Saturday, 15 March 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Tayeba Zia
    4. Tariq Bin Ziyad

    Tariq Bin Ziyad

    ایک مصرعے "ہر ملک ملکِ ماست کہ ملکِ خدائے ماست" میں طارق کے پورے خطبے کو جس صراحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے، یہ اقبال کے فن کا اعجاز ہے۔ اس ایک مصرعے میں طارق کا جوشِ ایمانی، جذبہ سرفروشی، اعلائے کلمۃ الحق کے لئے اسباب و وسائل سے بے نیازانہ جہاد، جرات و ہمت غرضیکہ پورا کردار سمٹ کر آگیا ہے۔

    طارق بن زیاد بَربَر نسل شمالی افریقہ مراکش سے تعلق رکھنے والے مسلم سپہ سالار اور بَنو امیّہ کے جرنیل تھے۔ ھم نے مراکش میں اٹلس پہاڑی سلسلے کی آغوش میں بربر علاقے کا بھی وزٹ کیا اور وہاں کی زبان اور ثقافت کا مشاہدہ کیا۔ طارق بن زیاد نے 711ء میں ہسپانیہ (اسپین) میں عیسائی حکومت کا خاتمہ کرکے یورپ میں مسلم اقتدار کا آغاز کیا۔ انہیں اسپین کی تاریخ کے اہم ترین عسکری رہنمائوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

    شروع میں وہ اموی صوبے کے گورنر موسیٰ بن نصیر کے نائب تھے، جنہوں نے ہسپانیہ میں گوتھ بادشاہ کے مظالم سے تنگ عوام کے مطالبے پر طارق کو ہسپانیہ پر چڑھائی کا حکم دیا۔ طارق بن زیاد نے مختصر فوج کے ساتھ یورپ کے عظیم علاقے اسپین کو فتح کیا اور یہاں دینِ اسلام کاعَلم بلند کیا۔ اسپین کی فتح اور یہاں پراسلامی حکومت کا قیام ایک ایسا تاریخی واقعہ ہے، جس نے یورپ کو سیاسی، معاشی اور ثقافتی پسماندگی سے نکال کر ایک نئی بصیرت عطا کی اور اس پر ناقابل فراموش اثرات مرتب کیے تھے۔ طارق بن زیاد کی تعلیم و تربیت موسیٰ بن نصیر کی زیر نگرانی ہوئی تھی، جو ایک ماہرِِ حرب اور عظیم سپہ سالار تھے۔ اسی لیے طارق بن زیاد نے فن سپہ گری میں جلدہی شہرت حاصل کرلی۔ ہرطرف ان کی بہادری اور عسکری چالوں کے چرچے ہونے لگے۔

    طارق بن زیاد بن عبداللہ نہ صرف دنیاکے بہترین سپہ سالاروں میں سے ایک تھے بلکہ وہ متّقی، فرض شناس اور بلندہمت انسان بھی تھے۔ ان کے حسنِ اَخلاق کی وجہ سے عوام اور سپاہی انہیں احترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔ افریقا کی اسلامی سلطنت کو اندلس کی بحری قوّت سے خطرہ لاحق تھا، جب کہ اندلس کے عوام کا مطالبہ بھی تھا۔ اسی لیے گورنر موسیٰ بن نصیر نے دشمن کی طاقت اور دفاعی استحکام کا جائزہ لے کر طارق بن زیاد کی کمان میں سات ہزار (بعض مورخین کے نزدیک بارہ ہزار) فوج دے کر انہیں ہسپانیہ کی فتح کے لیے روانہ کیا۔

