Saturday, 23 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Army Chief Ka Dora e America

Army Chief Ka Dora e America

بطور فور اسٹار جنرل ترقی پانے کے بعد عاصم منیر پاکستانی فوج کے 17 ویں سربراہ بن گئے۔ پاکستان میں فوج کے سیاسی کردار اور سول و عسکری اداروں کے درمیان جاری اختیارات کی کشمکش کی طویل تاریخ کے باعث اس عہدے پر تقرری کو ہمیشہ اہمیت حاصل رہی ہے۔

قیام پاکستان سے اب تک پاکستان کے سربراہان کی طرف سے امریکہ کے درجنوں دورے کیے جا چکے ہیں جن سے امریکہ پاکستان تعلقات میں اتار چڑھاؤ کی صورت حال کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

پاکستانی سربراہان کی طرف سے امریکہ کے سرکاری دوروں کی ابتدا 1950ء میں ہوئی جب پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان اس وقت کے امریکی صدر ہیری ٹرومین کی دعوت پر خاتون اول بیگم رعنا لیاقت علی خان کے ہمراہ 3 مئی کو تین روزہ دورے پر واشنگٹن پہنچے۔۔

لیاقت علی خان کے اس دورے نے امریکہ اور پاکستان کے درمیان خصوصی اور قریبی تعلقات کی بنیاد رکھ دی۔

جنرل عاصم منیر ایک ایسے وقت میں امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں جب پاکستان کو اقتصادی، سیاسی اور سیکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے۔

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں اور امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے بعد اب پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بظاہر گرم جوشی باقی نہیں رہی۔

لیکن دفاعی امور کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس تمام صورتِ حال کے باوجود پاکستانی اور امریکی فوج کے تعلقات ہمیشہ خوش گوار رہے ہیں۔ اگر کبھی ان تعلقات میں کوئی دوری بھی پیدا ہوئی تو پینٹاگان اور جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) نے اس کو دور کیا۔

عموماً پاکستانی فوج کے سربراہ تعیناتی کے فوری بعد چین اور امریکہ جاتے ہیں۔ آرمی چیف نے چین کا دورہ تو کر لیا، لیکن امریکہ کا دورہ ایک برس بعد کر رہے ہیں۔ دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستان کے پاس امریکی ایف سولہ جہاز استعمال ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بحریہ کی مختلف ضروریات کے لیے بھی ہمارا انحصار امریکہ پر ہے۔ پاک امریکہ تربیتی پروگرامز بھی عرصہ دراز سے بند ہیں۔ لہذا امکان ہے کہ پاکستان کی دفاعی ضروریات کے حوالے سے بات چیت کی جائے گی۔

اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت ہے، امید ہے کہ دورہ امریکہ میں اس بارے میں بات ہوگی اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ساتھ جاری پاکستان کے اہم مسائل پر بات ہوگی۔

دورۂ امریکہ کے دوران غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کی ملک بدری کا معاملہ بھی زیرِ بحث آسکتا ہے، اس کے علاوہ پاک، چین تعلقات اور پاک روس تعلقات بھی زیرِ بحث آسکتے ہیں۔

پاکستان میں نئے انتخابات کا انعقاد ہونے جا رہا ہے۔ لہذا امکان ہے کہ ملک کے اندرونی سیاسی حالات کے بارے میں بھی بات کی جائے گی۔ پاک امریکہ تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں خاص طور پر نائن الیون کے واقعہ کے بعد امریکہ کی افغان جنگ میں پاکستان سے توقعات سے پاکستان کو ناقابل تلافی جانی اور مالی نقصان پہنچا مگر پاکستان ایٹمی قوت ہونے باوجود دنیا میں تنہا رہنا افورڈ نہیں کر سکتا۔

ایتھن کیسی امریکی مصنف اور کالم نگار ہیں۔ وہ اپنی کتاب Alive and Well in Pakistan میں بذریعہ سڑک پاکستان کے سفر کی روئیداد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ 2001ء میں نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر ٹاورز پر حملوں کے نتیجے میں دس سال قبل کے امریکی جذبات کے تحت افغانستان پر حملہ کیا جاناسیاسی طور پر ناگزیر تھا۔

اْن کے بقول، اْن حالات میں، سابق صدر پرویز مشرف نے امریکہ کا ساتھ دے کر پاکستان کے ساتھ محبت کا ثبوت دیا۔

آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا حالیہ دورہ امریکہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے گزشتہ ایک سال میں اب تک 11 غیر ملکی دورے کیے، اور لگ بھگ 17 غیر ملکی سفارتی و عسکری حکام سے ملاقاتیں کیں۔ ان دوروں میں پاکستان میں سرمایہ کاری، قرضوں کی مدتِ واپسی میں توسیع اور مشترکہ دفاعی معاملات طے پائے۔ نومبر میں پاک فوج کی کمانڈ سنبھالنے کے بعد جنوری میں سعودی عرب کا دورہ کیا۔

