سمجھ نہیں آرہی کہ یہ فائنل کال تھی یافراڈکال؟ غریب کے بچوں کوانقلاب اورتبدیلی کے سپنے دکھاکراسلام آبادلے جایاگیااورپھرمارکٹائی کے لئے ڈی چوک میں تنہاء چھوڑکریہ بہادراورغیرت مندرات کی تاریکی میں ایسے بھاگے کہ پھر پیچھے مڑکردیکھابھی نہیں۔ پتلی گلی سے چوہے کی طرح بھاگتے بھاگتے کم ازکم آنسوگیس کے دھویں میں آنکھیں ملنے والے غریب اور لاوارث کارکنوں کوبے شرمی اورندامت کی ایک نظرسے دیکھ تو لیتے۔
نسلی اوراصلی قسم کے سیاستدان ولیڈرتوایساکام نہیں کرتے۔ ایسی حرکت تووہی لوگ کرتے ہیں جن کاسیاست، ریاست اورانسانیت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ کیابات ہوئی کہ قوم کے غریب بچوں کوآپ تبدیلی اور انقلاب کے ادھورے خواب وسپنے دکھاکراسلام آبادلے جائیں اورپھر جب آپ ہی کے کالے کرتوتوں، ہٹ دھرمی، بدنظمی اوربدمعاشی کی وجہ سے آگے یاسامنے سے انڈے وڈنڈے برسنے لگیں توآپ قوم کے انہی غریب بچوں کوآگے کرکے خودراتوں رات موقع سے فرارہوگئے؟ کیاقوم کاکوئی حقیقی لیڈر، سیاستدان اوررہنماء ایساکرسکتاہے؟ لیڈر، رہنماء اورسیاستدان تووہ ہوتے ہیں جوایسے مواقع اورمرحلے پراپنے کارکنوں، ووٹروں اورسپورٹروں کے ساتھ کھڑے ہوجایاکرتے ہیں۔
قوم کے غریب بچوں کومشکل اورآزمائش میں چھوڑکرموقع سے بھاگنے اورفرارہونے والوں کوہماری زبان میں لیڈرنہیں گیڈرکہاجاتاہے۔ یہ حالات کامقابلہ نہیں کرسکتے تھے اورانڈے وڈنڈے کھانے کی ان میں ہمت نہیں تھی توپھرقوم کے غریب بچوں کواس سردی میں چوکوں، چوراہوں اورشاہراہوں پرذلیل ورسواکرنے کی کیاضرورت تھی؟ سیاسی کارکن اگراپنے بچوں جیسے ہوتے ہیں توکیااپنے بچوں کے ساتھ ایسا کیاجاتاہے؟ دنیامیں توایساکوئی باپ یاماں نہیں ہوگی جواپنے بچوں کواس طرح چھوڑکربھاگ جائے۔ ویسے انقلاب کے ان نام نہادعلمبرداروں نے پی ٹی آئی کے غریب کارکنوں کے ساتھ وہی کام کیاجوہمارے ایک دوست کے ساتھ ان کے کچھ شریرقسم کے دوستوں نے کیاتھا۔
ندیم خان یہ چناروں کے شہر ایبٹ آبادمیں رہتے ہیں اورایک پرائیوٹ لیب میں فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ چندسال پہلے کی بات ہے اس نے دعوت دعوت کے نام پرکچھ دوستوں کاجینا حرام کیا۔ اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے اورہرمحفل میں اس کی ایک ہی بات ہوتی کہ مجھے دعوت کھلائی جائے۔ دوست بھی آخرکب تک صبرکرتے ایک دن سب نے باہمی مشاورت سے ندیم خان کوکال کرکے دعوت پربلایا۔ وہاں پہنچتے ہی دوستوں نے لاتوں اورمکوں سے ندیم خان کاوہ اکرام کیاکہ ندیم خان پھردعوت کانام ہی بھول گئے۔ یہی کچھ پیرومرشدنے غریب مریدوں کے ساتھ بھی کیا۔
سب مریدوں کوفائنل کال کی گئی کہ ڈی چوک میں انقلاب کاحلوہ اورتبدیلی کی بریانی باالکل تیارہے۔ بس ہرحال میں پہنچناہے۔ سادہ اورجاہل مریدوں نے بھی آؤدیکھااورنہ تاؤ۔ سب ایک کال پرایسے ڈی چوک پہنچ گئے کہ جیسے انہوں نے زندگی میں کبھی حلوہ کھایاہی نہ ہو۔ لیکن پھرڈی چوک میں ان مریدوں کے ساتھ جوکچھ ہوااس پریہ اب بھی آنسوبہارہے ہیں۔ کل تک تحریک انصاف کے جوعہدے دار، ایم این ایزاورایم پی ایزسادہ لوح عوام اورپی ٹی آئی کے نادان کارکنوں کوجھوٹے خواب اورسپنے دکھاکرانقلاب وتبدیلی کے فضائل بیان اورسبق پڑھاتے رہے، وقت آنے پرپھروہی ارسطوڈی چوک سے دم دباکرایسے بھاگ نکلے کہ جیسے بھاگنے سے بڑی نعمت اوربہادری اورکوئی نہ ہو۔
