نیویارک کے ساحل بحر اوقیانوس سے پرواز چھ گھنٹے سمندر کے اوپر سفر طے کرتی ہوئی شمالی افریقہ کے مغربی ساحل پر واقع کاسا بلانکا ائیر پورٹ پر لینڈ کر گئی۔ مراکش کے مغربی ساحل پر واقع "کاسا بلانکا"ملک کا سب سے بڑا شہر اور اہم اقتصادی ثقافتی مرکز ہے۔ مراکو المغرب کا ملک ہے۔ کاسا بلانکا شہر کا ائیرپورٹ سادہ اور پرانا ہے۔ ساتویں صدی میں جب عرب فاتحین پہلی بار شمالی افریقہ میں اسلام لائے تو کاسابلانکا اسلامی تعلیم کا ایک اہم مرکز بن گیا، شہر میں متعدد مساجد، مدارس اور دیگر اسلامی ادارے قائم ہوئے۔
کاسابلانکا کی سب سے نمایاں خصوصیات میں سے ایک اس کا اسلامی فن تعمیر ہے، جسے پورے شہر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ سب سے مشہور مثال حسن II مسجد ہے، جو دنیا کی سب سے بڑی مساجد میں سے ایک ہے اور جدید اسلامی فن تعمیر کا ایک شاندار نمونہ ہے۔ 1993ء میں تعمیر کی گئی اس مسجد میں پیچیدہ ٹائل ورک، آرائشی نقش و نگار اور ایک بڑے مینار کی خصوصیات ہیں۔ کاسا بلانکا میں اسلامی فن تعمیر کی دیگر قابل ذکر مثالوں میں دار المخزن محل شامل ہے، جو 19ویں صدی میں بنایا گیا تھا اور مراکش کے سلطانوں کی رہائش گاہ کے طور پر کام کرتا تھا۔
کاسا بلانکا سے شہر مراکش آدھ گھنٹے کی پرواز تھی۔ مراکش کے پرانے شہر المعروف مدینہ کے ایک روایتی گیسٹ ہاؤس میں قیام کیا۔ یہ شہر سیاحوں کا اہم مرکز جانا جاتا ہے۔ سردیوں میں یہاں کی شام ٹھنڈی ہوتی ہے وگرنہ صحرا کے سبب دن گرم ہوتا ہے۔ یہ شہر سلسلہ کوہ اطلس کے دامن کے مغرب میں واقع ہے۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو مراکش 10 ہزار سال قبل مسیح میں آباد ہوا۔
7 ویں صدی عیسوی میں ظہورِ اسلام کے بعدخلافتِ امویہ کے جرنیل عقبہ بن نافع کی قیادت میں غیور مسلمانوں نے شمالی افریقہ میں بے پناہ فتوحات اپنے نام کیں۔ یہ عقبہ بن نافع ہی تھے جنہوں نے قیروان یعنی موجودہ تیونس آباد کیا اور یوں اس غیور قافلہ نے کامیابیوں سے ہمکنار ہوتے ہو ئے 683ء تک تقریباً جدید مراکش کاتمام علاقہ فتح کر لیا۔ یوں اس سرزمین سے بحرِ ظلمات کے کالے بادل چھٹ گئے اور حق کا غلبہ ہوا اور اس فتح کے بعد اسلامی ثقافت کو سر زمینِ مراکش پر فروغ ملا اور لوگ (بالخصوص بربر) حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔
طارق بن زیاد بربر نسل سے تعلق رکھنے والے عظیم اسلامی سپہ سالار اور خلافت بنو امیہ کے جرنیل تھے۔ موسی بن نصیر نے ہسپانیہ میں "وزیگوتھ" بادشاہ کے مظالم سے تنگ عوام کے مطالبے پر طارق بن زیاد کو ہسپانیہ فتح کرنے کا حکم دیا۔ یوں عظیم سپہ سالار طارق بن زیاد اپنی مختصر فوج کے ساتھ 711ء میں ہسپانیہ پر حملہ آور ہوا اور ہسپانیہ فتح کیا۔
