Wednesday, 06 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Kahani Ambulance Ki

Kahani Ambulance Ki

وہ 9جون کی تاریک شب تھی۔ ایک خوفناک طوفانی رات لال رنگ کی گاڑی کو بہا لے گئی۔ نیویارک پولیس آئی دونوں سہیلیوں کو ایمبولینس میں ڈال کر ہسپتال لے گئی۔ ایک بچ گئی دوسری رب سے جا ملی۔ رب کو جانے کیا منظور تھا اپنے پاس بلا کر اس سے وہ کام لینے شروع کر دئیے جو شاید وہ اپنی زندگی میں کبھی نہ کر پاتی۔ آج گیارہ برس بیت گئے اسے ہم سے بچھڑے۔

ان گیارہ برسوں میں مومنہ چیمہ فائونڈیشن کی بدولت ہزاروں ضرورتمند طالبات پروفیشنل ڈگریاں وصول کر چکی ہیں۔ گلگت بلتستان کے دور افتادہ پہاڑوں کے سفید پوش مکین جن تک پہنچنا آسان نہیں وہ پہنچ جاتی ہے اور انہیں طبی سہولیات پہنچاتی ہے۔ ہسپتال بنوا رہی ہے۔ ادویات پہنچاتی ہے۔ ننھے بچوں کے لئے سکول بھی بنوا دیا ہے۔ بلتستان کے پہاڑی علاقوں میں چشمے نکال دئیے ہیں۔ گدلا مٹی کا پانی پینے والوں کے لئے گہری بورنگ سے کنویں کھدوا دئیے۔ اور تو اور اپنا آخری سفر تک نہیں بھولی کہ کس طرح طوفانی رات میں اسے ایمبولینس میں ڈال کر لے جایا گیا تھا۔

اس نے بلتستان کے پہاڑوں میں اپنی ایمبولینس سروس بھی شروع کرادی۔ آج جب ضلع شگر کے دیہات سے مریضوں کو سکردو ہسپتال پہنچایا جاتا ہے تو مومنہ بہشتی مسکرا دیتی ہے۔ واہ میرے مولا تو اپنے بندوں سے کن کن طریقوں سے کام لینا جانتا ہے۔ ان دنوں کالج میں پڑھتی تھی جب اس نے اپنے پاپا سے آبائی گائوں میں سکول کھولنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا تو اس کے پاپا نے سمجھایا کہ امریکہ سے جا کر پاکستان کے دیہی علاقے میں آپ کے لئے خواب پورا کرنا مشکل ہوگا۔ پھر اس نے امریکہ میں رہ کر مسلمان قیدیوں کی فری معاونت کا عزم کیا۔

قانون کی ڈگری لینے میں ابھی دو سال رہتے تھے کہ رب نے اسے صدقہ جاریہ کی ڈگری سے نواز دیا۔ اب وہ بہت خوش ہے کہ زندگی میں اتنے مختصر عرصہ میں وہ بہت کچھ نہیں کر سکتی تھی جو اس دنیا سے جانے کے بعد رب اس سے کروا رہا ہے۔ پاکستان کے مستحق افراد کے لئے وہ بہت کچھ کرنا چاہتی تھی مگران خوابوں کو پورا کرنے کے لئے اسے جان پر کھیل جانا تھاسو وہ کھیل گئی۔ اس نے ماں باپ بلکہ پورے خاندان کو اپنی ذمہ داریوں میں مصروف کر رکھا ہے۔

ہمیں بھی وہاں ذمہ داریاں سونپ دیں جہاں آنا جانا آسان نہیں۔ بذریعہ گاڑی دو دن کا سفر بذریعہ جہاز مہنگے ٹکٹ اور وہ بھی موسم گرما میں سیٹ نہیں ملتی۔ سیاحوں کا رحجان اب دن بدن گلگت بلتستان کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہم سکردو گزشتہ برس 2021 اگست میں پہلی مرتبہ گئے تھے۔ سیر سپاٹے کے لئے خوبصورت مقامات ہیں مگر دور افتادہ مشکل راستوں میں آباد دیہات اور وادیوں کے مقامی آبادیوں کے بنیادی مسائل پر کم ہی لوگوں کی نظر جاتی ہے۔ نہ لوگ وہاں تفریح کرنے جاتے ہیں اور نہ مسائل کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ کم ہی مخیر حضرات ان علاقوں تک پہنچتے ہیں۔

حکومتی سطح پر بھی خاطر خواہ کام نہیں ہوتے۔ سکردو بلتستان کا بڑا شہر سمجھا جاتا ہے لیکن اس سے آگے تین اضلاع خاص طور پر ضلع شگر کی ایک لاکھ آبادی صاف پانی کے مسائل سے دوچار ہے۔ پہاڑی علاقوں میں زمین سے چشمے نکالنا بھی مہنگا اور محنت طلب مرحلہ ہوتا ہے۔ ہمارا تعلق پنجاب سے ہے۔ پنجاب کے اندر رفاعی کام مشکل نہیں لیکن ان علاقوں میں جا کر رفاعی کام کرنا جہاں سے آپ کا تعلق بھی نہ ہو زبان کلچر ماحول رہن سہن سفر اخراجات کی صعوبتیں برداشت کرنا آسان نہیں مگر جب رب کی ضرورتمند مخلوق تک پہنچنا مقصود ہو تو رب اپنے بندوں کو منتخب فرما دیتا ہے۔

کہاں حضرت ابراہیم علیہ اسلام فلسطین سے اٹھے اور اہلیہ اور بچے کو مکہ کے بیابان ریگستانوں میں چھوڑ آئے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بیوی حضرت ہاجرہ اور بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مکہ مکرمہ کے چٹیل میدان میں بیت اللہ کے قریب چھوڑ دیااور صحرا میں رب نے پانی کا چشمہ زمزم جاری کر دیا۔

اللہ بہتر جانتا ہے اپنے بندوں کو کہاں کس سے کیا کام لینا ہے۔ ہم سکردو میں لڑکیوں کی تعلیم کے سلسلے میں گئے اور آگے کئی کام ذمہ لگا دئیے۔ بنیادی مسئلہ صاف پانی ہے۔ پھر صحت اور تعلیم ہے۔ غریب بیمار لوگ دشوار راستوں اور برفباری میں سکردو ہسپتال تک جانے کی سکت نہیں رکھتے اور راستے میں ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ مومنہ کو ان بے بس مظلوم مکینوں پر یقیناً رحم آتا تھا جو اس نے ایمبولینس بھی مہیا کر دی۔ وہ جانتی ہے ایمبولینس وقت پر نہ پہنچ پائے تو بندہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔

آج جب شگر کے دیہاتوں سے مومنہ چیمہ ایمبولینس مریضوں کو سکردو لے جا رہی ہوتی ہے یہ ماں سوچتی ہے کاش میری بیٹی کو بھی ایمبولینس زندہ حالت میں ہسپتال پہنچا پاتی مگر اگلے ہی لمحے مومنہ خاموش کرا دیتی ہے کہ امی میں زندہ رہتی تو آج میری ایمبولینس ان پہاڑوں کے غریب بیماروں کی جانیں نہ بچا رہی ہوتی۔

مجھے خدمت خلق کے لئے اپنی جان کا نذرانہ دینا ہی تھا اور آپ کو میری یاد میں پاکستان لوٹ کے میرے خوابوں کو حقیقت بنانا ہی تھا یہی رب کی حکمت ہے۔