پروردگارِ عالم سورۂ اسراء میں ارشاد فرماتا ہے، مفہوم: "اور آپ کے پروردگار کا حتمی فیصلہ ہے کہ تم سب اُس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا اور اگر تمہارے سامنے ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہوجائیں تو خبردار! ان سے اُف بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان سے ہمیشہ شریفانہ گفت گُو کرتے رہنا۔ اور ان کے لیے خاک ساری کے ساتھ ا پنے کاندھوں کو جُھکا دینا اور ان کے حق میں دُعا کرتے رہنا کہ پروردگار ان دونوں پر اسی طرح رحمت نازل فرما جس طرح کہ انہوں نے بچپنے میں مجھے پالا ہے۔"
ان آیات کریمہ میں والدین کا ادب اور احترام کس شائستگی کے ساتھ بتایا اور سمجھایا گیا ہے۔ اپنے رب کے علاوہ کسی کی بھی عبادت کرنے سے ممانعت کی گئی ہے اور والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ اور نیک سلوک اختیار کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ جب والدین جوان ہَوں تب اﷲ نے نہیں فرمایا کہ ان سے اُف بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں۔ اِس لیے کہ اﷲ سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ جوانی میں ایسی نوبت ہی نہیں آئے گی، اور آئے گی بھی تو یہ خود ہی نبٹ لیں گے، بڑھاپے ہی میں مجبوری والی کیفیت ہوجایا کرتی ہے۔ کندھے جھکانے والی بات جو کی گئی ہے اِس سے مراد یہ ہے کہ والدین کے آگے احتراماً سر جھکا دو۔ جب سر جھک جائے گا تو کندھے خود بہ خود جھک جائیں گے۔
پھر اﷲ رحیم و کریم کا یہ بے پایاں لطف و کرم ہے کہ اُس نے ہمیں والدینِ کرام کے حق میں دُعا کرنے کا سلیقہ ہی عطا نہیں کیا، الفاظ بھی عطا فرمائے کہ اِس طرح دُعا کیا کرو۔ بہترین اور اعلیٰ ترین اندازِ دُعا سکھایا گیا ہے۔ فی زمانہ ہم دیکھتے ہیں کہ والدین کی قدر کرنے والے کس قدر کم لوگ ہیں۔ یہ بھی ہمارا روزمرّہ کا مشاہدہ ہے کہ جس کسی نے بھی اپنے والدین کو راضی رکھا، اُس کے نہ صرف دُنیاوی اُمور سنور گئے بل کہ تمام تر اُخروی فوائد اور حسنات بھی اُس کا مقدر بن گئے، اور جس نے اِس کے برعکس عمل کیا، اسے دُنیا و آخرت میں خسارے کے سوا کچھ نہ ملا۔
رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں ایک شخص اذنِ جہاد کے لیے حاضر ہوا تو آپ ؐ نے فرمایا: " کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں؟ " اُس نے کہا: بے شک۔ تو آپؐ نے فرمایا: "جاؤ اُن کی خدمت کرو کہ یہی جہاد ہے۔"
والدین کے حق میں حضرت امام سیّدِ سجادؓ کی دُعا کے الفاظ یہ ہیں، جو یقیناً ہماری راہ نمائی کررہے ہیں : "پروردگار! کہاں میری تربیت میں ان کی مسلسل مشغولیت، کہاں میری حفاظت میں اُن کی شدید زحمت، کہاں میرے لیے وسعت فراہم کرنے میں ان کی اپنے نفس پر تنگی اور کہاں میں، وہ تو مجھ سے اپنا حق بھی نہیں مانگتے ہیں اور میں یہ جانتا بھی نہیں ہوں کہ مجھ پر کس قدر ان کا حق ہے اور میں ان کی خدمت کا حق ادا بھی نہیں کرسکتا ہوں۔"
عزیزو! اﷲ اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم تک پہنچنے کے لیے ماں اور باپ زینے کی پہلی سیڑھی ہیں۔ اگر کوئی پہلی سیڑھی تک ہی نہیں پہنچا تو منزلِ مقصود تک پہنچنا اُس کے لیے یقیناً ناممکن ہوگا۔ ماں اور باپ کے حقوق اور اُن کی اہمیت مسلّمہ ہے۔ دُنیا کے ہر مذہب میں ماں اور باپ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ دینِ مبین اسلام میں والدین کو اﷲ اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ و سلم کے بعد سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔
اﷲ رحمن و رحیم ہم سب کو یہ توفیق اور سعادت کرامت فرمائے کہ ہمارے والدین ہمیں دیکھ کر خوش ہَوں اور ہم اُن کی خدمت میں دن رات مصروفِ عمل رہ کر خوش نودیِ خدا و رسول صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم حاصل کریں۔ سچ یہی ہے کہ ہمارے والدین ہی ہماری عظیم القدر جنّت ہیں۔ اﷲ کرے کہ ہم اپنی جنت کی صحیح معنوں میں قدر کریں۔