Saturday, 15 March 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Tayeba Zia
    4. Sabr e Mustafa

    Sabr e Mustafa

    حضرت فاطمہؓ کو چھوڑ کر آپ کی تمام اولادیں آپ کی آنکھوں کے سامنے اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔ تینوں بیٹے بچپن کی عمر میں ہی انتقال کرگئے۔ جبکہ تینوں بیٹیاں عین جوانی میں دنیا سے رخصت ہوئیں۔ حضرت فاطمہؓ کا انتقال بھی نبی کریم ﷺ کی رحلت کے صرف چھ ماہ بعد ہوگیا۔ یہ باتیں کتابوں میں پڑھنا بہت آسان ہے۔ لیکن ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ کسی شخص کے ساتھ اگر یہ سانحہ پیش آجائے تو کیا ہوگا۔ اولاد کا معمولی سا دکھ بھی برداشت نہیں ہوتا۔ مگر سرکار دوعالمﷺ کی ذات پر یہ آزمائش ٹوٹی کہ تینوں بیٹے بچپن کی اس عمر میں جب انسان بچوں کی ایک ایک ادا پر نثار ہورہا ہوتا ہے، انتقال کرگئے اور بیٹیاں جوانی کی اس عمر میں جب موت کا تصور کرنا بھی بوجھل معلوم ہوتا ہے، خالق حقیقی سے جاملیں۔

    مگر نبی کریم ﷺ نے ان صدمات کو کمال حوصلہ کے ساتھ برداشت کیا۔ آپ کے آخری صاحبزادے حضرت ابراہیم کا انتقال جنگ تبوک کے بعد بالکل آخری دور میں ہوا جب آپ کے وہ الفاظ تاریخ میں نقل ہوگئے جو آپ ﷺنے اس موقع پر ارشاد فرمائے تھے: "ہماری آنکھیں بہہ رہی ہیں، دل افسردہ ہے، مگر ہم زبان سے صرف وہی کہیں گے جو ہمارے ربّ کو پسند ہے "۔ دنیا میں کوئی اور شخص ہے جو صبر و برداشت کی یہ نظیر پیش کرسکے۔ جس روز اللہ کے رسولﷺنے لوگوں کو ایک اللہ کی طرف آنے کی دعوت دی اسی روز سے قوم کی نادانیوں اور ایذاؤں کا سلسلہ جاری ہوگیا۔

    آپ کی راہ روکی گئی، آپ کو جھٹلایا گیا، آپ کو ٹھٹھہ اور تضحیک سے رسوا کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ رسول اللہ ﷺ جب قریش کی ایذاؤں کا ہدف بنے تھے اس وقت آپ کے رفقا کو ابھی ان مصیبتوں سے واسطہ نہیں پڑا تھا۔ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے: "مجھے اللہ کے معاملے میں اس قدر ڈرایا اور دھمکایا گیا کہ کسی اور کو اس قدر نہیں ڈرایا گیا۔ مجھے اللہ کے معاملے میں جس قدر اذیت سے دوچار کیا گیا کسی اور کو نہیں کیا گیا۔ میرے اوپر تیس تیس دن رات ایسے بھی آتے رہے کہ میرے اور بلال کے پاس کھانے کے لیے کوئی چیز نہیں ہوتی تھی جس کو کوئی جان دار کھا سکے، سوائے اس معمولی شے کے جو بلال اپنی بغل میں چھپائے ہوتے"۔ (سنن ترمذی)۔۔

    حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں نے آپ سے پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ! سب سے زیادہ سخت آزمایش کس کی ہوتی ہے؟ آپ نے فرمایا: "انبیا کی، پھر ان سے کم درجہ لوگوں کی، پھر ان سے کم درجہ لوگوں کی۔ آدمی کی آزمائش اس کی دینی کیفیت کے مطابق ہوتی ہے۔ اگر وہ دین میں مضبوط ہو تو آزمائش بھی سخت ہوتی ہے اور اگر دین میں نرم ہو تو اس کی دینی کیفیت کے مطابق ہی آزمائش بھی ہوتی ہے۔ بندے پر آزمائشوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے، حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ وہ زمین پر چلتا ہے تو اس کے اوپر کوئی گناہ نہیں ہوتا"۔ (ترمذی)۔

    ترمذی میں حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے لیے جب کوئی معاملہ بڑا اہم ہو جاتا تو آپ آسمان کی طرف چہرہ بلند کر لیتے اور گڑ گڑا کر دعا کرنا مقصود ہوتا تو یَاحَیُّ یَا قَیُّومُ کہتے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کو جب کوئی اہم معاملہ درپیش ہوتا تو آپ یوں دعا کرتے: یَاحَیُّ یَاقَیُّومُ بِرَحمَتِکَ اَستَغِیثُ "اے زندہ اور قائم ذات! میں تیری رحمت کے واسطے سے تیری مدد کا طالب ہوں"۔

    آپ کو اللہ کے راستے میں ہر وہ تکلیف دی گئی جس کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ آپ نے اپنے قریب ترین رشتے داروں اور ہم قبیلہ لوگوں کی بدترین مخالفت جھیلی۔ صبح و شام طرح طرح کے توہین آمیز کلمات، خطابات اور طنزیہ جملے سنے۔ ہر طرح کا الزام، بہتان، ہجوگوئی، استہزا اور سوشل بائیکاٹ سہا۔ عین حرم پاک میں، مکہ کے بازاروں میں اور طائف کے پہاڑ وں پر آپ اور آپ کے ساتھی ہر طرح کی مخالفت، ذلت اور تشدد کا شکار رہے۔ ہجرت کے بعد کبھی جنگ و جدل کی سختیاں جھیلیں تو کبھی محبوب ترین رشتے داروں اور عزیزوں کی کفار کے ہاتھوں انتہائی دردناک موت کا سانحہ جھیلا۔ کبھی یہود و منافقین کے ہاتھوں اپنے اہل خانہ پر بدترین بہتانوں کو برداشت کیا تو کبھی اپنی ذات کے حوالے سے غلیظ اسکینڈلوں کو سہا۔ مگر کبھی بددعا دی، نہ انتقام لیا۔