی جانب سے ریگولیٹری فریم ورک، ڈیزائن، حصے کی شرح، مستفید ہونے والی عمر اور فنڈ میں سرمایہ کاری پر مشتمل پی سی 1تیار کیا جائے گا۔ فنانس ڈویژن کی جانب سے سرمایہ کاری کے مواقع کی تلاش اور منافع کیلئے فنڈ مارکیٹ، ریگولیٹری اداروں کے فریم ورک اور ڈھانچے، فیصلوں کو شامل کرنے اور نکالنے، مختلف اداروں کے ملازمین کیلئے ضروری اصول و ضوابط کا جائزہ لیا جائے گا۔ وزارت خزانہ نے مختلف اداروں کی جانب سے پینشن فنڈ کی رقم میں غیر قانونی طور پر اضافے کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے اداروں کے فرانزک آڈٹ کی تجویز دی۔ وزیر اعظم نے مشیر خزانہ کوآئندہ ہفتے کابینہ اجلاس میں ٹائم لائن کے ساتھ اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے جامع سفارشات پیش کرنے کی ہدایت کردی ہے۔
افسر شاہی کا ایک اور کارنامہ بھی پڑھ لیجئے۔ وزیراعظم عمران خان کے نوٹس کے نتیجے میں سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن ڈاکٹر اعجاز منیر نے اگست 2016کے بعد وفاقی وزارتوں، اداروں اور سرکاری کمپنیوں میں تعیناتیوں سے متعلق انکوائری رپورٹ جمع کروادی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 799افسران کو خلاف ضابطہ تعینات کیا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے دورحکومت میں بھی 93افسران خلاف ضابطہ تعینات کئے گئے۔ 50افسران بدستور خلاف ضابطہ اعلیٰ عہدوں پر موجود ہیں۔ وزیراعظم اور وفاقی کابینہ کی ہدایت کے باوجود پاور ڈویژن اور وزارت ہاوسنگ نے انکوائری کمیٹی کو تمام تر کوششوں کے باوجود ریکارڈ فراہم نہیں کیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے مطابق 18اگست 2016کے بعد تعیناتیوں کی وفاقی کابینہ سے منظوری لازم تھی مگر افسرشاہی اور وزراء نے من پسند تعیناتیوں کیلئے وفاقی کابینہ کو خاطر میں نہ لایا۔ بیوروکریسی اور چند وزراء کی جانب سے عدم تعاون اور غلط بیانی سے بھی کام لیا گیا مگر وزیراعظم کابینہ ارکان کی برہمی کے باعث تین رکنی انکوائری کمیٹی نے حتمی رپورٹ تیار کی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے 18اگست 2016کومصطفی امپیکس کیس کے فیصلے میں ہدایت دی گئی کہ وفاقی حکومت سے مراد وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ ہیں۔ بیوروکریسی نے خلاف ضابطہ تعینات ہونیوالے افسران اور تعیناتیوں کے ذمہ داران کو انضباطی کارروائی سے بچانے کیلئے تمام تعیناتیوں کی پرانی تاریخوں میں توثیق کرکے معاملہ نمٹانے کیلئے سات سفارشات تیار کیں ہیں۔ ذمہ داران کیخلاف کارروائی ہوگی یا کلین چٹ، فیصلہ وزیراعظم آئندہ ہفتے کریں گے۔
"ناتجربہ کاری سے تجربہ کاری تک" کے سفرمیں محو حکومتی ٹیم ہمالیہ جیسے چیلنجزاور مسائل سے آخر کب نمٹے گی۔ نوٹس، انکوائری اور پھر مٹی پاؤ پالیسی نے مہنگائی اور عوام کے دکھوں میں اضافہ کیا ہے۔ دوبرس میں بھی سیکھ رہے ہیں، ـاگر باقی تین برس بھی یہی سلسلہ جاری رہا تو انتخابی وعدوں کا کیا ہوگا؟ چلو مٹی پاؤ!مگردوبرس کے دوران جو کچھ سیکھا، اس کے ثمرات عوام کو کب ملیں گے؟