Tuesday, 18 March 2025
  1.  Home
  2. Guest
  3. Tayeba Zia
  4. Qadeem Tareen Faiz Morocco

Qadeem Tareen Faiz Morocco

مراکش سے چھ گھنٹے ڈرایئو کے بعد شہر فیض یا فاس پہنچے۔ روایتی دلکش گیسٹ ہائوس میں قیام تھا۔ تنگ اور پچیدہ گلیاں اور علم و فیض کا قدیم ترین شہر جو فاس کے نام سے بھی مشہور ہے۔

قیروان تیونس کا تاریخی شہر ہے، یہ شہر حضرت امیر معاویہ کے دور میں حضرت عقبہ بن نافعؓ نے 670ء میں تعمیر کیا، عقبہ بن نافعؓ المغرب (شمالی افریقہ کے ممالک) کی فتح کے لیے نکلے تھے، یہ ایک ایسی فوجی چھاؤنی چاہتے تھے جو افریقہ میں آگے طنجہ اور پیچھے دمشق سے رابطے میں رہے، یہ جگہ پسند آئی اور آپ نے یہاں مضبوط قلعہ اور شہر تعمیر کرا دیا۔

فیض یا فاس مدینہ شہر نویں صدی میں بسا تھا اور آج تک آباد ہے۔ اس شہر کو تیرھویں اور چودھویں صدی میں تیزی سے پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ یہ وہ دور تھا جب مراکش میں المرینیون سلطنت قائم تھی۔ عرب ممالک کے تمام تر تاریخی شہروں میں فاس آج بھی بہتر حالت میں ہے۔ آج یہاں لوگوں کی زندگی میں نئی طرز زندگی کی جھلک نظر آتی ہے۔ لیکن شہر کا طرز، اس کا انداز آپ کو ماضی کی یاد بھی دلاتا ہے۔ فاس کے شہر کی گلیاں ایک دوسرے سی جڑی ہوء آپ کو ایک کونے سے دوسرے کونے تک لے جاتی ہیں۔ شہر کے مرکز میں فوارے ہیں اور چھوٹے چھوٹے بازار لگتے ہیں۔ یہ دنیا کا سب سے قدیم علاقہ ہے۔

نقل و حمل کے لیے آج بھی یہاں پرانے طرز کی یکہ گاڑی، بگھی اور تانگے کا استعمال ہوتا ہے۔ ہر اہم عمارت پر قران کی آیتیں کندہ نظر آئیں گی۔ آپ وہاں کی نصف دیواروں پر سیرامک ٹائلز کے خوبصورت ڈیزائن دیکھ سکتے ہیں۔ اس شہر میں سیاحوں کی دلچسپی کا سب سے بڑا مرکز ایک عمارت ہے اور یہ عمارت دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی ہے جو ابھی تک کام کر رہی ہے۔ فاس شہر کے وسط میں جامعہ القرویین قائم ہے جو کہ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی ہے جو تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ یونیسکو اور گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز کے مطابق یہ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی ہے جہاں آج بھی تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ دنیا کی پہلی یونیورسٹی ہے جہاں سند یا ڈگری دینے کا رواج عام ہوا۔ جامعہ القرویین میں گذشتہ 1200 سال سے بھی زیادہ عرصے سے مسلسل درس و تدریس جاری ہے۔ عرب ممالک میں یہ تعلیم و تعلم کا قدیم ترین مرکز ہے۔

فیض اس دور کا شاندار اور تاریخی شہر تھا، یہ آج بھی دنیا کے قدیم ترین آباد شہروں میں شمار ہوتا ہے۔

نویں صدی میں طاعون پھیلا اور قیروان سمیت تیونس کے زیادہ تر شہر ویران ہو گئے، لوگ تیزی سے نقل مکانی کرنے لگے، ہجرت کرنے والے ان لوگوں میں قیروان کے تاجر محمد الفیری بھی شامل تھے، یہ اپنی ساری دولت کے ساتھ قیروان سے مراکش کے شہر فیض (فاس FES) منتقل ہو گئے۔ ان کی صرف دو صاحبزادیاں تھیں، فاطمہ الفیری اور مریم الفیری، محمد الفیری کا انتقال ہوا تو دونوں صاحبزادیوں کو وسیع جائیداد اور دولت ملی، بیٹیاں دین دار تھیں چنانچہ انھوں نے والد کی دولت کو فلاح عامہ کے لیے وقف کردیا۔

