آپ ریاست سے نہیں لڑ سکتے۔ زندگی پراپیگنڈے پر نہیں چل سکتی۔ یہ بات تحریک انصاف کے قائدین کو بروقت سمجھ نہ آسکی۔ معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن کی جانب بڑھتے چلے گئے لیکن ان کا خیال تھا کہ اچانک سب ٹھیک ہو جائے گا۔ جیل میں بیٹھے ایک ملزم کو سوشل میڈیا پر اتنا طاقتور ظاہر کیا گیا کہ لگنے لگا ریاست اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دے گی۔ سنجیدہ سیاست کے بجائے جلسوں میں طنز، ٹی وی پروگرامز میں جگتیں اور پھر باقاعدہ ریاستی ملازمین کو دھمکیاں دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
اقتدار جانے کے بعد ملک دشمنی کے تمام ہتھکنڈے آزمانا شروع کیے، کبھی اقوام متحدہ کو قرض دینے سے روکنے اور ملک ڈیفالٹ کرانے کی کوشش، کبھی ملک ہر ایٹم بم گرانے کی خواہش کا اظہار، کبھی پاکستان اور پاک فوج کے خلاف بیانات اور آرٹیکل لکھوانے کی طرف چلے گئے۔ جب راہنماؤں نے یہ وتیرہ اپنایا تو سادہ لوح عوام بھی اسے ہی سچ سمجھنے لگے۔ پارٹی چیئرمین گرفتار ہوئے تو ان کے چاہنے والے یوٹیوبرز اور بعض ٹی وی تجزیہ کاروں نے بھی ایسی پیشن گوئیاں شروع کر دیں کہ حیرت ہوتی تھی۔
گزشتہ ایک سال کے وی لاگز نکال کر دوبارہ دیکھ لیں۔ ہر روز ہی ایک اہم شخصیت جیل پہنچتی رہی، ہر دوسرے دن چیئرمین کی ممکنہ رہائی کی پیشن گوئی پورے اعتماد سے کی جاتی رہی۔ ان پیشنگوئیوں کے مطابق کبھی چیف جسٹس نے فیصلہ سنانا تھا، کبھی سکیورٹی ادارے ڈیل کرنے کے لیے ہلکان ہوئے جاتے تھے تو کبھی حکومت گھٹنے ٹیک چکی ہوتی تھی۔ تمام وہ طریقے یا کام بتائے گئے جو ملکی قوانین اور آئین کے مطابق ممکن نہیں تھے۔
دھرنوں سے قیدی رہا ہوتے تو عدالتیں کس لیے بنائی جاتیں؟ ایسا لگتا ہے جیسے حقائق کو یکسر نظر انداز کرکے ایک ایسا خواب دکھایا جا رہا تھا جو کسی فلم کے سکرپٹ میں تو چل سکتا ہے لیکن حقیقی زندگی میں ممکن نہیں۔ ایک جانب چیئرمین کے چاہنے والے ان کے فالورز کو غیر حقیقی خوابوں کی دنیا میں لیجا رہے تھے تو دوسری جانب ریاست اپنی قانونی کارروائی کر رہی تھی۔ عدالتوں میں کیس چل رہے تھے۔
فیصلے سے پہلے ممکنہ فیصلے اتنے یقین سے سوشل میڈیا اور واٹس ایپ گروپس میں بتائے جاتے تھے کہ لگنے لگتا تھا شاید جج نے فیصلہ صرف پڑھ کر سنانا ہے اور فیصلہ بھی ایسا جو قانونی طریقہ کار کے مطابق ممکن نہ ہو۔ 9 مئی کو جو ہوا اس نے معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچا دئیے لیکن پارٹی کے بعض راہنما اس کے بعد بھی اپنے بیانیہ کو تبدیل نہ کر سکے۔ کبھی کبھی حیرت ہوتی تھی کہ ملک و قوم کے فیصلے کرنے والے یہ سیاست دان حقائق سے اتنے بے خبر کیوں ہیں۔ کبھی لگتا تھا کہ پارٹی کے سیاستدان ہی چیئرمین کے اصل مخالف ہیں۔
چیئرمین کے غبارے میں ہوا بھرتے بھرتے انہیں دیوار سے لگا دیا گیا۔ اب فیصلے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ فوجی عدالتوں نے کور کمانڈر ہاؤس پر حملے اور کور کمانڈر کی وردی لہرانے پر بھانجے کو دس سال قید بامشقت سنا دی۔ اپنے ہی ریٹائرڈ بریگیڈیئر کو بھی سزا سنا کر یہ ثابت کر دیا کہ ریاست کے خلاف بغاوت پر ابھارنے والوں کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں کی جائے گی۔ ادارے کا ڈسپلن تباہ کرنے کی کوشش پر اپنے وقت کے طاقتور ترین آفیسر کے خلاف کارروائی میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اب انسداد دہشت گردی کی عدالت نے گلگت بلتستان کے سابق وزیراعلیٰ کو 34 سال قید کی سزا سنا دی ہے۔
موصوف بھی جلسوں میں دھمکیاں دیتے رہے تھے کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ یہ وہ رویہ ہے جو ملک کا انتظامی ڈھانچہ تباہ کر سکتا ہے۔ ریاستی ملازم کسی سیاسی جماعت یا فرد واحد کے ملازم نہیں بلکہ ریاست کے ملازم ہوتے ہیں۔ اگر ہر سیاسی جماعت آئی جی، چیف سیکرٹری یا کسی اور ریاستی ملازم کو ذاتی ملازم سمجھ کر احکامات دینے لگے یا ان کے خلاف اس بنیاد پر کارروائی کرنے کی دھمکی دے تو یہ ریاستی نظام مفلوج کرنے کی کوشش کہلائے گی۔
اسی طرح پاک فوج کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی گئی، کور کمانڈر ہاؤس سمیت پاک فوج کی یادگاروں پر حملے کیے گئے۔ یہ ملک دشمنی نہیں تو کیا تھا۔ اپنے اقتدار کے لیے اپنا گھر ہی تباہ کر دینا کونسی دانش مندی ہے؟ اقتدار سدا کسی کا نہیں رہتا۔ پاکستان کی سیاست میں تو آج کے حاکم کل جیل میں ہوتے ہیں اور کل کے ملزم آج حاکم وقت ہیں۔ اس کے باوجود طاقت کا نشہ ایسا ہے کہ اقتدار میں آنے والے وہ تمام کام کرتے ہیں جو کل اپوزیشن میں جانے کے بعد ان کے گلے کا پھندا بن جاتے ہیں۔ ایک بات واضح ہے کہ یہ ملک ہمارا ہے۔ اس کی تعمیر و ترقی میں سب کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
بدقسمتی سے سیاسی راہنماؤں کی اکثریت ملکی مفاد کے بجائے ذاتی مفادات اور ذاتی اختلافات کی پرورش کرنے میں مصروف ہیں۔ بیانیہ صحافت نے ایسے بیانات کو مزید تقویت بخشی۔ جو کچھ ہوا یہ نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن اس کی ذمہ دار کافی حد تک ہماری سیاسی اشرافیہ خود ہے۔ ایک سیاسی راہنما کی انتقامی سوچ اور ہٹ دھرمی نے بات پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچا دی ہے۔ اس کا نقصان فرد واحد یا سیاسی جماعت سے زیادہ ملک و قوم کو ہو رہا ہے۔ رویے اور سوچ تبدیل کرکے ان معاملات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے یعنی اب بھی ملک بچایا جا سکتا ہے۔