ڈاکٹر عشرت حسین نے 2006سے پاکستان کی بیوروکریسی سدھارنے کاعمل شروع کیاتھا۔ حکومت وقت اور غیرملکی مالیاتی اداروں کی سپورٹ کے باوجود ان کی کاوش حقیقت کا روپ نہ دھار سکی۔ مافیا کی سرکوبی اور وفاقی حکومت میں اصلاحاتی انقلاب کیلئے کوشاں وزیراعظم عمران خان نے ڈاکٹرعشرت حسین کو مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات تعینات کرکے 2006میں اُدھورے رہ جانے والے ٹاسک کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی ذمہ داری سونپ دی۔ ڈاکٹر عشرت حسین نے اس مرتبہ رپورٹ برائے رپور ٹ کے بجائے سرپرائز دینے کا فیصلہ کیا۔ سول بیوروکریسی میں متعارف کروائی گئی انکی حالیہ اصلاحات کی بدولت دو درجن کے لگ بھگ تگڑے بیوروکریٹس آئندہ چند ہفتوں میں سرکاری عشرت کدوں سے محروم ہونیوالے ہیں۔ سول بیوروکریسی میں اصلاحات کیساتھ وفاقی کابینہ نے جولائی 2019 میں وفاقی حکومت کی ری سٹرکچرنگ کا ٹاسک بھی ڈاکٹر عشرت حسین کو سونپ دیا، جس کا بنیادی مقصد قومی خزانے کو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں، پنشن اور دیگر مراعات کے باعث ناقابل برداشت بوجھ سے نکالنا تھا۔ اس ہدف کے حصول کیلئے خطرناک نسخے کا انتخاب کیا گیا۔
ڈاکٹر عشرت حسین نے اعلیٰ سطح اجلاس کے دوران انکشاف کیا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے اصلاحاتی عمل کے نتیجے میں دوبرس کے دوران سرکاری اداروں میں 26ہزار سے زائد آسامیاں مستقل طورپرختم کردی گئیں ہیں جبکہ ایک سال سے خالی 71ہزار آسامیاں ختم کرنے کی منظوری درکار ہے۔ 26ہزار641آسامیاں ختم کرنے سے 4ارب روپے کی بچت ہوئی جبکہ 71ہزار آسامیاں مزید ختم کرنے سے28ارب روپے سالانہ کی بچت ہوسکے گی۔ سویلین آرمڈ فورسز کے سٹرکچر اور تعداد پر نظرثانی کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا ہے۔ سال 2019-20 کے اعداد و شمار کے مطابق وفاقی حکومت میں ملازمین کی تعداد 5 لاکھ 65 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ان میں سے 13 ہزار ملازمین سیکرٹریٹس، 8 ہزار ملازمین آئینی اداروں اور5 لاکھ 44 ہزار ملحق ڈیپارٹمنٹس سے منسلک ہیں۔ اس کے علاوہ 3 لاکھ 90 ہزار کے قریب ملازمین خودمختار، نیم خودمختار اداروں اور کارپویشن سے بھی منسلک ہیں۔ کل ملا کر سویلین ملازمین کی تعداد قریبا ً9 لاکھ 55 ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے۔ وفاقی حکومت کے 95فی صد ملازمین گریڈ 1 تا 16کی اسامیوں پر تعینات ہیں۔ افسران اور اسٹاف کا تناسب حیران کن ہے، یعنی ایک افسرکیلئے 20افراد پر مشتمل سٹاف موجود ہے۔
