اس کائنات کی مثال ریس والے میدان کی طرح ہے، جس میں ہر شخص اپنے پیشن اور پروفیشن کے سہارے دوڑ رہا ہے۔ محنت کو کام میں لاکر، وقت کو استعمال کرکے وہ کسی نہ کسی طریقے سے کامیابی کے ہدف تک پہنچنا چاہتا ہے۔ دراصل انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کا سفر شروع ہوجاتا ہے انسان کو اس دنیا میں بھیجنے کے ساتھ یہاں رہنے اور اپنے اہداف حاصل کرنے کے لیے درکار چیزیں بھی عطا کی جاتی ہیں۔ کامیابی پانے کی یہ تڑپ اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب انسان کسی چیز سے انسپائر ہوتاہے۔ یہ انسپائریشن کسی کتاب کی صورت میں بھی ہوسکتی ہے، کوئی ویڈیو، آڈیو یا کسی شخصیت کے بہترین اقوال بھی۔ مگر یہ یاد رکھیں کہ کامیابی ہمیشہ ایک منظم لائحہ عمل اور قانون پر عمل کرنے سے ملتی ہے۔
کامیابی کے بارے میں بہت سارے لوگ یہ بھی بولتے نظر آتے ہیں کہ "یہ محض کتابی باتیں ہیں" دراصل ان کو معلوم نہیں ہوتا کہ کامیابی اصل میں کیا ہوتی ہے؟ کیونکہ وہ عملی طورپر اس پراسس سے نہیں گزر ے ہوتے، وہ سمجھتے ہیں کہ کامیابی سراسر قسمت کا کھیل ہے۔ ان کے خیال میں یہ لاٹری کی طرح ہے جو خوش قسمت ہوتا ہے اس کی نکل آتی ہے۔"حالآنکہ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔
قانون اور لاٹری میں فرق:
قانون ایک طریقہ کار اور لائحہ عمل کا نام ہے جبکہ لاٹری صرف ایک اتفاق ہوسکتا ہے، اس کو قانون یا قاعدہ کلیہ نہیں بنایا جاسکتا۔ جیسے ایک انسان نے ٹکٹ خریدا اور اس کی لاٹری نکل آئی تو اب یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کوئی بھی ٹکٹ خریدے گا تو اس کی لاٹری نکل آئے گی بلکہ یہاں تک بھی نہیں کہا جاسکتا کہ وہی انسان اگر دوبارہ ٹکٹ لے تو اس کا جیتنا یقینی ہوگا۔ کوئی بھی چیز جب بائی چانس ہوتی ہے تو وہ قانون نہیں بن سکتی۔ قانون کا مطلب ہے کہ آپ نے کئی طرح کے مشاہدات اور تجربات سے گزر کر ایک فارمولا بنایا اور اس کے بعد دوسرے شخص نے بھی اس پر عمل کیا تو اس کو آپ کی طرح نتیجہ ملا۔
ابتدا میں کامیابی کے بارے میں میرا نظریہ بھی یہ تھا کہ یہ قسمت کا کھیل ہے، مگر بعد میں میرا یہ خیال غلط ثابت ہوا۔ یہ بات یاد رکھیں کہ جب بھی آپ زندگی میں کسی چیز کو قسمت کا کھیل کہتے ہیں تو اس کے بارے میں آپ کا غور وخوض اور تحقیق بند ہوجاتی ہے۔ ہماری قوم کوبہلانے کی خاطر قسمت کی غلط تعریف اور اس نام کالالی پوپ اس قدر زیادہ ملا ہے جس کی کوئی حد نہیں۔ میں قسمت پر یقین رکھنے والا ہوں کیونکہ دین کہتا ہے کہ اچھی اور بری تقدیر پر یقین اور ایمان رکھنا ہے۔ لیکن تقدیر کیا ہوتی ہے، اس کی درست تشریح سے ہم واقف نہیں۔ یہ اتنا نازک پہلو ہے جس کو گہرائی سے سمجھنا بہت ضروری ہے!یہ جتنا آسان لگتا ہے اتنا ہی مشکل بھی ہے۔
