وہ بیسویں صدی کا "بل گیٹس" اور اسٹیل انڈسٹری کا بے تاج بادشاہ تھا۔۔ جس کی برابر ی کی ہمت اس وقت کے بڑے بڑے صنعت کار بھی نہیں کرسکتے تھے۔ اپنے وقت کا مالدار ترین انسان، جس کے حلقہ احباب میں پوری دنیا کے سات سواعلیٰ کاروباری افرادشامل تھے۔ وہ نہ صرف کاروبار اور صنعت کا گرو تھا بلکہ ملک بھر میں علم و فن اور سائنس کی خدمت میں بھی پیش پیش رہااور اس مقصد کے لیے اس نے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے تھے۔ اس بات کو یہاں روک کرکہانی کو ابتدا سے شروع کرتے ہیں۔
غربت اور کسمپرسی کے عالم میں ایک نوجوان اپنے گاوں سے روزی کمانے کے لیے نکلا اور شہر پہنچ کر لوہے کی ایک فیکٹری میں لوہا کوٹنے کا کام شروع کردیا۔ وہ عزم کا پختہ تھا، لگن سے اپنا کام کرتا رہا اور چند ہی سالوں میں وہ مزدور سے سپروائزر ہوگیا۔ اس معمولی ترقی نے اس کو ہمت اورآگے بڑھنے کے جنون کو مزید تقویت دی۔ اس نے اپنی محنت دگنی کردی اور پھرکچھ عرصے میں ترقی کرتے کرتے وہ مینجر کے عہدے تک پہنچ گیا۔
ایک دن اس کو خیال آیا کہ اگر میں مزدورسے سپروائزر او رپھر منیجر بن سکتا ہوں تو پھر مالک بھی بن سکتاہوں۔ سو، اس نے ملازمت چھوڑ کر اپنی اسٹیل انڈسٹری کا آغاز کیااور صرف مالک بننے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس وقت پورے ملک کو جتنا لوہا درکار تھا اس کا ایک تہائی اس نے فراہم کرنے کااعلان کیا اور کرکے بھی دکھایا۔ مختصر عرصے میں ایک مثالی ترقی کرنے والے اس اس شخصیت کودنیا "اینڈریو کارنیگی" کے نام سے جانتی ہے۔
انڈریو کارنیگی نے ایک بڑی اچھی مثال یہ قائم کی کہ مرنے سے پہلے اپنی تمام دولت کا 80 فی صد حصہ ملک کی لائبریریوں اور تحقیقی اداروں کے لیے وقف کیا۔ یہ ایک ایسی کاوش تھی جس نے اس وقت امریکی قوم کو فکری اور شعوری طور پر ترقی کرنے کے لیے بے تحاشا فائدہ دیا۔ اینڈریو کارنیگی نے آنے والے زمانے اور اس کے تقاضوں کو بھانپا اور اس کے مطابق اپنی قوم کے ساتھ یہ نیکی کرڈالی کہ پورے ملک میں علمی وتحقیقی ادا روں کا جال بچھادیا۔
کامیابیوں کے جھنڈے گاڑنے کے بعد جب وہ بامِ عرو ج پہ تھا، اس کے دل میں ایک خیال پیدا ہواکہ میں "زیرو" سے "ہیرو"بن گیا ہوں تو کیوں نہ اپنی اس کامیابی او ر اس کے پیچھے بنیادی عوامل کو منظرِ عام پر لے آؤں، تاکہ دوسرے لوگ بھی ان کو عمل میں لاکر کامیابی حاصل کرلیں۔ ا س مقصد کے لیے اس نے اخبار میں اشتہار دیا کہ جو شخص میرا انٹرویو کرنا چاہتا ہے وہ مجھ سے ملے، چنانچہ لوگ آنا شروع ہوگئے۔ اینڈریو کارنیگی نے سب سے ملاقات کی مگر اس کوکوئی متاثر نہ کرسکا۔ آنے والوں میں ایک جوان "نپولین ہل" بھی تھا، اینڈریوکو یہ جوان کچھ غیر معمولی دکھائی دیا۔ اس نے بغور مشاہدہ کیا تو یہ بات معلوم ہوئی کہ وہ کام سے لگن رکھنے والاایک بہترین رائٹر(لکھاری) ہے۔ اینڈریو بولا:"جوان! میرے پاس تمہارے لیے ایک آفر ہے اگر تم میرے ساتھ کام کرنا چاہوتو، ہم مل کر کامیابی کے موضوع پر ریسرچ کریں گے۔ میں ایک کامیاب انسان ہوں اور اس وقت کے کامیاب اور مقبول ترین افراد میرے دوستوں میں شامل ہیں۔ ایڈیسن میرا دوست ہے۔ میرے دوسرے دوست کا نام برج اسٹون ہے۔ ایک دوست کا نام فورڈ ہے (جس نے مشہور زمانہ فورڈ گاڑی ایجاد کی تھی ) پھر مزید کہا :"یہ میں نے صرف تین نام گنوائے ہیں، اس طرح سات سوکامیاب بزنس مین میرے دوست ہیں۔"یہ سن کر نپولین کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں، اس نے پوچھا "مجھے کیا کرنا ہوگا؟ "اینڈریو نے جواب دیا :" میں اپنے لیٹر پیڈ پہ تمہیں ایک خط لکھ کر دوں گا، جس طرح تم مجھ سے ملے ہو اسی طرح یہ سب لوگ آپ سے ملیں گے، جس کے بعد آپ ان کااپنی مرضی سے انٹرویو کرسکتے ہو۔" لیکن اس کے ساتھ میری ایک شرط ہے۔"اینڈریو نے بھرپور سنجید گی سے کہا، وہ یہ کہ تمہیں اس کام کا کوئی معاوضہ نہیں ملے گا۔" اینڈریو نے نپولین کو بغور دیکھا، وہ سمجھاکہ یہ ابھی یہاں سے اٹھ کر جانے لگے گا کہ اتنی محنت اور پیسہ ایک بھی نہیں، مگر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب جوان نپولین نے ہاتھ آگے بڑھا کر کہا "Done"
انسان کو جس چیز سے عشق ہوتا ہے اس کے معاوضے کی پروا ختم ہوجاتی ہے۔ جو بھی انسان یہ سوچتا ہے کہ مجھے کیا ملے گا؟ وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ کامیابی کی کوئی مخصوص تعریف نہیں ہوتی، ہر انسان کے لیے اس کی تعریف مختلف ہوسکتی ہے بلکہ اگر ہم یوں کہہ لیں تو زیادہ مناسب ہوگا کہ کسی بھی اچیومنٹ اور ہدف کو حاصل کرلینے کا نام کامیابی ہے اور آج کی ریسرچ یہ کہتی ہے کہ کامیابی کے لیے مخصوص میدان اور فیلڈ کا ہونا ضروری ہے۔ جس انسان نے دل و دماغ کے دس ہزار گھنٹے کسی بھی کام میں لگائے ہوتے ہیں وہ اس کا " ماہر" بن جا تاہے اور تب وہ بآسانی ترقی کرسکتا ہے۔
نپولین نے اپنی ریسرچ کا آغاز کردیا، یہ دنیا کی طویل ریسرچ تھی جس پر سولہ سال کا عرصہ لگا۔ وہ اس وقت کے کامیابی ترین شخصیات سے ملااور ان سب افراد کے انٹرویوز کرنے کے بعد، کامیابی پانے میں ان کے اندر جو بنیادی مشترک عادات تھیں، ان کو ڈھونڈا۔ اس کو چودہ ایسی عادات کا علم ہوا جو ان تمام شخصیات میں مشترک تھیں اور ان سب کواس نے Think & grow rich نامی اپنی کتاب میں بیان کردیا۔ نپولین کی تحقیق کے مطابق ان تمام شخصیات کی کامیابی کے پیچھے مندرجہ ذیل خصوصیات تھیں :
(1)کامیابی کے بارے میں سوچنا:
یہ تمام لوگ اپنی کامیابی کے بارے میں سوچتے ہیں۔ یہ دنیا کے تمام نظام اور ساری صورتِ حال کو دیکھ کر سوچتے ہیں کہ میں کیوں کامیاب نہیں ہورہا؟ وہ سوچتے ہیں کہ میں جہاں سے چلاتھا آج بھی وہیں پہ ہوں، کیوں؟
یہ ایک حقیقت ہے کہ جس انسان کی زندگی میں نئے حالات، واقعات اورلوگ نہیں آرہے تو وہ ترقی نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کا ہر صوفی سفر کرتا ہے، وہ اپنی باہر کی دنیا نئی کرتا ہے، اندر کی دنیا بھی نئی ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں سات سو سے زیادہ بار اللہ تعالیٰ غوروتدبر کے بارے میں حکم دیتا ہے اور غوروتدبر نہ کرنے والوں کے بارے میں فرمایا کہ "ان کے دلوں پر اللہ نے مہر لگادیے ہیں۔"سقراط کا قول ہے کہ " میں پڑھاتا نہیں ہو ں، میں سکھاتا نہیں ہوں میں صرف سوچنے پر مجبور کرتا ہوں۔"
