اُس نے مطالبہ مانتے ہوئے اگر واقعی استعفیٰ دے دیا تو ایک نیا بحران پیدا ہو جائے گا۔ پورے 70سال کی تاریخ میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو مطالبہ مان کر یا غلطی تسلیم کر کے مستعفی ہوا ہو اس لئے وہ استعفیٰ دے کر اور بھی بڑا کلغی دار بن جائے گا۔ اس کے حامی اس کی اصول پسندی پر تالیاں بجائیں گے اور ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کریں گے کہ وہ تو ملک کی قسمت بدلنے والا تھا، مولانا نے اسے یہ موقع نہیں دیا۔ اس کے عقیدت مندکہیں گے معاشی اشاریے بہتری دکھا رہے تھے، صدیوں کی کرپشن ختم ہونے والی تھی مگر اسے چلنے نہیں دیا گیا، یوں ملک نے سنہری موقع ضائع کر دیا۔ یوتھ کہے گی کہ وہ تو نئی اسکیمیں لا رہا تھا، پرانا نظام توڑ رہا تھا مگر مافیا نے اس کو کچھ کرنے نہیں دیا۔ اس کے حامی اوورسیز پاکستانی کہیں گے کہ جاہل لوگ اس کو سمجھ ہی نہیں سکے، یہ ان پڑھ گنوار اپنی بہتری ہی نہیں چاہتے اسی لئے وہ مجبوراًمستعفی ہو گیا۔ انصافی بقراط یہ دلیل بھی لائیں گے کہ دراصل یہ عالمی سازش تھی، اقوام متحدہ میں اس کی تقریر کے بعد یہود و ہنود نے اسے نکلوائے بغیر چین سے کہاں بیٹھنا تھا غرضیکہ اگر اس نے استعفیٰ دے دیا تو وہ اپنے حامیوں کے لئے سیاسی شہید بن جائے گا اور اپوزیشن اس سیاسی شہید کی تارا مسیح ٹھہرے گی۔
وہ ملک اور ہیں جہاں ٹرین حادثوں پر وزیرمستعفی ہو جاتے ہیں، وہ شایدکہیں طلسماتی دنیا کی کہانی ہے جہاں مہنگائی پر مظاہرے ہوں تو وزیراعظم گھر چلا جائے، وہ بھی کہیں بہت دور کی بات لگتی ہے کہ لوگ ٹینکوں پر چڑھ کر نظام کو بچا لیں یا ترکی میں جہازوں کی بمباری برداشت کر لیں یہاں تو موہنجو دڑو سے لے کر آج تک کی تاریخ میں ظلم، جبر اور مزاحمت کا چکر ہی چل رہا ہے۔ ضمیر، اخلاقیات اور بھلائی کا درس صرف کتابوں میں بند ہے۔ عملی سیاسی دنیا ہو یا امورِ مملکت، ان میں بے حسی، ظلم اور زبردستی کا چال چلن ہی جاری ہے اور ابھی دور تک اس میں تبدیلی نظر نہیں آتی۔ اس ظلم کے خلاف لڑنے والے احمد خان کھرل ہوں، نواب مظفر خان ہوں، بھٹوز ہوں یا سینکڑوں گم نام لوگ، وہ اپنا سرخ خون دے کر کالی تاریخ کو سنہرا تو بنا جاتے ہیں مگر ابھی تک اسے بدلنے پر قادر نہیں ہوئے۔ ظلم رنگ اور روپ بدلتا رہتا ہے مگر اس کا انداز وہی بے رحمانہ ہے۔ مظلوم البتہ قربانی کے علاوہ کچھ اور نہیں کر پاتے۔
دھرنے اور لانگ مارچ اصولی طور پر غلط ہیں مگر آج کا مسئلہ یہ ہے کہ اسلام آباد میں بیٹھے ہزاروں لوگوں کی اشک شوئی کیسے کی جائے کہ وہ وہاں سے اٹھ جائیں کیونکہ ان کو شکست یا ہار نظر آئی تو ہنگامہ آرائی ہو سکتی ہے، جانیں بھی جا سکتی ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ اس بڑی تعداد کے مجمع کو طاقت کے بل پر روکا نہیں جا سکتا اور نہ ہی اسے زور زبردستی سے اٹھایا جا سکتا ہے۔ علامہ خادم رضوی کے دھرنے کو آنسو گیس اور لاٹھی چارج سے اٹھانے کی کوشش کی گئی، ہزیمت کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا بالآخر ان سے مجبوراًتحریری معاہدہ کرنا پڑا۔ خبر یہ ہے کہ پہلے مرحلے میں سندھ اور پنجاب کی سرحد پر مولانا کے قافلے کو روکنے کی منصوبہ بندی کی گئی مگر جب تعداد 30 ہزار تک پہنچ گئی تو یہ طے ہو گیا کہ انہیں روکنا خطرناک ہو گا اور حالات کی جو خرابی چند دن بعد ہوسکتی ہے وہ اسی دن سے شروع ہوسکتی تھی۔ اب بھی صورتحال یہ ہے کہ پنجاب پولیس یا اسلام آباد پولیس کو اگر اس مجمع سے محاذ آرائی کی مجبوری پڑی گئی تو پولیس اسے ہینڈل نہیں کر سکے گی اور اگر رینجرز یا ریگولر دستوں کے ساتھ ہجوم کا آمنا سامنا ہوا تو خون خرابہ ہوگا جس کے انتقامی اثرات خوف ناک ہوں گے۔ لال مسجد میں اسی طرح کا آپریشن ہوا تو خود کش دھماکوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا جو تھمنے میں نہیں آتا تھا۔ سیاسی طور پر آزادی مارچ کے ذریعے عمران خان کا جانا عمران خان کے لئے فائدہ مند اور اپوزیشن کے لئے نقصان دہ ہوگا۔ مولانا اور اپوزیشن کو اپنی شرائط میں جمہوری آزادیوں، الیکشن میں غیرجانبداری، احتساب میں زیادتیوں اور اسمبلیوں کی بہتر کارکردگی کو شامل کرنا چاہئے، ان مطالبات یا شرائط پر اتفاق رائے ہوا تو یہ عمران خان کی شکست اور اپوزیشن کی فتح ہوگی۔
خانِ اعظم جو بھی کہتے رہیں حکومت کا اصل امتحان اس کی کارکردگی ہو تی ہے۔ دنیا بھر میں کامیابی کا پیمانہ صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ آپ نے عام لوگوں کی معاشی حالت بہتر کی ہے یا خراب؟ پی ٹی آئی اس حوالے سے ابھی تک کوئی بڑا دعویٰ بھی نہیں کر سکتی، گورنر اسٹیٹ بینک البتہ بہتری کی نوید ضرور سنا رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شرح سود کم ہونے والی ہے، ادائیگیوں کا توازن بہتر ہو گیا ہے وغیرہ وغیرہ مگر سچ تو یہ ہے کہ دانش وری کی ان باتوں سے عام آدمی کا پیٹ نہیں بھرتا۔
جس طرح دبائو میں خان کا استعفیٰ دینا غلط روایت ہو گا اسی طرح یہ بھی سوچنا چاہئے کہ اگر یہ دھرنا نہ ہوتا تو کیا حکومتِ وقت سیاسی ڈائیلاگ کے بارے میں سوچتی۔ بظاہر حکومت سیاسی ڈائیلاگ سےکوئی دلچسپی نہیں رکھتی تھی۔ وہ اگر مذاکرات کا دروازہ کھول بھی رہے ہیں تو مصلحتاً اور مجبوری کے تحت۔ اگر یہ دھرنا نہ ہوتا تو نواز شریف جیل میں ہی مر جاتے، زرداری کو اسپتال نہ لیجانے کے حیلے بہانے ڈھونڈے جاتے۔ تاجروں کو فکسڈ ٹیکس لگانے کے بجائے نوٹس دیئے جا رہے ہوتے۔ اگر یہ دھرنا نہ ہوتا تو چند اور بیورو کریٹ بھی نیب کے شکنجےمیں آ چکے ہوتے۔ یہ دھرنا نہ ہوتا تو تحریک انصاف ابھی تک خواب غفلت میں ہوتی ساتھ ہی سیاسی انتقام کا ٹوکہ اور تیزی سے چلتا ہوا کئی اور سیاسی سر بھی کاٹ چکا ہوتا۔
کاش یہ دھرنا امن سے ختم ہو، مولانا وزیراعظم کے استعفیٰ کی شرط ختم کر کے جمہوری آزادیوں کی شرط منوا کر تاریخ میں سرخرو ہوں۔ دوسری طرف وزیراعظم عمران خان اس دھرنے سے سبق سیکھیں، انتقام اور احتساب کے سرکش گھوڑے سے نیچے اتر کر فلاح و بہبود کے پھریرے لہرائیں۔ پارلیمان کے اندر افہام و تفہیم سے قانون سازی شروع کریں۔ صدارتی آرڈیننسوں کی فیکٹری بند کریں۔ نیب قوانین کے بارے میں اتفاق رائے کریں۔ کشمیر پر ایک متفقہ پالیسی بنا کر حکومت اور اپوزیشن کی مشترکہ کمیٹیاں بنائیں۔ کاش اس دھرنے سے دبائو، زیادتی اور جبر و ظلم ختم ہو کر امن و آشتی کا دور شروع ہو۔
یاد یہ رکھنا چاہئے کہ یہ ملک نہ کسی ایک فرد کا ہے اور نہ کسی ایک ادارے کا، یہ ہم سب کا ہے۔ حکومت اکیلی ریاستی گاڑی نہیں چلا سکتی اپوزیشن کی شرکت ناگزیر ہے۔ اسی طرح آزاد میڈیا پر پابندیوں سے ریاست کی جمہوری صحت خراب سے خراب تر ہو رہی ہے۔ نواز شریف سزا یافتہ سہی، انسان تو ہیں انہیں انسانی حقوق تک نہ دینا سراسر زیادتی تھی۔ آصف زرداری بدنام سہی بیمار تو ہیں، انہیں طبی سہولتیں تک نہ دینا ظلم ہے۔ حکومت نے چلنا ہے تو اسے بدلنا ہو گااور اگر حکومت نے اپنے طور اطوار نہ بدلے تو پھر حکومت کا رہنا مشکل ہو گا۔ یہ کرکٹ نہیں کہ سب ٹیموں اور سب کھلاڑیوں سے لڑ کر آپ جیت جائیں۔ اِس کھیل میں جتنے زیادہ اتحادی ہوں، جتنی مفاہمت ہواتنا ہی سیاسی کھیل کامیاب رہتا ہے۔