سمجھوتوں کا زمانہ دھیرے دھیرے کھسک رہا ہے۔ کبھی طلاق معیوب سمجھی جاتی تھی۔ شاذو نادر کہیں ہو جاتی تو ہچکیوں میں ایک سسکی سنائی دیتی
طلاق دے تو رہے ہو عتاب و قہر کے ساتھ
مرا شباب بھی لوٹا دو میرے مہر کے ساتھ
نکاح نامہ میں محبت کا خانہ نہیں ہوتا اور نہ ہی محبت حق مہر سے خریدی جا سکتی ہے۔ محبت ہو جاتی ہے۔ اگر شوہر سے محبت ہو جائے تو خوش بختی ہے ورنہ محبت آزمائش بن کر ساری زندگی عورت کا امتحان لیتی ہے۔ بھارتی فلم مغل اعظم سے متاثر ہو کر گھر سے بھاگنے کا زمانہ گزر گیا۔ اب گھر سے بھگانے کا دور آگیا ہے۔ الا ما شا اللہ والدین لڑکیوں کی بڑھتی ہوئی عمر کے ہاتھوں اس قدر مجبور ہو رہے ہیں کہ کوئی آئے اور ان کی لڑکی کو بھگا کر لے جائے۔ کوئی پھانس لے یا پھنس جائے بس کسی طرح سے اپنے گھر کی ہو جائے۔ مرضی سے بھاگے گی تو والدین رشتہ کی تلاش کیلئے مارا ماری جہیز کے جھنجھٹ شادی بارات کے اخراجات جیسے مسائل سے بھی جان خلاصی ہو جائے گی۔ دور حاضر میں محبت کی شادی معیوب نہیں سمجھی جاتی خواہ نانا یا نانی کی عمر میں پہنچ کر رچائی جائے۔ اس عاشق مزا جی کا سہرا سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کے سر جاتا ہے۔
دس پندرہ سال پہلے تک محبت کی شادی کو آوارگی خیال کیا جاتا تھا۔ گھر سے بھاگنے والی لڑکی بدچلن سمجھی جاتی تھی۔ نادیہ کا سارا خاندان اس کی شادی کے خلاف تھا لیکن عشق کا بھوت سر چڑھ کو بول رہا تھا۔ عشق میں تعلیم بھی ادھوری چھوڑ دی اور گھر سے بھاگ گئی۔ چار بچے ہو گئے عشق کا بھوت بھی سر سے اتر گیا تب والدین ہی تھے جنہوں نے بیٹی کے فعل سے چشم پوشی سے کام لیا اور اسے سینے سے لگا لیا۔ لیکن نادیہ کی زندگی بکھر چکی ہے۔ والدین کے پاس لوٹ کر اس نے ادھوری تعلیم مکمل کی، ملازمت بھی مل گئی، البتہ ضدی محبت کے منفی نتائج آج تک بھگت رہی ہے۔ ماضی انسان کا تعاقب کرتا ہے۔ اب اس کی اپنی بیٹی جوان ہے اور اسے بھی کسی لڑکے سے محبت ہوگئی ہے۔ نادیہ خوفزدہ ہے کہ بیٹی بھی جذباتی قدم نہ اْٹھا لے لیکن بیٹی کو منع کرنے کا جواز بھی تو کھو چکی ہے۔ بیٹی نے جواب میں بس اتنا کہا کہ وہ مغل اعظم کا گانا سن کر بھاگنے والیوں میں سے نہیں۔ وہ احمق لڑکیاں تھیں جو آشنا کے ساتھ بھاگتے وقت اپنی ماں کے زیورات اور نقدی بھی لے جاتی تھیں۔ آج دور بدل چکا ہے۔
آج آشنا کا مالی سٹیٹس دیکھا جاتا ہے۔ مرد کی جیب سے محبت کی جاتی ہے۔ تگڑا حق مہر لکھوایا جاتا ہے۔ محبت کامیاب رہی تو ٹھیک ورنہ شوہر کے دیئے زیورات نقدی بچے سب ضبط اور قانونی مقدمات الگ سے۔ نادیہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے بیٹی کو تکتی رہی اور بس اتنا کہا، محبت کا کیا ہوا؟ بیٹی نے کہا، کون سی محبت، ماما؟ آپ کو پتہ بھی ہے کہ آج لڑکے لڑکیاں محبت کی آڑ میں کہاں تک پہنچ گئے ہیں؟ آپ نے پاپا سے احمقانہ محبت کی تھی۔ مفلس عشق تھا۔ میرے پاس اتنی فرصت نہیں۔ اس آشنا سے آٹھ ماہ سے دوستی چلا رہی ہوں۔ آپ چاہتی ہیں ہاتھ سے نکل جائے؟ اس کی ویٹنگ لسٹ میں ایک سے بڑھ کر ایک لڑکی ہے نقصان میرا ہوگا۔ نادیہ بتا رہی تھی کہ اس کی بیٹی کی طلاق یافتہ دو بچوں کے باپ کے ساتھ شادی ہوگئی۔ عمر میں بھی بڑا ہے۔ اس کی پہلے جس نوجوان سے دوستی چل رہی تھی اس نے مال دینے کی بجائے مانگ لیاتھا۔ فائیو سٹار ہوٹل میں شادی کا مطالبہ کیا جو نادیہ کیلئے پورا کرنا ممکن نہ تھا۔ بیٹی کو پھر پیسے والا بندہ طلاق یافتہ مل گیا۔ اب سوتیلی ماں بن کر وداع ہوئی ہے۔ نادیہ نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا کہ آج کی نسل کتنی بدنصیب ہے۔ نہ محبت کو جانتے ہیں، نہ وفا کی لذت سے آشنا ہیں۔ پیسہ پیسہ۔ مادی ضروریات کے حریص ہو چکے ہیں۔ عارضی خوشیوں اور خواہشات کیلئے زندگی برباد کر لیتے ہیں۔
نادیہ کی کہانی ابھی دوراہے پر کھڑی ہے۔ اس کی بیٹی کی علیحدگی ہو گئی۔ بیٹی بھی ایک بچہ پیدا کر کے پلٹ آئی کہ اس کا شوہر نفسیاتی مریض ہے۔ بیٹی ماں سے کہتی ہے کہ تم نے محبت کی شادی کی تھی پھر تم خالی کیوں ہو؟ میں نے پیسے سے کی اور پیسہ نکلوا لیا۔ نادیہ کہتی ہے نہ میں نے اپنی ماں کی مانی نہ میری بیٹی نے میری سنی۔ ماں تجربہ کار عورت ہوتی ہے۔ مرد کو بحیثیت شوہر پرکھ چکی ہوتی ہے۔ اپنی اولاد کو خودکشی سے بچانا چاہتی ہے لیکن کاش اولاد نے ماں باپ کی نصیحت اور تجربہ کو تکریم دی ہوتی۔ نادیہ نے کہا کہ وہ نانی بن گئی ہے لیکن آج بھی اس کے خاندان اور ملنے جلنے والے اسے گھر سے بھاگی ہوئی کہتے ہیں! بیٹی بھی طعنہ دے دیتی ہے کہ ماں تم نے بدنامی بھی کمائی اور پیسے سے بھی محروم رہی، ہمارا دور بدل چکا ہے، آج طلاق کو معیوب نہیں سمجھا جاتا اور پیسے والے سے شادی کو عقلمندی قرار دیا جاتا ہے، محبت شبت افسانوں کی کہانیاں ہیں ماں۔