سات برس پہلے جب پیرنی منظر عام پر آئیں میں نے ایک ویڈیو بنائی کہ یہ عورت جنرل فیض کی پلانٹڈ ہے اور فیض کی مخبریاں علم غیب بنا کر نیازی کو فیض بانٹ رہی ہیں۔ فرح گوگی کو بھی میں نے بے نقاب کیا اور اس کی کرپشن سے متعلق ویڈیو اپنے سوشل میڈیا پر لگائی۔
تحریک انتشار نے مجھے انتہائی غلیظ گالیوں سے نوازا مگر گزشتہ دس برس سے میں اپنے موقف پر قائم رہی اور نیازی فیض گٹھ جوڑ کے خلاف کھل کر لکھتی بولتی رہی۔ رشتے دار دوست محلے دار سب مجھے تنقید کا نشانہ بناتے رہے اور کہتے تھے اللہ نیازی کے ساتھ ہے، پیرنی پہنچی ہوئی ہے وغیرہ۔
جنرل باجوہ کا نیازی کو سپورٹ کرنے کے خلاف بھی کھل کر تنقید کی مگر اب میرا موقف یہ ہے کہ جنرل باجوہ نے جاتے جاتے نیازی کو نکال باہر کرنے کا جو احسان ملک پر کر دیا اور اس کی پاداش میں تحریک انتشار سے جو نفرت اور گالم گلوچ اپنی جھولی میں سمیٹ لی جنرل باجوہ اپنے حصے کی سزا بھگت گئے البتہ اصل مجرم جنرل فیض کا جرم فوج میں بغاوت اور غداری کے زمرے میں شمار ہوتا ہے جس کی کوئی معافی نہیں۔
اللہ آرمی چیف حافظ عاصم منیر کی حفاظت فرمائے اور نیازی فیض گٹھ جوڑ کو نشان عبرت بنانے کی مہلت دے تا کہ مستقبل میں پھر کوئی آستین کا سانپ فوج جیسے ادارے میں بغاوت کا سوچ بھی نہ سکے۔ میرا ایمان ہے اللہ نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو فتنہ کی سرکوبی کے لئے منتخب فرمایا ہے، اللہ کی مدد سے ملک اس آپریشن سے کامیاب سر خرو ہو جائے پھرہی آگے بڑھ سکتا ہے۔ فیض نیازی گٹھ جوڑ کا ڈراپ سین تو قوم نے دیکھ لیا اور یہ بھی دیکھ لیا کہ پاک فوج کی حدود اور قیود اور قانون بڑا واضح اور سخت ہیں جو کوئی بھی اپنے ذاتی مفادات کو ملکی اور اداراتی مفادات سے اوپر رکھتا ہے فوج نے بارہا ثابت کر دیا ہے کہ ایسے لوگوں کے لیے کوئی معافی نہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید اور نیازی کے گٹھ جوڑ کا معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا نظر آتا ہے - نیازی کی توہم پرستی اور نیازی پر بشری کا کنٹرول دیکھتے ہْوئے، فیض نے اسے بہت جلد جانچ لیا اور اْسکا فائدہ اٹھایا اور نیازی نے بھی اپنے اقتدار کی طوالت اور سیاسی فائدے کے لیے فیض کو خوب استعمال کیا، چاہے عثمان بزدار ہو، فرح گوگی کی میگا کرپشن ہو، ملک ریاض کے ساتھ ملکر القادر ٹرسٹ کیس ہو، عدلیہ سے نیازی کے لئے سہولت کاری یا مخالفین کو بد ترین انتقام کا نشانہ بنانا، ہر جگہ فیض نیازی گٹھ جوڑ کام کرتا رہا اور جو کام فیض نے اپنے مطلب کا کروانا ہوتا تھا وہ بشریٰ کو استعمال کرکے نیازی سے کروا لیتا تھا - اِس گٹھ جوڑ کی کوئی حدود نہیں تھیں ادھر بشری-گوگی کو مکمل آزادی اور اتھارٹی حاصل تھی اور اِدھر نیازی نے بھی فیض کو اپنا الو سیدھا کرنے کی کْھلی چٹھی دی ہوئی تھی۔
اِس فیض نیازی اور بشری گٹھ جوڑ میں اتنی پختگی آ چکی تھی کہ جب کئی بار جنرل باجوا نے نیازی سے فیض کو بدلنے کا کہا تو نیازی ٹال مٹول کے ساتھ ناراض بھی ہو جاتا - حتیٰ کہ اِس گٹھ جوڑ نے یہ بھی پلان کر لیا تھا کے آرمی چیف کے لیے کمانڈ کی شرط کو پورا کرنے کے لیے آئی ایس آئی کو ہی کمانڈ بنا دیا جائے کیونکہ پلان یہ تھا کے فیض اور نیازی آرمی چیف اور وزیر اعظم بالترتیب ایک لمبے عرصے تک رہ سکیں - جب ایسا نہ ہوا اور جنرل باجوا نے نیازی کی نہ سنی اور فیض کو ہٹا دیا تو بشریٰ اور نیازی نے جنرل باجوا کے خلاف بھی محاذ کھول لیا - فیض پشاور سے بھی بشریٰ کے ذریعے اپنے آرمی چیف بننے کے منصوبے پر عمل در آمد کے لیے سازشیں بنتا رہا۔
