Friday, 18 October 2024
  1.  Home/
  2. Umar Khan Jozvi/
  3. Eid e Qurban, Esar o Muhabbat Ka Pegham

Eid e Qurban, Esar o Muhabbat Ka Pegham

کہتے ہیں ایک شخص نے بکرا عید کے چھ سات ماہ بعد خواب دیکھا کہ عید پر قربان ہونے والے سارے بکرے جنت میں کھیل رہے ہیں مگر اس کا بکرا ایک جگہ پر بیٹھا ہوا ہے۔ یہ شخص اپنے بکرے کے پاس گیا اور اس سے پوچھا کہ تو ان بکروں کے ساتھ کیوں نہیں کھیل رہا؟ پتہ ہے بکرے نے کیا جواب دیا۔ بکرے نے روتے ہوئے کہا۔ مالک میری دو ٹانگیں ابھی تک آپ کے فریزر میں پڑی ہیں میں دو ٹانگوں کے ساتھ کیسے کھیلوں؟

کہنے کے لئے یہ ایک لطیفہ ہے لیکن اس کے اندر گھر کے فریج اور فریزر میں مہینوں و سالوں تک قربانی کے بکروں، دنبوں، بھینس، اونٹ، گائے اور بیل کی ٹانگیں رکھنے والوں کے لئے بہت بڑا سبق ہے۔ ہم نے بکرا عید اور قربانی کو، گوشت، کے ساتھ خاص کر دیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بکرا عید کہیں کھل کر گوشت کھانے یا منوں کے حساب سے گھروں کے اندر جمع کرنے کا نام ہے مگر ایسا نہیں۔ بکرا عید یہ قربانی، ایثار، محبت اور عہد وفا کا نام ہے۔

اس دن حضرت ابراہیمؑ نے اپنے نور نظر اور لخت جگر کو اللہ کے حضور قربانی کے لئے پیش کیا تھا۔ حضرت ابراہیمؑ کا وہ عمل، مقصد اور مطلب قربانی، محبت، ایثار اور وفا کی ایک عظیم مثال ہے۔ بیٹے کے گلے پر چھری رکھنا اور پھیرنا یہ کوئی چھوٹی اور معمولی بات نہیں، حضرت ابراہیمؑ کا یہ کام و اقدام قربانی، ایثار، محبت، اخلاص اور وفا سے عبارت تھا، اللہ نے پکارا تو باپ بیٹے دونوں نے بغیر کسی توقف اور حیلے بہانے کے لبیک کہہ دیا۔

تب ہی تو اللہ تعالیٰ کو باپ بیٹے کا یہ کام، اقدام اور قربانی کا یہ انداز اتنا پسند آیا کہ اسے قیامت تک دنیا کے لئے ایک مثال بنا دیا۔ بکرا عید کے موقع پر پوری دنیا میں یہ جو ہزاروں نہیں لاکھوں و کروڑوں جانور ذبح ہوتے ہیں یہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی اس عظیم قربانی کی یاد میں ہی ذبح ہوتے ہیں۔ عیدالاضحیٰ کے موقع پر مسلمان گائے، بیل، بھینس، بکرا، دنبہ اور اونٹ سمیت دیگر حلال جانوروں کی قربانی کرکے حضرت ابراہیمؑ کی عظیم سنت اور بے مثال محبت، ایثار و قربانی کی یاد تازہ کرتے ہیں۔

ہم بھی حضرت ابراہیمؑ کی اسی سنت کو زندہ کرتے ہوئے قربانی کرتے ہیں ہماری یہ قربانی نہ تو یہ گوشت کے لئے ہوتی ہے اور نہ ہی دنیا کو دکھانے کے لئے۔ کیونکہ قربانی کا یہ عمل یہ ہمارے اور اللہ کے درمیان ہے۔ ہم قربانی اللہ کی رضا کے لئے کرتے ہیں، ہماری قربانی کا نہ تو گوشت اللہ تک پہنچتا ہے اور نہ ہی خون بلکہ قربانی میں چھپی ہماری وہ محبت، ایثار، اخلاص، وفا اور پرہیزگاری اللہ تک پہنچتی ہے اور اسی پر کل کو ہمیں بدلہ ملنا ہے۔

جو لوگ پیٹ بھر کر تکے و کباب کھانے اور گھروں کے اندر گوشت جمع کرنے کی نیت سے یا دنیا کو دکھانے کی خاطر گائے، بیل، بکرے اور دنبے ذبح کرتے ہیں ایسے لوگ اپنی قربانیاں خراب اور ضائع کرتے ہیں۔ اجر، ثواب اور بدلہ اللہ نے ہی دینا ہے مگر دینی تعلیمات سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اچھے بدلے، اجروثواب کے لئے نیت صاف اور اللہ کی رضا کے لئے کیا جانے والا کام ریاکاری سے بالکل پاک ہونا چاہیئے۔ اسی لئے ہمارے بزرگ کہتے ہیں کہ اللہ کی رضا اور ثواب کی نیت سے اگر ایک کھجور بھی دی جائے تو پہاڑ جتنا اس کا ثواب ملے گا لیکن اگر دنیا کو دکھانے کی نیت و غرض سے پہاڑ جتنا سونا بھی دیا جائے تو اس کا کوئی اجر ہے اور نہ کوئی ثواب۔

