جب تک آپ یہ سطریں پڑھیں گے تب تک کرونا وائرس سے ہونے والی اموات کی تعداد سات سو کا ہندسہ عبور کر چکی ہو گی۔ بلاشبہ چینیوں نے کرونا وائرس کے متاثرین کے علاج کے لیے ایک ہفتے میں تین بڑے اسپتال کھڑے کر دیے ہیں اور ایسے کارنامے چینیوں کے علاوہ فی زمانہ کوئی نہیں کر سکتا۔ مگر مجھے کرونا وائرس کے مرکز ووہان شہر میں ہونے والی تین اموات کا بہت دکھ رہے گا۔
ایک وہ عمر رسیدہ شخص جسے قرنطینہ میں ڈال تو دیا گیا مگر کسی ڈاکٹر نے پلٹ کر خبر نہ لی اور اہلِ خانہ کے احتجاج کے باوجود اسے مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ دوسرا وہ شخص جسے قرنطینہ میں ڈال دیا گیا اور اس کی کسی نے نہ سنی کہ گھر پر رہ جانے والے اس کے معذور بیٹے کو دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔ بالٓاخر وہ معذور بیٹا گھر میں اپنی وہیل چئیر پر بیٹھا بیٹھا بھوکا مر گیا۔ حکام نے اس بابت غفلت کے الزام میں مقامی کیمونسٹ پارٹی کے دو افسروں کو معطل کر دیا۔
اور تیسری موت چونتیس سالہ ڈاکٹر لی وین لیانگ کی ہے۔ ڈاکٹر لی نے دسمبر کے اواخر میں سب سے پہلے شور مچایا کہ ووہان میں سارس کی طرح کا خطرناک وائرس ہاتھ سے نکل چکا ہے اور ریاست کو فوری طور پر اقدامات کرنے چاہئیں۔ مگر کسی نے ڈاکٹر لی کی وارننگ پر دھیان نہیں دیا۔ پولیس نے الٹا انھیں تین جنوری کو پکڑ کے افواہیں اور خوف و ہراس پھیلانے کے الزام میں بند کر دیا اور ان سے اعترافی بیان پر بھی دستخط کروائے کہ میں سماج میں بے چینی پھیلا رہا تھا۔ بدقسمتی سے ڈاکٹر لی خود کرونا وائرس کی چپیٹ میں آ گئے اور حکام کو جنوری کے وسط میں صورتِ حال کی سنگینی کا احساس ہوا۔
کل ڈاکٹر لی وین ویانگ کا انتقال ہو گیا۔ چینی سوشل میڈیا نے انھیں قومی ہیرو قرار دیا اور ان کے ساتھ ہونے والے سلوک پر عمالِ ریاست کو لتاڑنا شروع کردیا۔ سوشل میڈیا کے بے پناہ دباؤ کے نتیجے میں حکمراں کیمونسٹ پارٹی کے ترجمان اخبار پیپلز ڈیلی کے ٹویٹر پر یہ پیغام نمودار ہوا " ہمیں ووہان کے ڈاکٹر لی وین لیانگ کی موت پر صدمہ ہے۔ انھیں بچانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی مگر وہ آج صبح دو بج کر اٹھاون منٹ پر انتقال کر گئے "۔
ثابت یہ ہوا کہ جب ہر شہری کو غیر ذمے دار اور سرکاری موقف سے ہٹ کے ہر غیر سرکاری بات کو مشکوک اور بد نیت سمجھ لیا جائے تو پھر لوگ رفتہ رفتہ اپنی سماجی و اجتماعی ذمے داری تیاگ کر چپ ہو جاتے ہیں یا کنارہ پکڑ لیتے ہیں۔ اور پھر بولنے کے نتائج اور اس خوف سے پیدا ہونے والی چپ سانحات کو جنم دیتی جاتی ہے۔