سعودی دورے کے دوران محمد بن سلمان اور دیگر سعودی حکام سے ملاقات کی۔ دورے کے فوری بعد سعودی حکومت نے پاکستان کو دیئے گئے قرضوں کی واپسی کی مدت میں توسیع کر دی۔ سعودی عرب کے بعد آرمی چیف متحدہ عرب امارات پہنچے جہاں پاکستان میں ممکنہ سرمایہ کاری اور دفاعی معاملات طے پائے۔ 5 فروری کو برطانیہ کے دورے میں حکام کے ساتھ سٹریٹیجک سیکورٹی معاملات پر بحث ہوئی۔ ولٹن پارک میں سٹیبلٹی کانفرنس میں شرکت اور مہمان خصوصی کے طور پر خطاب بھی کیا۔

11 فروری کو آرمی چیف نے دوبارہ متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا جہاں صدر شیخ محمد بن زائد النہیان سے ملاقات میں پاکستان کے قرضوں کی مدت واپسی میں توسیع اور ایس آئی ایف سی میں زرعی اجناس، معدنیات، آئی ٹی اور دفاع کے شعبوں میں عرب سرمایہ کاری کے معاملات طے ہوئے۔ 25 اپریل کو چین کے تین روزہ دورے پر روانہ ہوئے جہاں دفاع، سی پیک اور ٹیکنالوجی کے معاملات پر معاہدے ہوئے۔ مشترکہ دفاعی معاہدے حساس نوعیت کے باعث پبلک نہیں کیے جاتے۔ 15 جولائی کو آرمی چیف نے ایران کا دو روزہ دورہ کیا جس میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی، وزیر خارجہ اور آرمی چیف سے ملاقاتوں میں علاقائی سلامتی، امریکہ ایران تعلقات اور دیگر معاملات زیر بحث آئے۔

30 جولائی کو ایک بار پھر متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا جہاں پاکستان میں ایس آئی ایف سی کے تحت زرعی اجناس، معدنیات، آئی ٹی اور دفاعی شعبہ جات میں ہونے والی سرمایہ کاری کے حتمی معاملات طے ہوئے۔ 5 ستمبر کو ازبکستان کے دورے میں ازبک صدر، وزیر دفاع اور عسکری حکام سے ملاقاتوں میں علاقائی سیکورٹی اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مشترکہ لائحہ عمل اپنانے کے معاملات طے ہوئے۔

13 ستمبر کو ترکی کے دورے کے دوران صدر طیب اردگان اور دیگر حکام سے ملاقاتوں میں علاقائی سلامتی اور مشترکہ دفاعی دلچسپی کے معاملات زیر بحث آئے۔ ترک صدر نے زلزلے کے دوران پاک فوج کی امدادی کارروائیوں بالخصوص اربن سرچ اینڈ ریسکیو ٹیموں کو بھیجے جانے پر اظہار تشکر کیا۔ آرمی چیف کی خدمات کے صلے میں انھیں ترک لیجن آف میرٹ بھی دیا گیا۔ 25 ستمبر کو پریذیڈنٹ بشپ آف پاکستان سے ملاقات میں آرمی چیف نے اقلیتوں کے مکمل تحفظ اور مذہبی آزادی فراہم کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ 24 اکتوبر کو فلسطینی سفیر سے ملاقات میں آرمی چیف نے فلسطین کی مکمل اخلاقی و سفارتی حمایت جاری رکھنے کا اعادہ کیا۔

آرمی چیف نے عالمی برادری سے فوراً جنگ بندی، غزہ میں انسانی امداد اور فلسطینی ریاست کی 1967ء کی جغرافیائی ہئیت کے مطابق قیام کا پر زور مطالبہ بھی کیا۔ 1نومبر کو جنرل سید عاصم منیر نے آذربائجان کا دورہ کیا۔ دورے کے دوران آذربائجانی عسکری حکام نے پاکستانی حمایت کو سراہا اور باہمی تعلقات کو بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا۔ 29 نومبر کو آرمی چیف تیسری مرتبہ متحدہ عرب امارات اور کویت پہنچے جہاں پاکستان میں سرمایہ کاری کے شعبہ جات پر حتمی مفصل گفتگو ہوئی۔ غیر ملکی دوروں کے علاوہ آرمی چیف سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، سری لنکا اور چین سمیت 17 سفارتی و عسکری حکام کے ساتھ ملاقاتیں بھی کر چکے ہیں۔

گذشتہ روز سے امریکا کا شروع ہونے والا دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ آرمی چیف اپنی کمانڈ سنبھالنے کے بعد پہلی دفعہ امریکہ کا سرکاری دورہ کر رہے ہیں - اِس دورے میں انکی امریکی اہم ترین عہدیداروں سے ملاقاتیں متوقع ہیں۔ دورہ میں امریکا اور پاکستان کے درمیان کاؤنٹر ٹیررازم پر تعاون، ملٹری ٹو ملٹری کوآپریشن، افغانستان سے پیدا ہونے والی صورت حال، اکنامک اور انویسٹمنٹ کے امور پر بات چیت کی جائے گی۔ پاکستان اور امریکا کے باہمی تعلقات اِس دورے سے مزید مضبوط اور بہتر ہونگے۔