    اسلامی لشکر ہسپانیہ کے ساحل پر اترا اور ایک پہاڑ کے نزدیک اپنے قدم جمالیے، جو بعد میں طارق بن زیاد کے نام سے جبل الطارق کہلایا۔ طارق بن زیاد نے جنگ کے لیے محفوظ جگہ منتخب کی۔ اس موقع پر اپنی فوج سے نہایت ولولہ انگیز خطاب کیا اورکہا کہ ہمارے سامنے دشمن اورپیچھے سمندر ہے۔ جنگ سے قبل انہوں نے اپنے تمام بحری جہازوں کو جلا دینے کا حکم دیا تاکہ دشمن کی کثیر تعداد کے باعث اسلامی لشکر بددِل ہو کر اگر پسپائی کا خیال لائے تو واپسی کا راستہ نہ ہو۔ اس صورت میں اسلامی فوج کے پاس صرف ایک ہی راستہ باقی تھا کہ یا تو دشمن کو شکست دے دیں یا اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کردیں۔ یہ ایک ایسی زبردست جنگی چال تھی کہ جس نے اپنی اہمیت کی داد انے والے عظیم سپہ سالاروں سے بھی پائی۔

    7 ہزار کے مختصراسلامی لشکرنے پیش قدمی کی اور عیسائی حاکم کے ایک لاکھ کے لشکر کاسامناکیا، گھمسان کا رَن پڑا، آخر کار دشمن فوج کو شکست ہوئی اورشہنشاہ راڈرک ماراگیا، بعض روایتوں کے مطابق وہ بھاگ نکلاتھا، جس کے انجام کا پتا نہ چل سکا۔ اس اعتبار سے یہ جنگ فیصلہ کن تھی کہ اس کے بعد ہسپانوی فوج کبھی متحد ہو کر نہ لڑ سکی۔ طارق بن زیاد کی فتح کی خبر سن کر موسیٰ بن نصیر نے حکومت اپنے بیٹے عبداللہ کے سپرد کی اورخود طارق بن زیاد سے آملے۔

    دونوں نے مل کر مزیدکئی علاقے فتح کیے۔ اسی دوران خلیفہ ولید بن عبدالملک نے اپنے قاصد بھیج کر دونوں کو دمشق بلوالیا اور یوں طارق بن زیادہ کی عسکری زندگی کا اختتام ہوا جب کہ اسلامی دنیا کے اس عظیم فاتح نے 720ء میں دمشق میں وفات پائی۔ انھوں نے اموی خلافت کی خدمت کی اور اسپین اور پرتگال پر مسلم اموی فتح کا آغاز کیا۔ انھوں نے اپنی فوجوں کو اس مقام پر مستحکم کیا جسے آج جبرالٹر کی چٹان کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    طارق بن زیاد کی یاد سپین اورشمالی افریقہ المغرب مراکش وزٹ میں ہمہ وقت ھمارے ساتھ ہوتی ہے۔ مراکو کے قدیم شہر فیض میں صوفیا اور علما کرام کی قبور مساجد اور زاویہ (عبادت خانے) کا بھی وزٹ کیا۔ ان میں سر فہرست مولائے ادریس بن عبد اللہ کا مزار ہے۔ سید حسنی یعنی حضرت حسن رضی اللہ کے پڑپوتے اور شمالی المغرب کے ایک حصے میں ادریسی سلطنت کے بانی تھے، مولے ادریس پاکستان کے داتا گنج بخشؒ کے پائے کے بزرگ ہیں اور پورے مراکش کے علاوہ دنیا بھر میں ان کے عقیدت مند موجود ہیں۔ بینظیر بھٹوبھی مولے ادریسؒ سے عقیدت رکھتی تھیں، وزیراعظم پاکستان کی حیثیت سے جب وہ مراکش تشریف لائیں تو انہوں نے خصوصی طور پر مولے ادریس کے مزار پر حاضری دی۔۔

    ہم نے ابن خلدون کا گھر بھی دیکھا جسے مقامی قالین کا تین منزلہ سٹور بنا دیا گیا ہے۔ ابن خلدون بڑے دماغوں میں سے ایک دماغ تھا انہوں نے ایک عجیب بات کہی! اگر مجھے ظالم حکمرانوں اور غلاموں میں سے کسی ایک کو مٹانے کا اختیار ملے تو میں غلاموں کو مٹا دوں گا کیونکہ یہ غلام ہی ہیں جنہوں نے ظالم حکمران پیدا کیئے ہیں۔ سوچ کی غلامی ملک و قوم کو تباہ کر دیتی ہے۔