سیاسی کارکن مسلم لیگ ن کے ہوں، تحریک انصاف کے یاپیپلزپارٹی، جے یوآئی، اے این پی، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی یاکسی اورپارٹی کے انہیں سیاست کی بھینٹ چڑھ کربے موت نہیں مرناچاہئیے۔ یہ کارکن اپنی پارٹیوں اور بعض لیڈروں کے لئے شائدکہ کیڑے مکوڑوں سے بڑھ کرنہ ہوں لیکن یہ ایک پورے گاؤں، خاندان، گھرانے، ماں باپ اوربیوی بچوں کے لئے لیڈراوروزیراعظم سے بھی بڑھ کرہوتے ہیں۔
سیاسی لیڈروں اورسیاستدانوں کی طرح یہ بھی اپنے ہزاروں رشتہ داروں اورچاہنے والوں کے بادشاہ ہوتے ہیں۔ ایک کارکن جب سیاست کی بھینٹ چڑھ کربے موت مرتاہے توپھردرجنوں نہیں سینکڑوں اورہزاروں لوگ متاثرہوتے ہیں۔ متاثرہ خاندان اورگھرانوں کی تباہی اورخواری تولازمی ہے کیونکہ جس دورمیں ایک بندے کوکوئی نہیں سنبھالتااس دورمیں پھرپانچ اوردس لوگوں کو مفت میں کون سنبھالے گا؟ سیاسی جلسوں، جلوس، احتجاج، مظاہروں، ہڑتال اور دھرنوں میں جانے والوں نے کیا کبھی سوچاہے کہ اللہ نہ کرے اگر یہ کسی جلسے، جلوس، مظاہرے اوردھرنے کاشکاراورلقمہ بن گئے تو پھرپیچھے ان کے ماں باپ، بہن بھائیوں اوربیوی بچوں پرکیاگزرے گی یاان کاکیاہوگااورکیابنے گا؟
وہ لوگ جوان کی زندگی میں انہیں ایک وقت کا کھاناتک نہیں دے سکتے کیا وہ ان کے مرنے کے بعد ان کے ماں باپ، بیوی بچوں اورپورے خاندان وگھرانے کی کفالت کر لیں گے؟ آنکھوں کے سامنے بڑے ہونے والے کٹے کے دانت نہیں گنے جاتے۔ دانت ان کے گنے اوردیکھے جاتے ہیں جن کے بارے میں کوئی علم اورپتہ نہ ہو۔ یہ سیاسی پارٹیاں اورسیاسی لوگ توسب کے آزمائے ہوئے ہیں، ان کے دانت توہرکسی معلوم ہے۔ یہ توہرکس وناکس کوپتہ ہے کہ یہ لیڈروسیاستدان کتنے باہر وکتنے پانی میں ہیں۔ جوپارٹیاں اورلوگ اپنے ایک کارکن کونہیں سنبھال سکتے وہ پارٹی اورلیڈرپرقربان ہونے والے کارکن کے پورے گھرانے اورخاندان کوکیاخاک سنبھالیں گے؟
تحریک انصاف کے اسلام آباد احتجاج سے بڑے بڑوں کی رات کی تاریکی میں پتلی گلی سے نکلنے کاافسوس نہیں۔ افسوس ہے توان غریب کارکنوں کی بے موت مرنے کاجواپنے پیچھے ماں باپ اوربیوی بچوں سمیت کئی سوگوارچھوڑکربہت دورچلے گئے ہیں۔ اسلام آباداحتجاج میں جوغریب کارکن زندگی کی بازی ہارچکے ہیں ان کے بوڑھے ماں باپ اور بیوی بچوں پراب کیاگزرے گی اور ان کااب کیابنے گا؟ اسلام آباداحتجاج میں ایبٹ آبادکے شہیدہونے والے ایک کارکن کے بارے میں بتایاجارہاہے کہ اس نے سوگواروں میں سات بچے چھوڑے ہیں۔
جانے والا تو چلا گیا لیکن ان سات بچوں کے چہروں پراب یتیمی کے جوآثاردکھائی دیں گے وہ برسوں بعدبھی زائل نہیں ہوسکیں گے۔ کاش۔ کہ ان بدقسمت بچوں کاوہ باپ پی ٹی آئی کے احتجاج میں جانے سے پہلے ان بچوں کے بارے میں ایک بارہی سوچتا۔ پی ٹی آئی اور دیگر سیاسی پارٹیوں کے جلسے، جلوس، مارچ، ہڑتال، مظاہرے اور دھرنے تواب بھی ہوں گے لیکن اسلام آباد احتجاج میں دنیا سے جانے والے اب کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ جانے والوں کے جانے سے سیاست پر کوئی فرق پڑاہے اور نہ لیڈروں پر کوئی اثر۔