ثقافتی اہمیت کے لحاظ سے مراکش کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے کیونکہ کسی بھی ملک کی ثقافت اس کی رسوم و روایات، فنونِ لطیفہ، علم و ادب، فلسفہ و حکمت اور اخلاقیات کی عکاس ہوتی ہے۔۔ سر زمین مراکش نے ابنِ بطوطہ اور موسیٰ الخوارزمی جیسے عظیم سائنسدانوں اور جغرافیہ دانوں کو جنم دیا۔ مراکش میں مختلف قبائل آباد ہیں جن میں زیادہ تر مقامی قبائل مراکش کے پہاڑی علاقوں میں سکونت پذیرہیں جو اپنی روایات اور تہذیب و تمدن کے مطا بق زندگی بسر کرتے ہیں۔
مراکش کا پرانا شہر (مدینہ) تھا۔ جو لاہور کی طرح دروازوں میں بٹا ہوا ہے اور اس کے گرد فصیل ہے، اس میں اندرون لاہور ایسی تنگ گلیاں ہیں۔ یہاں کھانے پینے کی بے شمار دکانیں ہیں۔ جامع النفاء ایک وسیع و عریض میدان ہے جہاں عوامی فنکار ہمہ وقت جمع رہتے ہیں، ان میں فوک سنگر بھی ہیں، رقاص بھی اور بین بجا کر سانپوں کا تماشا دکھانے والے سپیرے بھی۔ مسجد قطبیہ 12ویں صدی کا تاریخی مینار بھی جامع النفا کے مرکز کی خاص رونق ہے۔ مراکش، المغرب میں سات تاریخی مسلمان شخصیات کے مزار ہیں۔ ان میں سے ہر ایک مشہور مسلم قاضی، عالم یا صوفی ولی تھا جو ان کے تقویٰ یا دیگر صوفیانہ صفات کی وجہ سے مشہور تھے۔
مراکش کی عورتیں بھی کثرت سے موٹر سایئکل چلاتی ہیں۔ مراکش کی تنگ گلیوں میں سائیکل اور موٹرسائیکل کے سبب سیاحوں کا چلنا مشکل ہوجاتا ہے۔ پورے شہر میں مالٹوں کے درخت جا بجا پھلوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ مراکش سے ڈیڑھ گھنٹے ڈرایئو کی مسافت کے بعد اوریکا ویلی آتی ہے۔ اوریکا وادی اطلس پہاڑی سلسلے سے پہلے ایک دلفریب شفاف پانی کے نالے کے سنگ آباد ہے۔ اطلس شمال مغربی افریقا کا ایک پہاڑی سلسلہ ہے جو مراکش، الجزائراور تیونس کے درمیان 2400 کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔
یہ پہاڑی سلسلہ بحیرہ روم اور بحر اوقیانوس کو صحرائے اعظم سے جدا کرتا ہے۔ اطلس پہاڑ کے دامن میں بربر قبیلہ آباد ہے۔ طارق بن زیاد کا تعلق بھی بربر قبیلہ سے تھا۔ مراکو میں صوفیا کرام کی قبور اس حقیقت کی علامت ہیں کہ انبیا کرام کے بعد دنیا بھر میں اسلام پھیلانے والے صوفیا کرام کے قدم ہر خطے میں موجود ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ 24 ہزار انبیاء اتارے یہ تمام سیاح بھی تھے، یقین کریں انسان جب تک اپنے کنوئیں سے باہر نہیں آتا اس پر اس وقت تک علم مہربان نہیں ہوتا۔ ہندوستان میں اسلام صوفیاء کرام نے پھیلایا تھا اور صوفیاء کرام بھی سیاح تھے، یہ اللہ تعالیٰ کی زمین سے علم کا رزق چنتے چتنے اچ شریف، لاہور، دہلی اور اجمیر شریف پہنچے اور وہاں دین کی مشعل جلا دی۔ مراکو میں اسلام کی شمع بھی صوفیا کرام کی خدمات کا انعام ہے۔