ہمارے معاشرے میں کامیاب انسان کے بارے میں ایک اصطلاح یہ مشہور ہے کہ"اس پر اللہ کا فضل ہو اہے۔"یہ بات بالکل درست ہے، مگر اس کے پیچھے ایک فارمولا ہے جس کا نام فضل ہے۔ اس فارمولے کو میں درجن تیرہ کا نام دیتاہوں۔ دراصل فضل انہی پر ہوتا ہے جو اس قانون پر عمل کرتے ہیں یعنی آپ زندگی میں دوسرے لوگوں کو ان کے حق سے زیادہ دیتے ہیں، کسی کی مدد کرتے ہیں اورآسانی فراہم کرتے ہیں تو اس کا صلہ آپ کو ملتا ہے۔
میری زندگی میں بہت سارے ایسے واقعات ہیں کہ جب میں نے کسی ادارے کے ساتھ کوئی پروفیشنل معاہدہ کیا تواپنی خدمات معاہدے سے بڑھ کر دیں۔ درجن تیرہ ایک مکمل قانون اور فارمولا ہے جو صرف ایک انسان کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ یہ اللہ کا قانون ہے جو کہ قرآن میں بھی مذکور ہے کہ: واللہ یحب المحسنین اللہ احسان کرنے والوں کے ساتھ محبت کرتا ہے۔ یہ بات یاد رکھیں کہ اللہ جب بھی آپ سے محبت کرتا ہے تو لازم نہیں کہ وہ آپ کو زیادہ پیسے دے دے۔ ایسا ممکن ہے کہ اللہ آپ سے محبت کرکے آپ کی عزت بڑھادے، آپ کو اطمینانِ قلب دے دے، اللہ کی محبت کا انجام آپ کی اچھی اولاد ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کو اللہ کی رفاقت مل جائے، خیر اور بھلائی کرنے کا موقع آپ کو مل جائے، ممکن ہے کہ کوئی ایسا عمل آپ کرلیں جس سے آپ کی عاقبت بن جائے۔ جبکہ ہم نے ہٰذا من فضل ربی کا صرف ایک ہی مطلب ڈھونڈا ہے وہ ہے پیسہ، یہ ہم سب کی اجتماعی غلط سوچ ہے، اور اسی کی بنیاد پر ہم دوسرے لوگوں کو تولتے بھی ہیں۔
کامیابی کے بارے میں میرا نظریہ بھی معاشرے کی طرح تھا کہ یہ صرف قسمت کا کھیل ہے مگر۔۔ پھر ایک واقعہ سے میری سوچ یکسر تبدیل ہوگئی اور کامیابی کی حقیقی تعریف مجھ پر آشکار ہوگئی۔ ایک دفعہ میں ڈیپریشن کا شکار ہوگیا، میرے سامنے ہر طرف اندھیر ا ہی اندھیراتھا۔ زبانی باتوں پر کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں تھا، ہر چیز عملی طورپر کرکے دکھانی پڑرہی تھی۔ جہالت اور غربت کے بے شمار دائرے جو میرے اِردگِردبن چکے تھے، ان سب دائروں کو توڑکر نکلنا اور ترقی کرنا، ان تمام عوامل نے مجھے شدید ذہنی پریشانی میں مبتلا کیا۔ میں نے کسی ماہرِ نفسیا ت کے پاس جانے کا ارادہ کیا، میں دو تین سائیکالوجسٹ کے پاس گیا مگر وہ مجھے متاثر نہیں کرسکے۔ البتہ ایک سائیکالوجسٹ ایسابھی تھا جس نے مجھے اس قدر بہترین اندا ز میں متاثر کیا کہ وہاں سے میری ترقی کے زاویے پھوٹے۔ اس نے میری بیماری کی تشخیص بہترین انداز میں کی، مجھے پرسکون ہونے کا کہا اور کچھ ہی دیر میں مجھے ہپناٹائز کیا، جبکہ میں ہپناٹائز ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی سوچ رہا تھا کہ یہ مجھے ہپناٹائز کیسے کرتا ہے۔ اس سارے پراسس سے گزرنے کے بعد جب میں فارغ ہوا تودل ہی دل میں پختہ ارادہ کیا کہ یہ میں نے سیکھنا ہے۔ جب میں جانے لگا تو اس سائیکالوجسٹ نے مجھے ایک پمفلٹ دیا کہ"آپ اگر چاہو تو اگلے اتوار کو ایک ورکشاپ آرہی ہے اس میں شرکت کرلو!" میں چونکہ ان کی قابلیت سے متاثر ہوگیا تھا، فوراً ہامی بھرلی، کیونکہ مجھے محسوس ہوا یہ انسان، عام انسان نہیں ہے اس کی ہر چیز مجھے اٹینڈ کرنی چاہیے۔ ورکشاپ میں جاکر مجھے ایک کتاب کے بارے میں علم ہوا اور وہ کتاب تھی (سوچیے اور پیسے کمائیے!) چونکہ میں متاثر تھا اس لیے میں نے اس کتاب کو پڑھنے کی ٹھانی۔ اس سے پہلے میں مکمل طور پر معاشرے کی سوچ سوچ رہا تھا، جو کامیابی کو قسمت کا کھیل سمجھ رہے تھے، جو صبح اخبار کھول کر دیکھتے تھے کہ آج کا دن کیسا گزرے گا، جو طوطے سے فال نکلواکر اپنی قسمت کا فیصلہ کرتے تھے۔