ڈاکٹر عشرت حسین نے کابینہ ارکان کو قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی 71ہزار آسامیاں مزید ختم کرنا ناگزیر ہوچکاہے۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وفاقی بیوروکریسی کیلئے سال 2010 میں 175ارب روپے کا بجٹ مختص تھا جوصرف 10برس میں 500 ارب روپے سے تجاوز کر گیاہے اس حقیقت کے باوجود 18 ویں ترمیم کے بعد زیادہ تر شعبہ جات صوبوں کو منتقل ہو چکے ہیں۔ سرکاری افسران اورملازمین کی بھرمار ہونے کے باوجود مختلف شعبوں میں انحطاط کا عمل جاری ہے۔ وفاقی وزراء نے ڈاکٹر عشرت حسین کی تجویز کی سخت مخالفت کرتے ہوئے موقف اختیار کیا، عوام مہنگائی کے باعث پہلے ہی وفاقی حکومت سے خائف ہیں۔ ارکان پارلیمنٹ کے حلقوں میں عوام امید لگائے بیٹھے ہیں حکومت انہیں نوکریاں فراہم کرے گی۔ حکومت کے چوتھے سال کے دوران اگر71ہزار نوکریاں عوام کو فراہم کردی گئیں تو آئندہ الیکشن میں حکومت کو بہت ثمرات ملیں گے۔ وزیر اعظم اس سے قبل ڈاکٹر عشرت حسین کی تجویز سے بھرپورمتفق تھے کہ قومی خزانے پر بوجھ کم کرنے کیلئے 71ہزار آسامیاں مستقل طور پر ختم کر دی جائیں کیونکہ ان آسامیوں سے ملکی معیشت اور حکومتی کارکردگی میں کچھ بہتری نہیں آئے گی۔ تاہم وزیراعظم نے اصلاحاتی ایجنڈے کے بڑے ہدف کا حصول ترک کرنے پر یوٹرن لیتے ہوئے 71ہزار آسامیاں ختم نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ بقول شخصے اصولوں کی خیرہے لیکن ووٹ ضائع نہیں ہونے چاہئیں۔ آسامیوں پر بھرتیوں سے قومی خزانے پر سالانہ 28ارب روپے کابوجھ پڑے گا مگر جنہیں نوکریاں ملیں گی وہ حکومت کے برسوں گُن گائیں گے۔
اصول پسندی کی ایک اورمثال کے لیے قابل صد احترام پروفیسر ڈاکٹررزاق شاہد صاحب کا پیغام پڑھ لیجئے۔" 52ایکڑ سے شروع ہونے والاایمرسن کالج ملتان صرف11ایکڑ تک محدود ہو چکا ہے۔ بچا کھچا کالج بھی حکمرانوں کو ہضم نہیں ہو رہا۔ 2020میں جب کالج اپنے سو سال مکمل کر رہا تھا تو اسے یونیورسٹی کانام دے کر قربانی کا بکرا بنا دیا گیا۔ بہتر ہوتا اگر کالج کوڈگری ایوارڈنگ سٹیٹس، دیا جاتاتا کہ بچے ایمرسن کالج کی ڈگری وصول کرتے ہوئے فخر کرتے۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار جو اسی کالج سے فارغ التحصیل ہیں، کالج کو یونیورسٹی بنا کر کوئی احسان کیا یا نہیں مگر اساتذہ طلباء اور والدین سے نہ جانے کس بات کا بدلا لیا ہے؟ کوئی ان عقل کے اندھو ں سے پوچھے کہ سوزوکی پر بیڈ فورڈ کی باڈی رکھ کر اُسے ٹرک کہنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ صرف بورڈ بدلنے سے کیا کالج کا انفراسٹرکچریونیورسٹی بن سکتا ہے؟ دیگرفنانشل مسائل اپنی جگہ، طلباانٹر کی تعلیم چند ہزار میں حاصل کرتے تھے وہ کم از کم دس گنا مہنگی ہو جائے گی، طلبا اور اساتذہ سراپا احتجاج ہیں۔ سابق ادوار میں بھی متعدد کالجز کے بورڈ اُتار کرجی سی یونیورسٹی کے بورڈ آویزاں کیے گئے۔ ابھی چند سال پہلے خواتین کالج ملتان کویکسر ختم کر کے خواتین یونیورسٹی بنا دیا گیا۔ اب یہی ظلم ایمرسن کالج کے ساتھ ہوا۔ جتنا لوڈ ان دو کالجز نے اُٹھا رکھا تھا وہ دس ادارے بھی مل کر نہیں اُٹھا سکتے۔