سیاست ومنافقت کاکھیل بھی پہلے کی طرح جاری رہے گااورسیاسیوں کے ڈرامے بھی اسی طرح چلتے رہیں گے پر افسوس نہ تو جانے والے دنیامیں موجود ہوں گے اورنہ ان کے گھروں میں وہ پہلے والی خوشیاں ہوں گی۔ جانے والوں کے گھروں میں اب ہردن سوگ کاعالم اورغم کاسماں ہوگا۔ شہداء کے بچے اورعزیزواقارب اپنے پیاروں کوکبھی بھول نہیں پائیں گے۔ اب جب بھی کوئی جلسہ، جلوس، ہڑتال، مظاہرہ اور کوئی دھرناہوگاتوان جانے والوں کا غم پھرسے تازہ ہوگا۔ ہرجلسے اورجلوس پرماؤں کواپنے بچھڑنے والے بچے اوریتیم بچوں کواپنے باپ شدت سے یادآنے لگیں گے۔ اسی لئے کہاجاتاہے کہ دوسروں کے لئے اپنی زندگی داؤ پرنہیں لگانی چاہئے۔
ہمارے بزرگ اکثر کہا کرتے تھے کہ ہراس کام واقدام سے اجتناب ضروری ہے جس سے فائدے کے بجائے نقصان ہو۔ وہ کہتے تھے کہ جس شخص یاجگہ سے تکلیف، پریشانی اور نقصان یقینی ہواس شخص اورجگہ سے جتنابھی ممکن ہو دور رہو۔ سیاسی لوگوں اور پارٹیوں کے بارے میں تو اپنا یہ خیال ہے کہ سیاست مداریوں کا کھیل اور ہاتھیوں کی لڑائی ہے۔ اس میں پڑنے کا کوئی فائدہ نہیں پھر غریب؟ غریب کاتوویسے بھی ووٹ دینے سے زیادہ سیاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ ماناکہ لیڈراورپارٹی وابستگی ہرانسان کی ہوتی ہے اوریہ ہونی بھی چاہئیے۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ کسی کاکوئی لیڈریاکسی پارٹی کے ساتھ کوئی وابستگی نہ ہو پر لیڈر یاپارٹی کی محبت میں کسی کوبھی اس قدرآگے نہیں جانا چاہئے کہ جہاں پھرزندگی سے ہاتھ دھونا اور پیچھے بہت سے پیاروں کو رونا، دھونا اور چیخنا وچلانا پڑے۔ لیڈرسے محبت اورپارٹی سے لگاؤاپنی جگہ لیکن جان سے پیاری اورزندگی سے آگے یابڑھ کر تو کوئی شئے نہیں۔ جو لوگ کسی لیڈر یا پارٹی کے لئے جان ہتھیلی پررکھ کراحتجاج، جلسے، جلوس اوردھرنوں میں شرکت کرکے پھر پاگل پن پراترآتے ہیں۔
ایسے لوگوں کوپاگل بننے سے پہلے ایک صرف ایک بار گھرمیں موجوداپنے بوڑھے ماں باپ، بیوی اور معصوم بچوں کی طرف بھی دیکھنا چاہئے کہ کسی لیڈر اور پارٹی پرجان قربان کرنے کے بعدپیچھے رہ جانے والے ان معصوم بچوں اوربزرگ ماں باپ کاکیابنے گا؟ لیڈراورپارٹی چاہے کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو لیکن ماں باپ اوربچوں کاجتناخیال ایک بیٹا اور باپ رکھ سکتاہے اتنا کوئی لیڈر اور پارٹی کیا؟ کوئی بھی دوسراشخص نہیں رکھ سکتا۔ اس لئے سیاسی کارکنوں کو لیڈروں اور پارٹیوں سے محبت کرتے ہوئے اپنے گھروالوں اوربچوں کوبھی یاد رکھنا چاہئے۔
یہ لیڈر اور سیاستدان سیاست سیاست کھیلتے رہیں گے، جلسے، جلوس اوردھرنے بھی ان کے اسی طرح ہوتے رہیں گے لیکن جان ایک بار ملتی ہے یہ کوئی روزروزکاکھیل نہیں۔ جان ہے توجہان ہے نہیں توپھرکچھ بھی نہیں۔ سیاسی کارکن اپنے لیڈروں اور پارٹیوں کی طرح سیاست سیاست ضرورکھیلیں لیکن خدارااپنی جانوں سے نہ کھیلیں۔ جولوگ اپنی جانوں سے کھیلتے ہیں ان کے پیارے پھرعمربھریہ غم بھلانہیں پاتے۔