پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان مرحوم کا شمار قوم کے ان عظیم محسنوں میں ہوتا ہے جو مرنے کے بعد بھی زندہ ہیں اور جن کے قدموں کے نشان آنے والی نسلوں کیلئے چراغ راہ کا کام دیتے ہیں۔
16 اکتوبر 1951ء کا دن تھا۔ وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان کو کمپنی باغ راولپنڈی میں پاکستان مسلم لیگ کے جلسہ عام سے خطاب کرنا تھا۔ اوائل سرما کی اس شام نوابزادہ لیاقت علی خان پونے چار بجے جلسہ گاہ میں پہنچے۔ ان کے استقبال کے لیے مسلم لیگ کا کوئی مرکزی یا صوبائی رہنما موجود نہیں تھا۔ مسلم لیگ کے ضلعی رہنماؤں نے ان کا استقبال کیا۔ مسلم لیگ گارڈز کے مسلح دستے نے انہیں سلامی پیش کی۔ پنڈال میں چالیس پچاس ہزار کا مجمع موجود تھا۔
مسلم لیگ کے ضلعی رہنما شیخ مسعود صادق کے خطبہ استقبالیہ کے بعد وزیراعظم مائیک پر آئے۔ وزیر اعظم نے ابھی برادران ملت، کے الفاظ ہی ادا کیے تھے کہ پستول کے دو فائر سنائی دیے۔ اگلی صف میں بیٹھے افغان باشندے سید اکبر نے پستول نکال کر وزیر اعظم پر یکے بعد دیگرے دو گولیاں چلائیں۔ پہلی گولی وزیر اعظم کے سینے اور دوسری پیٹ میں لگی۔ وزیرِ اعظم گر پڑے۔
وزیر اعظم شدید زخمی حالت میں جلسہ گاہ سے باہر لائے گئے۔ وزیر برائے امور کشمیر نواب مشتاق گورمانی کی گاڑی جلسہ گاہ میں داخل ہو رہی تھی۔ وزیر اعظم کو اسی گاڑی میں ملٹری ہسپتال پہنچایا گیا۔ جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاکر انتقال کر گئے۔
لیاقت علی خان کا قتل پاکستان کی تاریخ کے پْراسرار ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ لیاقت علی خان کا قتل وہ نکتہ ہے جہاں پاکستان کی قیادت سیاسی رہنماؤں کے ہاتھ سے نکل کر سرکاری اہل کاروں اور ان کے کاسہ لیس سیاست دانوں کے ہاتھ میں پہنچی۔
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ آپ ہندوستان کے علاقے کرنال میں پیدا ہوئے اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری لی اور 1922ء میں انگلینڈ بار میں شمولیت اختیار کی۔ 1923ء میں ہندوستان واپس آئے اور مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ 1936ء میں آپ مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل بنے۔ آپ قائد اعظم محمد علی جناح کے دست راست تھے۔
آپ کرنال کے ایک نامور نواب جاٹ خاندان میں پیدا ہوئے۔ نواب زادہ لیاقت علی خان، نواب رستم علی خان کے دوسرے بیٹے تھے۔ آپ 2 اکتوبر، 1896ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ محمودہ بیگم نے گھر پر آپ کے لیے قرآن اور احادیث کی تعلیم کا انتظام کروایا۔ 1918ء میں آپ نے ایم اے او کالج علی گڑھ سے گریجویشن کیا۔ 1918ء میں ہی آپ نے جہانگیر بیگم سے شادی کی۔ شادی کے بعد آپ برطانیہ چلے گئے۔
1923ء میں برطانیہ سے واپس آنے کے بعد آپ نے اپنے ملک کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کروانے کے لیے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا۔ آپ نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔
مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہونے تک آپ یو پی اسمبلی کے رکن رہے۔
آپ کی دوسری بیگم، بیگم رعنا لیاقت علی ایک ماہر تعلیم اور معیشت دان تھیں۔ آپ لیاقت علی خان کی سیاسی زندگی کی ایک بہتر معاون ثابت ہوئیں۔
جو لوگ انہیں سالہا سال سے جانتے تھے اور جنہوں نے مرحوم کو ان کی امارت اور خوشحالی کے زمانے میں دیکھا تھا، وہ یہ دیکھ کر متعجب ہوتے تھے کہ اس قدر آرام و آسائش کی زندگی بسر کر چکنے کے بعد اور عیش و عشرت اور آسانیوں کی عادت پڑ جانے کے باوجود کس طرح وہ اپنے وقت آرام اور بچی کچھی دولت کو مسلم لیگ کی ترقی اور پاکستان کے استحکام کی خاطر قربان کرتے جا رہے تھے، حتی کہ اس ملک کے وزیراعظم بن جانے کے بعد، انہوں نے اپنی ضروریات زندگی کو درویشانہ حد تک گھٹا دیا تھا۔
شہادت کے وقت پیوند لگی ہوئی قمیض اور پھٹی ہوئی بنیان پہنی ہوئی تھی۔ آپ کا کوئی بینک بیلنس نہ نکلا اور نہ ہی کوئی مال و دولت زیورات برآمد ہوئے بلکہ ان کی بیگم رعنا لیاقت علی خان کے پاس اپنے گھر کا ایک ماہ کا خرچہ چلانے کے لئے بھی پیسے نہیں تھے۔
قیام پاکستان کے بعد ابتدائی چار سالوں میں انہوں نے ملک کو اقتصادی اور سیاسی طور پر مستحکم بنانے کے لیے خود کو وقف کر دیا۔ ان کی دوراندیشی، صبر و تحمل سیاسی بصیرت، خلوص و دیانتداری اور عوام کو موہ لینے کی بے پناہ صلاحیت اس مشکل کام میں ان کی معاون ثابت ہوئی۔ وزارت عظمی کا حلف اٹھانے کے بعد انہوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں پاکستان کے قومی پرچم کا ڈیزائن منظوری کے لیے پیش کیا، انہوں نے اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے کہا، کیوں کہ دو سو سال سے ہم غلامی کے مرض کا شکار رہے ہیں، اس لیے جناب صدر یہ پرچم نہ صرف یہ کہ پاکستانی قوم کے لئے آزادی کا پیغام ہوگا بلکہ دنیا کی دوسری اقوام کے لیے بھی امن کا علمبردار ہوگا، یہاں کسی بھی فرقے، قوم یا کسی پارٹی کو خاص رائے یا حقوق سے نہیں نوازا جائے گا۔
آپ پاکستان کے وزیراعظم ہی نہ تھے بلکہ مملکت کے وزیر دفاع بھی تھے اور انہیں پاکستان کے تمام مسائل کا بخوبی اور شدت سے احساس تھا۔ وہ بجا طور پر یہ سمجھتے تھے کہ اگر پاکستان کو فوری طور پر دفاعی لحاظ سے مستحکم نہ بنایا گیا تو اس کی تمام اقتصادی آزادی دھری کی دھری رہ جائے گی۔
یہ حقیقت ہے کہ لیاقت علی خاں کی شہادت کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ گہری سازش تھی۔ مبینہ طور پر اس میں اْس وقت وزارتوں کے خواہش مند چند افراد بھی شامل تھے۔ کئی سابق پولیس افسران نے سازش کا سراغ لگانے کیلئے اپنی خدمات پیش کیں لیکن حکومت نے کوئی توجہ نہ دی۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