نویں صدی میں قرویین شہر سے فاطمہ اور بہن مریم کے ساتھ یہاں آکر بس گئیں۔ قرویین شہر آج تیونس میں آباد ہے۔ فاطمہ نے فیض مدینہ میں ہی شادی کی اور جب فاطمہ کے والد فوت ہو گئے تو دونوں بہنوں نے طے کیا کہ جس معاشرے میں انھیں پناہ دی ہے وہ ان پر قرض ہے اور انھیں یہ قرض ادا کرنا چاہیے۔ لہٰذا فاطمہ نے جامعہ القرویین کے قیام کا منصوبہ بنایا۔ یہاں نہ صرف لوگوں کی تعلیم کے لیے بلکہ ان کی رہائش کے لیے ایک بڑی عمارت تیار کی گئی۔

جبکہ ان کی بہن مریم نے اپنے حصے کی دولت سے اندلسین نامی مسجد بنانے پر صرف کی۔ یہ مسجد اتنی وسیع تھی کہ وہاں تقریباً 20 ہزار لوگ بیک وقت نماز ادا کر سکتے تھے۔ مسجد کی سجاوٹ اعلیٰ معیار کی ہے۔ مریم نے اپنی ساری دولت مسجد کی تعمیر میں خرچ کی جبکہ فاطمہ نے اپنے حصے کی وراثت سے یونیورسٹی تعمیر کی تاکہ یہاں لوگ تعلیم حاصل کرسکیں۔ کہا جاتا ہے کہ فاطمہ نے یونیورسٹی کے مکمل ہونے تک زیادہ تر مسلسل روزے رکھے۔ جامعہ القرویین 18 سال میں تیار ہوئی۔

لوگ مسجد کی خوبصورتی اندر باہر سے دیکھنے آتے ہیں۔ مسجد اور یونیورسٹی میں چاروں جانب دروازے ہیں۔ چھت پر ہاتھ سے مصوری کی گئی ہے۔ جس میں قدرتی رنگوں کا استعمال کیا گیا ہے۔ مراکش کا یہ شہر فاس بحراوقیانوس اور بحیرہ روم کے کنارے آباد ہے۔

القرویین یونیورسٹی کی ابتدا ایک مدرسے کے طور پر ہوئی تھی لیکن آج دنیا بھر کے لوگ یہاں تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔ آج اسے بین الاقوامی سطح پر قبولیت حاصل ہے۔ یہاں دینی علوم کے علاوہ زبان و ادب، گرامر، موسیقی، قانون، تصوف، میڈیکل سائنس، جغرافیہ کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس یونیورسٹی سے بڑے دانشور وابستہ رہے ہیں جن میں ابن رشد، ابن خلدون، محمد الادریسی، ابن میمون وغیرہ شامل ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس یونیورسٹی کا قیام ایک خاتون نے کیا تھا لیکن سماجی وجوہات کے سبب اس میں انھیں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ بہر حال اب یہ پابندی نہیں ہے اور آج مختلف مذاہب کے مرد و زن اس یونیورسٹی میں پڑھنے کے لیے آ رہے ہیں۔

افریقہ، مراکش اور اندلس کی مسجدوں کا آرکی ٹیکچرحیران کر دیتا ہے، اس آرکی ٹیکچر نے قیروان میں جنم لیا تھا، قرطبہ اور غرناطہ کے محلات اور مسجدوں کے مینار، محلوں کے فوارے، باغات اور ٹائلیں، شہر کی پتھریلی گلیاں میں مماثلت نظر آتی ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا اسلامی قبرستان بھی فیض میں ہے، فیض میں دس لاکھ قبریں ہیں اور یہ قبریں بارہ سو سال سے موجود ہیں۔