بدقسمتی سے چپ کروانے کا یہ فیشن کرونا وائرس کی طرح ایک بار پھر ہمارے خطے میں تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے۔ تاحدِ نگاہ نہ بات سنی جا رہی ہے نہ کہنے دی جا رہی ہے۔ یہ تجربہ ہزاروں سال سے کیا جا رہا ہے اور ہزاروں سال سے ناکام ہو رہا ہے۔
دل آس پاس کی فضا سے بوجھل ہے۔ جاوید اختر کی تین نظمیں پڑھوانے کو جی چاہ رہا ہے۔
جو بات کہتے ڈرتے ہیں سب، تو وہ بات لکھ
اتنی اندھیری تھی نہ کبھی پہلے رات لکھ
جو روزناموں میں کہیں پاتی نہیں جگہ
جو روز ہر جگہ کی ہے وہ واردات لکھ
جو واقعات ہو چکے ان کا تو ذکر ہے
لیکن جو ہونے چاہئیں وہ واقعات لکھ
( دوسری نظم )
بڑی رونق تھی اس گھر میں یہ گھر ایسا نہیں تھا
گلے شکوے بھی رہتے تھے مگر ایسا نہیں تھا
جہاں کچھ شیریں باتیں تھیں وہیں کچھ تلخ باتیں تھیں
مگر ان تلخ باتوں کا اثر ایسا نہیں تھا
انھی شاخوں پے گل تھے، برگ تھے، کلیاں تھیں، غنچے تھے
یہ موسم جب نہ ایسا تھا، شجر ایسا نہیں تھا
( تیسری نظم )
کسی کا حکم ہے
ساری ہوائیں ہمیشہ چلنے سے پہلے بتائیں کہ ان کی سمت کیا ہے؟
ہواؤں کو بتانا یہ بھی ہوگا چلیں گی جب تو کیا رفتار ہو گی؟
کہ آندھی کی اجازت اب نہیں ہے!
ہماری ریت کی یہ سب فصیلیں، یہ کاغذ کے محل جو بن رہے ہیں
حفاظت ان کی کرنا ہے ضروری
اور آندھی ہے پرانی ان کی دشمن یہ سب ہی جانتے ہیں
کسی کا حکم ہے
دریا کی لہریں زرا یہ سرکشی کم کر لیں، اپنی حد میں ٹھہریں
ابھرنا اور بکھرنا اور بکھر کر پھر ابھرنا،
غلط ہے ان کا یہ ہنگامہ کرنا
یہ سب ہے صرف وحشت کی علامت، بغاوت کی علامت
بغاوت تو نہیں برداشت ہو گی، یہ وحشت تو نہیں برداشت ہو گی
اگر لہروں کو ہے دریا میں رہنا، تو ان کو ہوگا اب چپ چاپ بہنا
کسی کا حکم ہے
اس گلستاں میں بس اب اک رنگ کے ہی پھول ہوں گے
کچھ افسر ہوں گے جو یہ طے کریں گے
گلستاں کس طرح بننا ہے کل کا
یقیناً پھول یک رنگی تو ہوں گے
مگر یہ رنگ ہوگا کتنا گہرا کتنا ہلکا یہ افسر طے کریں گے
کسی کو یہ کوئی کیسے بتائے
گلستاں میں کہیں بھی پھول یک رنگی نہیں ہوتے، کبھی ہو ہی نہیں سکتے
کہ ہر اک رنگ میں چھپ کر بہت سے رنگ رہتے ہیں
جنھوں نے باغ یک رنگی بنانا چاہے تھے ان کو زرا دیکھو
کہ جب اک رنگ میں سو رنگ ظاہر ہو گئے ہیں تو
وہ اب کتنے پریشاں ہیں، وہ کتنے تنگ رہتے ہیں
کسی کو یہ کوئی کیسے بتائے
ہوائیں اور لہریں کب کسی کا حکم سنتی ہیں
ہوائیں حاکموں کی مٹھیوں میں، ہتھکڑی میں، قید خانوں میں نہیں رکتیں
یہ لہریں روکی جاتی ہیں تو دریا ہو کتنا بھی پر سکوں، بے تاب ہوتا ہے
اور اس بے تابی کا اگلا قدم سیلاب ہوتا ہے