فیض نے آرمی چیف نہ بن سکنے اور ریٹائرمنٹ کے بعد نیازی-بشری کے ساتھ ملکر سیاسی ماحول کو گندا اور غیر مستحکم کرنے کا پلان بنایا جس میں اسٹیبلشمنٹ پر پریشر بڑھانے کے لیے مختلف طریقوں سے انتشار، پروپیگنڈا، فیک نیوز کے ذریعے ملک میں ہیجان قائم رکھنے کے لیے فیض نیازی اور بشریٰ گٹھ جوڑ نے ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کر دیا - نیازی کے اڈیالہ جانے کے بعد پہلے بشریٰ کے ساتھ ملکر فیض نے پی ٹی آئی کو ہنگامہ آرائی کے لیے متحرک کیا اور جب بشریٰ بھی پکڑی گئی تو پسِ پردہ بیٹھ کر فیض نے کچھ اور ریٹائرڈ منظور نظر آفیسرز کو پی ٹی آئی کو پیغام رسانی اور سہولت کاری میں استعمال کیا جو اب آہستہ آہستہ پکڑے جا رہے ہیں یوں فیض کے پکڑے جانے پر فیض نیازی گٹھ جوڑ جسکا اولین کردار بشریٰ ہے، پوری طرح ایکسپوز ہو چکا ہے۔
فیض نیازی گٹھ جوڑ • جنرل فیض کو تحویل میں لیا جانا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے کیونکہ یہ ایک انتہائی باا ثر اور طاقتور ڈی جی آئی ایس آئی رہ چْکے ہیں۔ اِنکی حراست اِس بات کا عندیہ ہے کہ معاملات یہاں تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ اِس سلسلے میں مزید گرفتاریاں اور انکشافات کی توقع ہے۔ جنرل فیض حمید اور عمران خان کا گٹھ جوڑ اْس وقت سے ہے جب وہ ڈی جی سی تھے۔ عمران خان یہ سمجھتا تھا کہ شائد آئی ایس آئی، پولیس اور آئی بی میں کوئی فرق نہیں اور وہ قومی سلامتی کے تناظر میں پاکستان کے اس انتہائی اہم ادارے کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے بلا شرکت غیرے استعمال کر سکتا ہے۔
جنرل فیض نے عمران کی اس سوچ کو عملی جامہ پہنایا اور عمران کی توقعات کے عین مطابق اسکے سیاسی عزائم کی تکمیل کے لیے اپنے تفویض کردہ اختیارات سے تجاوز کے مرتکب ہوئے۔ فیض نیازی گٹھ جوڑ اور اِس کے نتیجے میں رچائے جانے والے سیاسی کھیل کی وجہ سے پاک فوج میں شدید بے چینی پائی گئی اور جنرل فیض کی سیاسی سرگرمیوں کو ہمیشہ ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ اْس وقت کے چیف ا?ف ا?رمی سٹاف جنرل (ر) قمر باجوہ نے بھی جنرل فیض اور عمران کے سیاسی گٹھ جوڑ کو پسند نہیں کیا اور اندرونی ذرائع کے مطابق انہوں نے ہمیشہ اس کی حوصلہ شکنی کی۔ یہی ناپسندیدگی بعد میں جنرل فیض کی آئی ایس آئی سے معزولی اورجنرل باجوہ اور عمران کے باہمی تعلقات میں کشیدگی کا باعث بنی۔
آئی ایس آئی سے جانے کے بعد بطور کور کمانڈر پشاور فیض حمید اپنی سیاسی سرگرمیوں سے باز نہیں آئے اور عمران کے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے اپنے ادارے کی عزت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عمران کے فرنٹ مین کے طور اپنے سیاسی اثر و رسوخ کا بے دریغ استعمال کیا۔ عمران کا فیض حمید کو اپنا اثاثہ قرار دینا اِس امر کی غمازی کرتا ہے کہ فیض حمید نے عمران کی 'سیاسی خدمات' میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔
حقیقت یہ ہیکہ کوئی فردِ واحد اثاثہ نہیں ہوتا بلکہ ادارے اثاثہ ہوتے ہیں۔ بلا شبہ آئی ایس آئی ہمارے ملک کا قیمتی اثاثہ ہے لیکن فیض حمید نے اپنے اور عمران کے ذاتی مفادات کے لیے اِس قومی اثاثے کا انتہائی غلط استعمال کیا۔ یہ نہ صرف ادارے کے لیے شدید نقصان دہ ثابت ہوا بلکہ یہ ادارے کے اْس وقت کے سربراہ جنرل باجوہ کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف تھا کیونکہ فیض حمید اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے متعدد بار ایسے اقدامات کے مرتکب ہوئے جس میں سربراہ پاک فوج کو بائی پاس کیا گیا۔
آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے مطابق فیض حمید فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی عمران کی سیاسی حمایت میں سرگرم رہے جو آرمی ایکٹ کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ فیض حمید نے اپنے بااعتماد ریٹائرڈ فوجی افسران کے ساتھ مل کے کئی ایسے اقدامات اٹھائے جو نا صرف غیر قانونی بلکہ ادارے کے پیشہ ورانہ تشخص کے منافی تھے۔