حدیث مبارکہ ہے جس نے کسی مسلمان کے ساتھ بددیانتی کی یا دھوکا دیا وہ ہم سے نہیں۔ (جامع الاحادیث۔۔ سورہ آل عمران میں فرمایا گیا:اور کسی نبی سے یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ مال غنیمت میں خیانت کرے اور جو کوئی خیانت کرے گا، وہ قیامت کے دن وہ چیز لے کر آئے گا، جو اس نے خیانت کر کے لی ہو گی، پھر ہر شخص کو اس کے کئے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر کوئی ظلم نہیں ہو گا۔
حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ خاتم النبیین حضرت محمد ؐ نے ہمارے درمیان کھڑے ہوکر (مال غنیمت/ سرکاری خزانے میں) خیانت کا تذکرہ فرمایا، پس اسے اور اس کے معاملے کو بہت بڑا بتایا، فرمایا: "قیامت کے دن میں تم میں سے کسی ایک کو ایسا ہرگز نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر منمناتی بکری ہو، اس کی گردن پرہنہناتاگھوڑا ہو، وہ کہے گا:(اے اللہ کے رسولؐ مدد فرمائیے) تو میں کہوں گا: میں تیرے لئے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا، میں نے تجھ تک بات پہنچا دی تھی، (میں ہرگز نہ پاؤں کسی شخص کو کہ) اس کی گردن پر۔ آوازیں نکالتا اونٹ ہو، وہ کہے کہ: (اے اللہ کے رسول ؐمدد فرمائیے) تو میں کہوں: میں تیرے لئے کسی چیز کا مالک نہیں، میں کسی کو ایسا ہرگز نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر سونے چاندی کا بوجھ ہو، ملک و قوم کی دولت سرکاری تحائف و مراعات وغیرہ سے معمولی سی شے میں خیانت و بد دیانتی کا حساب پروردگار کی عدالت میں ہو گیاتو ساری ایمانداری کا بے نقاب ہو جائے گا۔ کسی ایک شہری نے بھی حاکم کے خلاف گواہی دے دی تو ایمانداری لفظ کی لگ سمجھ جائے گی۔
دنیا کی عدالت سے وردی عوامی سوٹ اور سوٹ ٹائی والے سب صاف نکل جاتے ہیں لیکن ایک پیسے کی بھی ہیرا پھیری ثابت ہو گئی تو اللہ کی عدالت میں یہ سارے چور ڈاکو بد دیانت کہلائے جائیں گے۔ بڑی عدالت کے حساب و انصاف سے عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ جیسے عادل بھی کپکپا رہے ہیں اور زندگی میں خود کو کبھی سر خرو یا ایماندار نہ سمجھا بلکہ اہل خانہ کے حوالہ سے باز پرس سے بھی خوفزدہ رہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓما نے کچھ اونٹ خریدے اور سرکاری چراگاہ میں چرنے کے لئے بھیج دیئے، فربہ ہو گئے تو فروخت کرنے کے لئے بازار لے گئے۔ سیدنافاروق اعظمؓ نے بازار میں دیکھا تو دریافت کیا یہ فربہ اونٹ کس کے ہیں؟ بتایا گیا عبداللہ بن عمر کے ہیں۔ امیر المومنین نے انہیں طلب کیا اور کیفیت معلوم کی۔ انہوں نے عرض کیا میں نے انہیں خریدا اور چراگاہ میں بھیج دیا، اس سے جس طرح دیگر مسلمانوں کو فائدہ اٹھانے کا حق ہے میں نے بھی وہی فائدہ اٹھانا چاہا۔ فرمایا: امیر المومنین کا بیٹا ہونے کی وجہ سے سرکاری ملازموں نے تمہارے اونٹوں کی نگہداشت کی خود تم نے اس پر ملازم نہ رکھا اس لئے انصاف یہ ہے کہ اونٹ بیچ کر اپنا راس المال لے لو اور باقی رقم سرکاری خزانہ میں داخل کرو، حاکم وقت امیر المومنین اور خلیفہ وقت کے بیٹے کے ساتھ یہ سلوک اورکہاں پاکستان کے حکمران اور ان کے خاندان۔