(2)جذبہ و جنون:
دوسری چیز ان لوگو ں میں جنون والی عادت تھی، جس کو ہم عشق، پاگل پن اور خبط بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس بات کو سقراط کی ایک مثال سے بآسانی سمجھ سکتے ہیں۔ ان کے پاس ایک شاگرد سوال پوچھنے آیا کہ علم کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے کہا :"کل صبح آجانا " اگلے دن جب وہ آیا تو سقراط گردن تک پانی میں ڈوبا نہارہا تھا، اس نے شاگرد کو بھی بلایا۔ جب وہ پانی میں داخل ہوا تو سقراط نے اس کا سر پکڑ کر اس کو پانی میں ڈبودیا، کچھ دیر تک تو وہ شاگرد برداشت کرتا رہا مگر پھر اس کے لیے مزید سانس روکنا مشکل ہوگیا۔ اس نے پورا زور لگاکر بھرپور جھٹکے کے ساتھ اپنا سر پانی سے باہر نکالااور جلدی سے باہر آکر بولا:"مجھ سے غلطی ہوگئی آئندہ آپ سے سوال نہیں پوچھوں گا۔" سقراط نے کہا :" میرا مقصد آپ کو جواب دینا تھا، جو میں دے چکا۔"شاگرد نے پوچھا :"کیسے؟ " سقراط نے کہا : جس طرح پانی میں سانس بند ہونے کے بعدتمہاری سب سے بڑی خواہش صرف سانس ہی تھی، اس وقت نہ روٹی کی طلب تھی، نہ پیسے کی اور نہ ہی مال و دولت کی، ایسی ہی مجھے ہر وقت علم کی طلب رہتی ہے اور اسی طلب کے ساتھ میں اس مقام تک پہنچا ہوں۔
(3) یقین :
تیسری خصوصیت ان میں یقین کی تھی۔ ان سب کو یقین تھا کہ ہم کچھ کر جائیں گے۔
میرے پندرہ سالہ تدریسی تجربے کے مطابق جو قابل طالب علم ہوتا ہے اس کو یقین ہوتا ہے کہ میری محنت رنگ لائے گی اور اسی وجہ سے وہ محنت کرتا ہے جبکہ نالائق طلبہ میں ایک چیز مشترک ہوتی ہے وہ یہ کہ ان کو یقین ہوتا ہے کہ محنت کا کوئی فائدہ نہیں اور اسی وجہ سے وہ پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اگر انسان کو اپنے آنے والے دنوں کی خیر پر یقین نہیں ہے تو وہ کوشش نہیں کرسکتا۔ ایسے لوگوں کو نہ اپنے آپ پہ یقین ہوتا ہے نہ ملکی حالات پہ، نہ اپنی قسمت پہ اور نہ ہی اللہ کی رحمت پہ، مجھے اکثر میرے پرانے دوست کہتے ہیں کہ آپ جو کام کررہے ہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں، اس کو چھوڑیں اورآرام سے زندگی گزاریں! مگر میں کہتا ہوں کہ نہیں ! میرا یقین ہے کہ اگر اس معاشرے کو چند بہترین سوچنے والے افراد بھی مل گئے تو یہ معاشرہ ترقی کرنا شروع کردے گا۔
(4) خود کلامی:
انسانی ذہن کی مثال بندر کی طرح ہے، یہ کبھی بھی ایک جگہ فوکس نہیں رہ سکتا۔ اس میں ایک خیال آتا ہے، ایک کے بعد دوسرا، تیسرا اورپھرچوتھا خیال پیدا ہوتا رہتا ہے۔ نپولین نے دیکھا کہ جتنے بھی کامیاب لوگ تھے ان میں ایک چیز مشترک تھی کہ وہ Auto suggestion یعنی خود کلامی کرتے تھے۔