میں نے جب وہ ورکشاپ اٹینڈ کی تو وہ میرے نظریا ت سے 180 ڈگری متضاد تھی، کیونکہ وہ بتارہی تھی کہ دنیا میں کامیابی کا ایک قانون ہوتا ہے، وہ یہ بھی بتارہی تھی کہ دنیا میں دو قسم کے لوگ ہیں، ایک قسم وہ ہیں جن کا مائنڈ سیٹ اس انداز کا بنا ہوتا ہے جس کی بدولت وہ کامیاب ہوجاتے ہیں۔ جبکہ بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کا مائنڈ سیٹ اچھے طریقے سے کام کرتا ہے لیکن وہ پھر بھی اس کو قسمت پر ڈال دیتے ہیں اور قسمت قسمت بول کر زندگی میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ وہیں مجھے ایک نئے لفظ "مائنڈسیٹ" کا پتا چلا کہ کامیابی آپ کو بعد میں ملتی ہے اس سے پہلے آپ کو اپنا مائنڈ سیٹ بنانا پڑتا ہے اور جس نے وہ کامیابی بنانی ہے اس سے پہلے مائنڈ بنانا ہے۔ میں نے اس کتاب کو بارہا پڑھا اورکئی مرتبہ اس کی آڈیو سنی۔
ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ"آپ کی زندگی کا کوئی چھوٹا سا واقعہ بھی چھوٹا نہیں ہوتا۔"دنیا میں جب بھی کوئی بڑا انسان بننا ہوتا ہے تواس کو چھوٹے چھوٹے واقعات کی معانی سمجھ آنے لگ جاتے ہیں۔ وہ سوچتا ہے کہ یہ استاد مجھے ہی کیوں ملا؟ مجھے ہی یہ موقع یا پروگرام کیوں ملا؟ یہ بات میں اس لیے بتارہا ہوں کہ جس سیشن میں شریک ہونے کے لیے میں آیا تھا، اس میں میرے ساتھ ایک دوست بھی تھا، جو اس وقت میڈیکل ریپ کی ملازمت کررہا تھا۔ سیشن کے بعد میں نے اس سے پوچھا کہ "آپ کا اس پروگرام کے بارے میں کیا خیال ہے؟" اس کا جواب تھا :"یہ محض باتیں ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں۔" جبکہ میرا نظریہ اس سے مختلف تھا، میں نے اس کتاب کو پڑھنے کے بعد ان تمام اصولوں کو اپنی زندگی میں عملی شکل دی اور کامیابیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا جبکہ میرا وہ دوست آج بھی میڈیکل ریپ ہی ہے۔ یہاں میرا مقصد موازنہ ہرگزنہیں، میں صرف مائنڈ سیٹ کی افادیت بتانا چاہ رہا ہوں۔
Delete کے لفظ کا ہونا زندگی میں بڑا ضروری ہے، کیونکہ انسان نئی چیز تب سیکھ سکتا ہے جب وہ پرانی چیزوں کو ختم کردیں۔ ڈیلیٹ کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے ایک چیز کو سمجھا اور اس کے بعد فیصلہ کیا کہ یہ میرے فائدے کی نہیں ہے اورپھر اس کو Delete کردی۔ انسانی زندگی میں پانچ طرح کی چیزیں ایسی ہیں جنہیں زندگی سے ڈیلیٹ کرنا بہت ضروری ہے:
ایسا فلسفہ جو عملی طور پرآپ کی زندگی میں نہیں آرہا، تو اس کا مطلب ہے کہ وہ فلسفہ نہیں صرف ایک کہانی یا افسانہ ہے۔