کیاانقلاب ایسے آیاکرتے ہیں؟ کیاغریب کارکنوں کوکیڑے مکوڑے سمجھ کرانہیں حالات کے بے رحم موجوں وتھپیڑوں کے آگے چھوڑکرمیدان سے الٹے پاؤں بھاگنے والے کبھی تبدیلی لاسکتے ہیں؟ تحریک انصاف کے بڑوں اورنام نہاد لیڈروں نے غریب کارکنوں کواپنی سیاست کے لئے ریاست کے سامنے کھڑاکرکے صرف ظلم نہیں بہت بڑاظلم کیاہے۔ ہم پہلے ہی کہتے رہے کہ ان لیڈروں اورسیاستدانوں کواپنی سیاسی دکان چمکانے کے لئے غریبوں اوردوسروں کے گھرنہیں اجاڑنے چاہئیں۔
فائنل کال کے نتیجے میں جولوگ جان سے گئے، زخمی ہوئے یاگرفتارہوکراب جیلوں میں ہیں ان کے ماں باپ، بیوی بچوں اوربہن بھائیوں پراب کیاگزرے گی؟ جولوگ شہیدہوچکے ہیں کیاوہ اب واپس آئیں گے؟ یہ لیڈراورسیاستدان کل بھی بڑھکیں ماررہے تھے یہ آج بھی مونچھوں کوتاؤدے رہے ہیں اوریہ کل بھی اسی طرح لوگوں کوجھوٹے خواب اورسپنے دکھائیں گے لیکن جوکارکن اللہ کے حضورپہنچ چکے ہیں وہ تواب کبھی واپس نہیں آسکیں گے۔
ان لیڈروں اورسیاستدانوں کوکل جب ان شہیدکارکنوں کے ورثاء دیکھیں گے سنیں گے توکیاانہیں اپنے پھول جیسے بچے یادنہیں آئیں گے؟ ڈی چوک سے رات کے اندھیرے میں الٹے پاؤں دوڑلگانے کامنظرتویہ لیڈراورسیاستدان آج نہیں توکل بھول جائیں گے پرکیافائنل کال کی بھینٹ چڑھنے والے غریب اوربدقسمت سیاسی کارکنوں کی مائیں، بہنیں، بیٹیاں اوربھائی یہ مناظراوریہ دن کبھی بھول پائیں گے؟ یہ فائنل کال ایک ڈراؤناخواب بن کراب قبرتک ان ماؤں کاپیچھاکرے گی۔
شہیدوں کی مائیں اورورثاء ہزاراورلاکھ کوششوں کے باوجوداس کال سے جان چھڑانہیں پائیں گے۔ ان نام نہادلیڈروں اورسیاستدانوں کے بچے امریکہ، انگلینڈ، آسٹریلیااورجاپان میں عیش وعشرت کرتے ہیں یاپھراپنے محل نماگھروں میں بیٹھ کرآرام فرمارہے ہوتے ہیں لیکن غریب کے بچوں کویہ اپنی سیاست، خباثت اورمنافقت کے لئے شہرشہراورگلی گلی ذلیل وخوارکرتے ہیں۔ ان سیاسی جلسوں، جلوسوں، احتجاج، مظاہروں اوردھرنوں میں جب بھی مرتاہے توغریب کابچہ مرتاہے۔
کیاآج تک کسی لیڈراورسیاستدان کاکوئی بچہ کسی احتجاج، مظاہرے اوردھرنے میں مرا؟ ان کے بچے ایسے فضول کاموں میں شامل وشریک ہی نہیں ہوتے تووہ مرے کہاں سے؟ کیاانقلاب اورتبدیلی صرف غریب کے ہی خون سے آئے گی؟ انقلاب اورتبدیلی کااگرغریب کے بچے کومارنے کانام ہے توپھرایسی تبدیلی اورانقلاب پرایک نہیں ہزارولاکھ بارلعنت۔ کیونکہ ایک غریب کواپنامیلاکچیلابچہ بھی اتناپیاراہے جتناایک لیڈراورسیاستدان کواپنابچہ۔ اس لئے تم سیاست کرویاخباثت، ایک نہیں ہزاربارکرولیکن خداراکسی غریب کے بچے کواپنی سیاست اورخباثت کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔
کوئی وزارت، اقتداراورکرسی نہیں یہی بچے ان غریبوں کے واحداسراہوتے ہیں۔ جب بھی کسی احتجاج، جلسے، جلوس، مارچ اوردھرنے میں کوئی غریب مرتاہے توپھربرسوں تک یہ غم بھولانہیں جاتا۔ فائنل کال توکپتان اورگنڈاپورجیسے کھلاڑی آج نہیں توکل بھول جائیں گے لیکن جوغریب اس کاایندھن بنے ہیں ان کے ماں باپ اوررشتہ داراس، آفت کال، کوکیسے بھولیں گے؟