سرکاری اداروں، کمپنیوں اور کارپوریشنز کی بدترین کارکردگی پر وزیراعظم پریشان ہی نہیں، صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا۔ وزراء اور بیوروکریسی کو فائنل وارننگ جاری ہوچکی۔ جو وزیراعظم کے ایجنڈے کے روشنی میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ اور عوامی توقعات پر پورا اترے گا، وہی وزارت میں رہ سکے گا۔ ناقص کارکردگی کا مزید بوجھ قومی خزانہ اٹھانے کا متحمل نہیں۔ مختلف شعبوں میں کھربوں روپے کا خسارہ ہمالیہ سے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ آئندہ 6ماہ کے دوران ڈو آرڈائی، کی بنیاد پر کام ہوگا۔ وزیر، مشیراور معاون خصوصی سمیت کسی کیساتھ رعایت نہیں برتی جائے گی۔ پالیسی سازی اور اصلاحات کی ذمہ داری اٹھائے حکومتی شخصیت کیساتھ گزشتہ ڈیڑھ برس میں یہ آٹھویں نشست تھی۔ انکے لب ولہجے میں ایسا تفکر پہلے نہیں دیکھا۔
حکومت آنے والے دنوں میں بڑے فیصلے کرنے جارہی ہے، نیویارک میں پی آئی اے کے ہوٹل کی تقدیر کا فیصلہ بھی ہونا ہے۔ حکومت نے اربوں روپے مالیت کے روز ویلٹ ہوٹل کی نجکاری کا منصوبہ تو منسوخ کردیا ہے مگر ہوٹل پر نظریں جمائے نجی کمپنی کی شراکت داری کی راہ تیزی سے ہموار کی جارہی ہے۔ سرکاری دستاویزکے مطابق پی آئی اے کے اثاثوں کی نجکاری کے معاملے پروزیر نجکاری کی زیرصدارت ٹاسک فورس کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ لیزنگ کے حوالے سے شرائط وضوابط طے کرنے کیلئے مالی وقانونی مشیروں کو بھی ٹاسک فورس میں شامل کیا گیا۔ وفاقی وزیر ایوی ایشن ڈویژن غلام سرور خان نے اعتراض اٹھادیا ہے کہ کابینہ کی نجکاری کمیٹی اجلاس میں ہوٹل کی لیزنگ سے متعلق مشاورت نہیں کی گئی۔ نجکاری کمیٹی ارکان کو بتایا گیا ہے کہ روز ویلٹ کے حوالے سے تینوں آپشن، ہوٹل برقرار رکھنے، مارکیٹ میں فروخت کرنے اور مشترکہ منصوبے کے تحت چلانے کیلئے لیزنگ پر دینے کیلئے مالی مشیر کی تقرری کی جائے گی تاکہ تینوں آپشنز کو مدنظر رکھ کر سفارشات پیش کی جا سکیں۔ ایم ایس ڈیلوائٹ کی جانب سے پی آئی اے کے شرائط و ضوابط کے مطابق سٹڈی مکمل کر کے ارسال کی گئی۔ کمیٹی ارکان کا مؤقف ہے کہ ڈیلوائٹ کی سٹڈی کی بنیاد پرنجکاری کمیشن کام کا آغاز کرے۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی ندیم بابر نے اس اجلاس میں مؤقف اختیار کیا کہ یہ نجکاری نہیں بلکہ تجارتی فیصلہ ہے، پی آئی اے کا بورڈ آف ڈائریکٹرزخود اس حوالے سے فیصلہ کرے۔ کمیٹی کی جانب سے نجکاری کمیشن کو مالی مشیر ڈیلوائٹ سے 4ہفتے کے اندر سٹڈی مکمل کرا کر کابینہ کی نجکاری کمیٹی کے سامنے پیش کرنے اور نجکاری کمیشن کومشترکہ منصوبے کیلئے روزویلٹ ہوٹل کی لیزنگ کیلئے مالی مشیر کی بھرتی کا مرحلہ شروع کرنے کی ہدایت بھی کردی گئی ہے۔ روز ویلٹ ہوٹل پر نظریں جمائے ایک اہم شخصیت چند روز قبل امریکاسے اسلام آباد پہنچ چکی ہے تاکہ اس عمل کے دوران نعرہ حق بلند کرنے والے وفاقی وزیر سمیت کوئی بھی اس منصوبے کی مخالفت کرے تو اسے بروقت قائل کیا جاسکے۔ روزویلٹ ہوٹل میں نجی کمپنی کی شراکت داری کی راہ ہموار کرنے کے لیے حکومت نے آرڈیننس لانے کا فیصلہ کیا ہے جس کی سمری صدرمملکت کو ارسال کردی گئی ہے۔ وفاقی حکومت اگست میں روز ویلٹ ہوٹل میں نجی کمپنی کی شراکت داری کی حتمی منظوری دینے کی خواہاں ہے۔
