رب العزت کی اپنے حبیب سے محبت کو کوئی انسان بیان کر ہی نہیں سکتا سوائے خود رب العزت کے۔ نبی کریم ؐنے فرمایا کہ تم لوگ مجھ پر "صلوٰۃ" کا حق ادا کرنا چاہو بھی تو نہیں کر سکتے، اس لئے اللہ ہی سے دعا کرو کہ وہ مجھ پر صلوٰۃ فرمائے۔" حقیقت میں بندہ گنہگار کی حیثیت ہی کیا ہے۔ نبی کریم ؐ کے احسانات کا بدلہ بندے نہیں ادا کر سکتے۔ اللہ ہی ان کا اجر دے سکتا ہے حتیٰ کہ ہمارے دلوں میں نبی کریم ؐکی محبت اور اطاعت بھی اللہ ہی پیدا کر سکتا ہے لہٰذا محسنِ انسانیت نے بندے کو اپنے خدا سے بات کرنے اور مانگنے کا قرینہ بھی سکھا دیا ہے کہ وہ اللہ کے حضور اپنے عجز کا اعتراف کرتے ہوئے عرض کرتا ہے کہ اے اللہ! تیرے نبی پر صلوٰۃ کا جو حق ہے اسے ادا کرنا میرے بس میں نہیں، تْو ہی میری طرف سے اس کو ادا کر اور مجھ سے اس کے ادا کرنے میں جو خدمت چاہے لے لے۔
حضورؐ نے اصحابہ کرامؓ کوجو درود سکھائے ہیں ان میں یہ بات ضرور شامل ہے کہ آپ پر ویسی ہی مہربانی فرمائی جائے جیسی ابراہیم ؑاور آل ابراہیم پر فرمائی گئی ہے۔ نبی کریمؐ کے ارشاد کی منشا یہ ہے کہ کوئی ایسا شخص جو نبوت کا ماننے والا ہو، میری نبوت پر ایمان لانے سے محروم نہ رہ جائے۔ بندہ اپنے خوابوں اور کشف و کرامات کا نہیں اپنے اعمال کا مکلف ہے۔ فنا فی الرسول اْمتی دنیا سے بے نیاز ہو جاتا ہے، دنیا میں ضرورت کی حد تک رہنا پسند کرتاہے اور دنیاکی غلاظت سے اپنا دامن بچانے کی سعی میں لگا رہتا ہے، ایسے ہی جیسے کشتی دریا میں ہوتی ہے مگر مسافر اپنے کپڑوں کو بھیگنے سے بچانا چاہتا ہے۔ مومن دنیا میں ہوتا ہے، دنیا کے دل میں بستا ہے مگر دنیا کو اپنے دل میں بسنے نہیں دیتا۔
میلاد کی محافل سجانے سے نعت خوانوں اور قوالوں کو روزگار مل جاتا ہے اور سْننے والوں کو عارضی سکون میسر آتا ہے البتہ عشق نبی ؐ پانے کے لئے دنیا کے پْل صراط عبور کرنے پڑتے ہیں، نفس کی چکی میں پسنا پڑتا ہے۔ نبی کریمؐ کی شان کریمی پر نعت گوئی میں جو شرف حضرت حسان بن ثابتؓ کو حاصل ہے، ان کے بعد کسی نعت خواں کو نصیب نہ ہو سکا۔ آپ نے ساٹھ برس کی عمر میں اسلام قبول کیا اور باقی زندگی عشق نبی میں شعر گوئی کرتے گزار دی۔ آپ کی کیفیت کے بارے حضرت علامہ اقبال فرماتے ہیں (عشق نے میرے اندر آگ بھڑکا دی، زہے یہ عشق جس نے میری جان کو پھونک ڈالا) منصب ولایت کی بڑی علامت اطاعت محمدی ہے اور اطاعت نبی ہی اطاعت خداوندی ہے۔ حضرت اسمائؓ بنت یزید روایت کرتی ہیں کہ حضور ؐنے فرمایا "تم میں بہترین وہ لوگ ہیں، جن کے چہروں کو تکنا خدا کا ذکر بن جائے۔ (امام احمد بن حنبل، امام بخاری) حضرت عمر فاروقؓ سے روایت ہے کہ، نبی کریمؐ نے فرمایا "لوگو! آج میں تمہیں ایک خاص بات بتانا چاہتا ہوں، غور سے سنو، اللہ کے بندوں میں ایسے بندے ہیں جو نہ نبی ہوں گے اور نہ شہید ہوں گے لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے عرش کے آس پاس انہیں بھی اتنے مقام بلند پر بٹھائیں گے کہ انبیاء اور شہدا بھی رشک کریں گے اور عرض کریں گے کہ یا پروردگار، یہ نبی بھی نہیں شہید بھی نہیں، کیا بات ہے کہ ان کو بھی اس مقام پر بٹھایا گیا، صحابہ کرام ؓنے عرض کی، یا رسول اللہ فرمائیے وہ کون لوگ ہوں گے۔ اس مجلس میں ایک اجنبی صحابی بیٹھے تھے۔
پیچھے مجلس سے اْٹھ کر آگے آ گئے اور حیرانی سے عرض کیا، یا رسول اللہ، آپ نے کیا عجیب بات فرمائی ہے، وضاحت فرمائیں تاکہ ہم ان لوگوں کو پہچان سکیں۔ حضور ؐ نے فرمایا، وہ لوگ مختلف علاقوں سے ہوں گے، مختلف شہروں سے ہوں گے، ان کے درمیان نہ رشتہ داری ہو گی، نہ ایک دوسرے کو جانتے ہوں گے مگر قیامت کے دن جب وہ آئیں گے، اللہ فرمائے گا، ان کے لئے نور کے منبر بچھا دو، اللہ پاک اپنے دستِ کرامت سے انہیں نور کی مجلسوں میں بٹھائے گا، پھر ان کے چہروں کو اللہ نور کر دے گا، ان کے لباس نور ہو جائیں گے۔ ہر شخص قیامت کے دن جب تھرتھر کانپ رہا ہو گا، انہیں نہ خوف ہو گا نہ غمزدہ ہوں گے۔ یہ اولیاء اللہ ہوں گے۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ؐ سے پوچھا گیا کہ "یا رسول اللہ، اولیاء اللہ کیا ہوتے ہیں، حضور نے فرمایا "اللہ کے ولی وہ لوگ ہوتے ہیں کہ انہیں دیکھا جائے تو خدا یاد آ جائے۔"۔۔۔ امت آقا ؐ سے نسبت کا دم بھرتی ہے مگر اعمال اس قابل نہیں رہے کہ ہم اللہ کے حبیب سے محبت کا دعویٰ کر سکیں۔ محبت تو اللہ نے کی ہے اپنے حبیب سے، اس محبت پر لاکھوں سلام۔