اللہ کی عدالت میں 24کروڑ عوام میں ایک بڑھیا بھی شکایت لے کر پہنچ گئی تو قبر عذاب کا گڑھا بنے گی۔ تقاریر میں مثالیں عمر فاروق کی دیتے ہیں اور عمل ان کے جوتے کی نوک کے برابر بھی نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ایک مرتبہ اپنے عوام کے حالات کا مشاہدہ فرمانے کے لئے گشت کر رہے تھے کہ ایک بڑھیا عورت کو اپنے خیمہ میں بیٹھے دیکھا آپ اس کے پاس پہنچے اور اس سے پوچھا اے ضعیفہ! عمر کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟ وہ بولی خدا عمر کا بھلا نہ کرے۔
حضرت عمر بولے یہ تم نے بددعا کیوں کی؟ عمر سے کیا قصور سرزد ہوا ہے؟ وہ بولی، عمر نے آج تک مجھ غریب بڑھیا کی خبر نہیں لی اور مجھے کچھ نہیں دیا۔ حضرت عمر بولے مگر عمر کو کیا خبر کہ اس خیمہ میں امداد کی مستحق ایک ضعیفہ رہتی ہے۔ وہ بولی سبحان اللہ، ایک شخص لوگوں پر امیر مقرر ہو اور پھر وہ اپنی مملکت کے مشرق و مغرب سے ناواقف ہو؟ تعجب کی بات ہے۔ یہ بات سن کر حضرت عمر رو پڑے اور خودکو مخاطب فرما کر بولے، اے عمر! تجھ سے تو یہ بڑھیا ہی دانا نکلی۔ پھر آپ نے اس بڑھیا سے فرمایا اے اللہ کی بندی! یہ تکلیف جو تمہیں عمر سے پہنچی ہے تم میرے ہاتھوں کتنے داموں میں بیچوگی، میں چاہتا ہوں کہ عمر کی یہ لغزش تم سے قیمتاً خرید لوں اور عمر کو بچا لوں۔
بڑھیا بولی بھئی مجھ سے مذاق کیوں کرتے ہو۔ فرمایا، نہیں میں مذاق ہرگز نہیں کرتا ہوں سچ کہہ رہا ہوں کہ تم یہ عمر سے پہنچی ہوئی اپنی تکلیف بیچ دو، میں تم کو جو مانگوگی اس کی قیمت دے دوں گا۔ بڑھیا بولی تو پچیس دینار دے دو، یہ باتیں ہورہی تھیں کہ اتنے میں حضرت ابن مسعودؓ تشریف لے آئے اور آکر کہا، السلام علیک یا امیر المومنین! بڑھیا نے جب امیر المومنین کا لفظ سنا تو بڑی پریشان ہوئی اور اپنا ہاتھ پیشانی پر رکھ کر بولی، غضب ہوگیا یہ تو خود ہی امیر المومنین عمر ہے اور میں نے انہیں منہ پر ہی کیا کچھ کہہ دیا۔
حضرت عمر نے بڑھیا کی یہ پریشانی دیکھی تو فرمایا ضعیفہ گھبراؤ مت، خدا تم پر رحم فرمائے تم بالکل سچی ہو، پھر آپ نے ایک تحریر لکھی جس کی عبارت بسم اللہ کے بعد یہ تھی کہ "یہ تحریر اس امر کے متعلق ہے کہ عمر بن خطاب نے اس ضعیفہ سے اپنی لغزش اور اس ضعیفہ کی پریشانی جو عمر کے عہد خلافت سے لے کر آج تک واقع ہوئی ہے پچیس دینار پر خرید لی، اب یہ بڑھیا قیامت کے دن اللہ کے سامنے عمر کی کوئی شکایت نہ کرے گی اب عمر اس لغزش سے بری ہے۔ اس بیع پر ابن مسعودؓما گواہ ہیں۔ "
یہ تحریر لکھ کر بڑھیا کو پچیس دینار دے دئیے اور اس قطع تحریر کو حضرت عمر نے اپنے صاحبزادے کو دے دیا اور فرمایا جب میں مروں تو میرے کفن میں اس تحریر کو رکھ دینا۔ "، عمر جیسی عظیم عالی شان ہستی کو بھی اپنے سر خرو اور ایماندار ہونے پر شبہ تھا۔
--