ایسا فلسفہ اور خیال جو آپ کو آگے بڑھنے کے لیے موٹیویٹ نہیں کرتا یا آپ کو ترغیب نہیں دیتا۔
ایسا فلسفہ جو منجمد ہے۔ منجمد خیال اور فلسفہ انسان کو بھی منجمد کردیتا ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے "سارا کچھ قسمت ہی ہے" یہ جامد فلسفہ ہے۔ اس کا مطلب تو پھر یہ ہوا کہ انسان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے اور کچھ بھی نہ کرے، جبکہ ایسا نہیں ہے۔ کچھ مقامات پر انسان کا اختیار نہیں چلتا وہاں پر اس کو قبول کرنے کا حکم ہے۔ اللہ نے کوئی بھی فلسفہ نامکمل نہیں بنایا، انسان کو اختیار کا دائرہ دیا ہے او ر اس کے ساتھ قبول کرنے کا دائرہ بھی ہے۔ دائرہ اختیار اور دائرہ قبولیت کے مجموعے کا نام تقدیر ہے۔
ایسا فلسفہ جو آپ کو منفیت کی طرف کھینچتاہے۔
ایسا فلسفہ جو آپ کی ذات میں آپ پر شک پیدا کرتا ہے اور آپ کو احساسِ کمتری میں مبتلا کرکے آگے بڑھنے سے روک رہا ہے۔
اپنے ساتھ بیٹھ کر یہ فیصلہ کریں کہ میں جس زاویے سے زندگی کو سوچ رہاہوں وہ سوچنے والا ہے بھی کہ نہیں؟ جب یہ آپ یہ عمل سنجیدگی کے ساتھ کریں گے تو آپ بہت ہی آسانی کے ساتھ دائرہ اختیار میں آجائیں گے اور اپنے دائرہ قبولیت کو بھی بہترین انداز میں متعین کرلیں گے۔ زندگی کے تمام شعبوں میں انسان کو کہیں پر پورا پورا اختیار ہے اور کہیں پر پوری پوری قبولیت ہے۔ کہیں پر تھوڑا سا اختیار ہے اور باقی قبولیت ہے اور کہیں پر بہت ساری قبولیت اور تھوڑا سا اختیار ہے۔ یہ سب کے سب زندگی کے فارمولے ہیں، جب آ پ اس میں ناکام ہوں گے تو پھر آپ سارا کچھ قسمت پر ڈالیں گے۔ حالانکہ انسان دنیا کی واحد مخلوق ہے جس کا دائرہ اختیار سب سے بڑا ہے۔ اس کے علاوہ باقی جتنی بھی مخلوقات ہیں وہ آج سے ہزاروں سال پہلے جس کیفیت میں تھیں، آج بھی وہی ہیں۔ شیر کی مثال لے لیں وہ جب سے پیدا ہوا ہے کچا گوشت کھارہا ہے اور آج تک کھارہا ہے جبکہ انسان ترقی کرتے کرتے آج چاند تک پہنچ گیا ہے۔ انسان جہاز میں بیٹھتا ہے اور فقط دوگھنٹے بعد اترکر دیکھتا ہے تو وہ تاشقند میں ہوتا ہے۔ یہ انسان کے دائرۂ اختیار کی انتہا ہے، اسی لیے وہ روزِمحشرجواب دہ بھی ہے۔ اختیار کے دائرے کو استعمال میں لاکر انسان بڑی سے بڑی ترقی پاسکتا ہے، اسی کی بدولت مختلف طرح کے عظیم انسان رومی، اقبال، غالب اور قائد اعظم پیدا ہوئے۔
جو انسان دائرہ اختیار کو نہیں مانتا تو وہ پھر بے بسی میں آجاتا ہے اور بے بسی کے دائرے میں انسان کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ پھر وہ ہر طرح کے حقائق کو صرف قسمت کا کھیل سمجھ لیتا ہے۔ اس غلط نظریے کی وجہ سے وہ اپنی محنت و ہمت سے مایوس اوراللہ کی رحمت سے ناامید ہوجاتاہے، جبکہ رحمتِ الٰہی سے ناامیدی انسان کے لیے سراسر نقصان ہے۔ کامیابی پانے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کامیاب مائنڈ سیٹ بنالیا جائے، بصورتِ دیگر پھر محنت پر یقین نہیں رہے گا اور ہر چیز کو قسمت کا کھیل ہی سمجھا جائے گا۔