مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ، جبیں افسردہ افسردہ قدم لغزیدہ لغزیدہ۔ ماہ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ قافلے حرمین شریفین کی جانب رواں دواں ہیں۔ یوں تو اب بارہ مہینے جم غفیر رہتا ہے مگر رمضان المبارک میں رونقیں تین گناہ بڑھ جاتی ہیں۔ رب کا خاص احسان ہے کہ ہم گناہگاروں کو بار بار اپنے در کی حاضری نصیب فرماتا ہے۔
وقت پیسہ صحت زندگی سب اسی کی عطا کردہ نعمتیں ہیں اور توفیق بھی وہی عطا کرتا ہے ورنہ دنیا کے پاس بہت مال جوانی صحت ہے مگر در حبیب کی حاضری توفیق سے نصیب ہوتی ہے۔ مغربی ممالک میں ہجرت علم اور رزق کے لئے کی جاتی ہے مگر مغرب سے مشرق واپسی فقط وطن سے محبت میں ہوتی ہے اور حرمین شریفین کا سفر اور ہجرت عشق کے بغیر ناممکن ہے۔ جب مسجد نبوی کے مینار نظر آئے، اللہ کی رحمت کے آثار نظر آئے، منظر ہو بیاں کیسے الفاظ نہیں ملتے، جس وقت بھی آقا کا دربار نظر آئے، مکہ کی فضاؤں میں طیبہ کی ہواؤں میں، ہم نے تو جدھر دیکھا سرکار نظر آئے، دکھ درد کے ماروں کوغم یاد نہیں رہتے، جب سامنے آنکھوں کے غمخوار نظر آئے۔۔
طیبہ سوئے طیبہ ہے اور نظروں کے سامنے حبیب مصطفی ﷺ کا در اقدس ہے۔ نبی کریمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے" تم میں سے کوئی اُس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ مَیں اُسے اُس کے والدین، اُس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ "بلاشبہ، آپ کی ذات ہی سب سے بڑھ کر محبّت کیے جانے کے قابل ہے۔ کہیں آپ کی رضا میں اللہ کی رضا بتائی گئی۔ اگر آپ چادر لپیٹ لیں، تو اللہ پاک" یا ایّھا المزّمّل، " اور "یا ایھا المدّثر" کہہ کر مخاطب کرے، کفّار کے طعنوں پر" اِنا اعطیناک الکوثر" کی خوش خبری سُنائے۔ کہیں شاہد، کہیں مبشّر، تو کہیں نذیر پکارا گیا۔ سراجِ منیر، رؤف الرّحیم جیسے القابات سے نوازا گیا۔ اللہ کو تو یہ بھی پسند نہیں کہ کوئی اُس کے محبوبﷺ کے سامنے بلند آواز سے بات کرے۔ اُنھیں روزِ محشر شفاعت کرنے والا بنایا گیا، ساقی کوثر اور مقامِ محمود سے نوازا گیاہے۔ اِسی
طرح خالی کھوکھلے دعوؤں سے سچّا عاشقِ رسولﷺ نہیں بنا جا سکتا۔ حقیقی عاشقِ رسولﷺ تو وہی ہے، جو آپ کے لائے ہوئے پیغام پر عمل پیرا ہو۔ آپ کی سنّتوں کا اتباع کرے اور آپ کے ہر عمل کو عزیز از جان سمجھے۔ حدیثِ نبویﷺ ہے"جس نے میری سنّت سے محبّت کی، اُس نے مجھ سے محبّت کی اور جس نے مجھ سے محبّت کی، وہ میرے ساتھ جنّت میں ہوگا۔ " اور جس خوش نصیب کو آقا کا ساتھ نصیب ہوگیا اس کو بن مانگے سب کچھ عطا ہوگیا۔
رب العزت ستار العیوب ہے، بندوں کے عیب ڈھک لیتا ہے، اپنے حبیب کی امت پر خاص کرم فرماتا ہے۔ اک گناہ میرا ماپے ویکھے تے دیوے دیس نکالا، لکھ گناہ میرا مالک ویکھے تے پردے پاون والا، عدل کریں تے تھر تھر کنبن اچیاں شاناں والے، مولا فضل کریں تے بخشے جاون مَیں ورگے منہ کالے۔ بندے کا کام دل سے ایمان لانا ہے، پھر ہر منزل آسان ہوجاتی ہے۔۔ حضرت علامہ اقبال بھی فرما گئے کہ "اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی، تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن۔ من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو جاتی نہیں، تن کی دولت چھاؤں ہے، آتا ہے تن جاتا ہے تن۔ پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات، تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن۔۔ رب کو پانا ہے تو رب کے حبیب سے محبت لازم ہے۔ صحابہ کرام کی اطاعت و محبت امت کے لئے مثال ہے۔
جو اللہ اور اُس کے رسولﷺ سے محبّت کرتا ہو، اُسے چاہیے کہ وہ بلا اور آزمائش کے لیے ڈھال تیار کرلے۔ " یعنی صبرو قناعت کے لیے تیار رہے۔ آپ نے ایک مرتبہ خطبہ دیتے ہوئے فرمایا"بیٹھ جاؤ۔ " حضرت عبداللہ بن مسعودؓ مسجد میں داخل ہو رہے تھے، جب یہ الفاظ سُنے، تو وہیں دروازے پر بیٹھ گئے۔ آپ نے دیکھا، تو فرمایا "عبداللہ! اندر آجائو۔ "۔۔ آقا کے اصحاب سمعنا و اطعنا کے پابند تھے۔ فنا فی الرسول تھے۔ عشق رسول نام ہی ذات کی نفی ہے۔
مان نہ کرئیو رُوپ گھنے دا وارث کون حُسن دا
سَدا نہ رہن شاخاں ہَریاں، سَدا نہ پھُل چمن دا
سَدا نہ باغیں بُلبُل بولے، سَدا نہ باغ بہاراں
سدا نہ ماپے، حُسن جوانی، سدا نہ صحبت یاراں