عوامی مفاد اور حکومتی رویوں کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔ سی ڈی اے کے سیکٹر ایف 17میں مقامی آبادی کی جانب سے ریلوے کراسنگ پوائنٹ کی تعمیر کیلئے تمام قواعد وضوابط کو پورا کرتے ہوئے 2کروڑ روپے سے زائدرقم ادا کی گئی۔ یہی نہیں بلکہ ریلوے کراسنگ پوائنٹ کو آپریٹ کرنے کیلئے ریلوے ملازمین کی 5سال کی تنخواہوں کی مد میں 60لاکھ روپے بھی دوسال قبل پیشگی جمع کروائے گئے۔ عوام کے پیسوں سے ریلوے کراسنگ پوائنٹ کی تعمیربھی دوسال قبل مکمل ہوچکی مگر ریلوے ڈیپارٹمنٹ نے ناقابل بیان وجوہات، کی بنیاد پر کراسنگ پوائنٹ کھولنے سے انکار کردیا۔ انقلابی اقدامات کے لئے کوشاں وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید تک متاثرین نے آواز پہنچائی مگر داد رسی نہ ہو سکی۔ متاثرین نے وفاقی محتسب کا دروازہ کھٹکھٹایاتو وفاقی محتسب نے سماعت اورتمام دستاویز کا جائزہ لینے کے بعد ریلوے کو فوری طور پر کراسنگ پوائنٹ کھولنے کا حکم صادر کیا۔ مگر وزیر صاحب اور افسر شاہی پھر نہ مانی۔ وزارت ریلوے نے وفاقی محتسب کے فیصلے کے خلاف صدرمملکت عارف علوی کے پاس اپیل دائر کردی تاکہ عوام کو ریلوے کراسنگ کی سہولت نہ مل سکے۔ اس سارے معاملے میں محکمہ ریلوے کا ایک افسر مذموم مقاصد کیلئے رکاوٹیں ڈالنے میں پیش پیش رہا۔ صدرمملکت نے بھی سماعت کے بعد وفاقی محتسب کا فیصلہ برقرار رکھا اور، ریلوے کو فوری طور پر کراسنگ پوائنٹ کھولنے کا حکم دیا۔ متاثرین کودوبرس کی جدوجہد کے بعد امید ملی کہ صدرمملکت کے فیصلے کو ایک حکومتی وزیر اور اسکا ادارہ کسی صورت رد نہیں کرسکے گا۔ قانون کے مطابق صدر مملکت کے فیصلے پرایک ماہ کے اندر عملدرآمد لازم ہے مگر حیران کن طور پر ریلوے نے صدرمملکت کے فیصلے کوبھی تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ 15جولائی کو ایک ماہ پورا ہوگیا۔ وزارت ریلوے عوامی مفاد کے منافی اب اسلام آباد ہائیکورٹ میں کیس لڑے گی۔
ریلوے کے انتظامی مافیا نے وزیر موصوف کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر من پسند فیصلہ تو کروالیا مگر ریلوے کی عزت داؤ پر لگاد ی ہے۔ جہاں ہزاروں افراد نے ریلوے لائن کراس کرنی ہے وہاں دوسال سے مقامی افراد کی رقم سے تعمیرشدہ کراسنگ پوائنٹ کھولنے کی اجازت نہیں مگر محکمہ ریلوے کی پھرتیاں دیکھئے۔ ایف 17سے پانچ کلومیٹر دور پنجاب حکومت سے 85لاکھ روپے کے فنڈز لے کر راتوں رات کراسنگ پوائنٹ تعمیرکردیا ہے جبکہ بے بس عوام سے سوادوکروڑ روپے وصول کرکے تعمیر کیا گیا کراسنگ پوائنٹ کھولنے پر ریلوے کے افسران تیار نہیں۔ پنجاب حکومت کے خزانے سے 85لاکھ روپے کا اجراء اور کراسنگ پوائنٹ کی تعمیر کیوں نہ ہوتی؟ کراسنگ پوائنٹ کی دوسری جانب ایک وزیر صاحب کا فارم ہاؤس ہے، بے بس ولاچارعوام کے گھر نہیں۔ سرکاری اداروں میں کھربوں روپے خسارے کا خاتمہ، عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل اور تبدیلی کے نعرہ کو یقینی طور پر حقیقت کا روپ دھارنا چاہئے مگر ڈوآر ڈائی کی صورتحال میں قومی وعوامی مفادکو کچلنے والوں کی خبر لئے بغیر شاید یہ سب کچھ ممکن نہ ہو۔