مائنڈ چونکہ ایک جگہ نہیں رہتا، اس کو کہنا پڑتا ہے کہ تم ایک جگہ رہو۔ اگر ایک جگہ رہنے کے لیے اس کونہ کہا جائے تو پھر یہ اچھلتا کودتا رہتا ہے۔ اس کو باندھنے کا آسان طریقہ خودکلامی ہے۔ یہ تمام لوگ خود کو سمجھاتے تھے کہ وہ دنیا میں کچھ نہ کچھ کرنے کے لیے آئے ہیں۔ یہ بڑا اہم جملہ ہے، اپنے آپ کو کبھی کبھی کہا کریں کہ "میں ایک بڑے مقصد کے لیے آیاہوں، میں اللہ کا نائب، خلیفہ اوراشرف المخلوقات ہوں، میں ایک بامقصد زندگی گزاروں گا۔ میں دنیا میں آیا ہوں تو جینے کا حق ادا کروں گا، کیونکہ میں نے اللہ کو جواب دینا ہے۔"اس طرح کے معیاری جملوں کو آپ جتنادہراتے رہتے ہیں توآپ کا مائنڈ اس کو محفوظ کرتاہے اور اس کے بعدجب کہیں وہ اچھلتا ہے تو آپ کی خودکلامی سے بننے والا سافٹ وئیر اس کو پکڑکر آرام سے بٹھالیتا ہے اور اس کو بھٹکنے نہیں دیتا۔
یہاں ایک نکتہ یہ بھی سمجھ لیں کہ بطورِ مسلمان ہم جواللہ کا ذکر کرتے ہیں وہ بھی Auto suggestion ہے۔"یارحمان" کہنا، اپنے آپ کو پورا یقین دلانا ہے کہ وہ رحم کرنے والا ہے۔ یہ کرنے سے آپ کا اس کی رحمانیت پر یقین مضبوط ہوجاتا ہے اور پھر آپ کا مائنڈ خوف سے نکل کر امید کی کیٹیگری میں آجاتاہے۔
(5) مخصوص فیلڈ:
ان تمام کامیاب لوگوں نے ایک مخصوص فیلڈ کو پکڑ کر اس میں کامیابی حاصل کی تھی۔ جیسے ایڈیسن نے بلب کو پکڑ لیا تھا، برج اسٹون نے گاڑی پکڑلی، اینڈریو کارنیگی نے اسٹیل انڈسٹری پکڑلی، ایدھی صاحب نے خدمت کو اپنا مقصد بنالیا۔
اپنی زندگی میں کوئی ایسا مقصد ضروربنائیے جس پر آپ اپنا تن، من اور دھن قربان کرسکیں۔
(6) تخلیقیت:
انسان کا ذہن الفا ظ اور جملوں میں نہیں سوچتا بلکہ تصاویر اور منظر میں سوچتا ہے۔ یہ تمام کامیاب لوگ بھی تخیل نگاری اور امیجی نیشن کے گرو تھے، یہ خواب دیکھتے تھے اور خواب دیکھنے کے بعد اس کی تعبیر کے لیے جدوجہد شروع کردیتے تھے اور پھر۔۔ کامیاب ہوجاتے۔
ہم میں سے اکثر لوگ خواب نہیں دیکھ سکتے، کیونکہ ان کی زندگی میں خوف بہت زیادہ ہوتاہے۔ کوئی دوسراشخص اگر نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے ان سے کہے کہ آپ بہت ترقی کریں گے تو یہ گھبراکر کہتے ہیں، نہیں نہیں !بالفاظِ دیگر ان کی زندگیوں میں Fear of success (کامیابی کا خوف)ہوتا ہے۔ یہ دراصل اپنی نظروں میں چھوٹے ہوتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اگرہم کامیاب ہوگئے تو نہ جانے لوگ کیا کہیں گے۔ میرے مطابق تخیل ساز ذہن والا انسان ہی ترقی کرسکتاہے۔ میں کسی انسان کو پرکھتا ہوں تو اس پیمانے پر کہ اس کے اندر Imagination اور تخیل کتنا ہے، وہ کس قدر تخلیقی صلاحیت کا حامل ہے، وہ اپنی نظروں میں اپنے آپ کو کیسے دیکھتا ہے؟ اللہ ہر انسان کو موقع دیتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ موقع صرف قسمت والے کو ملتا ہے، حالانکہ یہ غلط سوچ ہے، موقع ہر ایک کو ملا ہوتا ہے۔ موقعے کی تیاری کا نام قسمت ہے۔ آپ کے پاس بھی ابھی موقع ہے، کامیاب لوگوں کی کامیاب صفات اپنائیے اور اپنی قسمت بنائیے!