اب آپ خود سوچیں کہ اگر قربانی کی نیت، مقصد اور مطلب ہی غلط ہو تو پھر اجروثواب ہمیں کیسے ملے گا؟ اس لئے ہمیں اپنی نیتوں کو ہر قسم کے شر و فتور سے پاک و صاف کرنا چاہئیے۔ ماڈرن دور نے اب ہمیں بھی ماڈرن بنا دیا ہے۔ اب ہم سمجھتے ہیں کہ گائے، بیل، بکرے اور دنبے کو ذبح کرکے فوراً فریج اور فریزر میں رکھنا کہیں قربانی ہے مگر ایسا نہیں۔ جن کا خاندان بڑا اور اہل وعیال زیادہ ہوں ایسوں کے لئے قربانی کا گوشت تقسیم کئے بغیر سارا خود کھانے کی اجازت ہوگی مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ بڑے خاندان اور زیادہ اہل وعیال کے نام یا بہانے پر ہر گھر کے فریج اور فریزر بھر دیئے جائیں۔

ایسے سینکڑوں نہیں ہزاروں و لاکھوں لوگ ہوتے ہیں جنہیں غربت کی وجہ سے صرف عید قربان کے موقع پر گوشت کھانے کا موقع ملتا ہے اور ایسے لوگ خود قربانی کرنے کی طاقت و استطاعت بھی نہیں رکھتے، یہی صاحب حیثیت لوگ قربانی کرتے ہیں تو انہیں پھر گوشت پہنچتا ہے۔ اب اگر ہر قربانی کرنے والا قربانی کا گوشت فریج اور فریزر میں سٹاک کرے گا تو پھر خود بتائیں کہ ایسے غریب، نادار اور مسکین لوگوں تک گوشت کیسے پہنچے گا؟

اب تو لوگوں کی تقسیم کا ہمیں نہیں پتہ کہ یہ قربانی والے گوشت کی تقسیم کیسے کرتے ہیں لیکن ہم جب چھوٹے تھے تو ہماری والدہ صاحبہ اللہ ان کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے اور اسے جنت الفردوس میں اعلیٰ و ارفع مقام نصیب فرمائے وہ اپنے ہاتھوں سے قربانی والے گوشت کے پہلے تین حصے بناتیں پھر ایک حصہ گھر میں چھوڑ کر باقی دو حصے ایک اپنوں و رشتہ داروں اور ایک حصہ غرباء و مساکین میں بانٹنے یا تقسیم کرنے کے لئے ہمیں دیتیں۔

گوشت کے یہ حصے تقسیم کرتے کرتے اکثر عید والا دن ہمارے ہاتھوں سے نکل جاتا اور ہم جب گھر واپس پہنچتے تو شام کا اندھیرا چھایا ہوتا۔ اس زمانے میں اپنوں، رشتہ داروں، دوست احباب، غریبوں اور مسکینوں کا اتنا خیال ہوتا کہ قربانی والے گھروں میں تکے، کباب اور ہانڈی بعد میں پکتی اور غرباء و اقرباء کے گھروں میں گوشت پہلے پہنچتا۔ اب تو ہمیں پڑوس کا بھی احساس و خیال نہیں ہوتا۔

پڑوس والوں نے قربانی کی ہے یا نہیں یہ اب کوئی جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔ دس ذوالحجہ عید والا دن یہ بہت بڑا اور مبارک دن ہے، اس دن قربانی کا جو عمل کیا جاتا ہے یہ بھی اعمال میں سے ایک بہت بڑا اور بابرکت عمل ہے، اس لئے عید قربان کے اس مبارک دن اپنوں اور رشتہ داروں کے ساتھ غرباء اور مساکین کو بھی ضرور یاد رکھیں۔

جہاں آپ اپنے بچوں، رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ خوشیاں منائیں وہاں ان خوشیوں میں غریبوں کو بھی یاد رکھیں۔ عید اور قربانی یہ پیار، محبت، ایثار اور اخلاص کا نام ہے، جس طرح حضرت ابراہیمؑ نے اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لئے اپنے لخت جگر تک کو قربانی کے لئے پیش کیا، اسی طرح دین کی سربلندی اور اللہ پاک کی رضا و خوشنودی کے لئے ہمیں بھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ عید قربان کا اصل پیغام ہی یہی ہے۔