جب آپ پرویز مشرف کیس کے تفصیلی فیصلے کے پیرا چھیاسٹھ کے پوسٹمارٹم، مذمت اور اس پیرے کے مصنف منصف کی دماغی حالت کے بارے میں کسی درست یا غلط نتیجے پر پہنچ جائیں تو اس کے بعد میری درخواست پر ٹھنڈا پانی پی کر ایک جگہ آرام سے تنہائی میں بیٹھ کر یہ بھی سوچیے گا کہ جسٹس وقار سیٹھ نے ایسا کیا انہونا لکھ دیا جس سے مجھ سمیت سب کو تتئیے لگ گئے۔
کیا منصف صاحب سیارہ مریخ سے اچانک اتر کے کسی خصوصی عدالت کا حصہ بن گئے یا وہ ہم میں سے ہی ہیں۔ بس اتنے فرق کے ساتھ کہ جی تو ہمارا بھی یہی چاہتا ہے مگر انھوں نے اپنے جی کو قانونی صفحے پر لکھ دیا اور ہم ان کے لکھے کو ایسے جانچ رہے ہیں گویا ہم سے زیادہ انسان دوست، تہذیب یافتہ، قانون پسند اور منصف مزاج کوئی ہے ہی نہیں۔
اگر واقعی ایک جج کو کسی ایک فیصلے کی بنیاد پر ذہنی طور پر غیر متوازن قرار دیا جا سکتا ہے تو پھر اس کے باقی فیصلوں کی چھان پھٹک کون کرے گا جو اس نے سیشن سے لے کر ہائی کورٹ تک اور پھر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر لکھے؟ تب تو اس نظام کے ذہنی توازن پر بھی بات کرنا ہو گی جس کو کئی برس کے دوران بیسیوں فیصلوں میں سے صرف ایک فیصلے کے بعد محسوس ہوا کہ یہ جج تو عدالت کرنے کے قابل ہی نہیں۔
مگر اتنی محنت و زحمت کی ضرورت ہی کیا ہے۔ ہم سب جس ماحول اور تعلیم و تربیت کی پیداوار ہیں وہ ہمیں ایب نارملٹی ہی تو سکھاتا ہے۔
کیا ہمارے گھروں میں نسل در نسل یہ گفتگو روزمرہ کا حصہ نہیں کہ میں تیرا منہ توڑ دوں گا۔ ابے کیا کھوپڑی میں بھوسا بھرا ہے، دوبارہ گالی دی تو گدی سے زبان کھینچ لی جائے گی۔ آیندہ دیر سے گھر آیا تو الٹا لٹکا دوں گا۔ ارے مجھے معلوم ہوتا کہ تو ایسی نکلے گی تو پیدا ہوتے ہی تیرا گلا نہ گھونٹ دیتی وغیرہ وغیرہ۔
اور جب ہم سینما جاتے ہیں تو فلمی کردار اور ان کے ڈائیلاگ ہماری تربیت کا لاشعوری جزو بن جاتے ہیں۔ جب ہیرو کی اماں اپنے بیٹے سے کہتی ہے کہ " جدوں تک تو اپنے پئیو دے قاتل دے ٹوٹے ٹوٹے کر کے پورے پنڈ وچ نہ کھلاریں گا میں تینوں اپنا ددھ نہیں بخشنا " ( جب تک تو اپنے باپ کے قاتل کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے پورے گاؤں میں نہیں بکھیرے گا تب تک میں دودھ نہیں بخشوں گی )
سنسر بورڈ سے منظور شدہ اس ڈائیلاگ پر پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھتا ہے اور کوئی من چلا نعرہِ تکبیر بھی لگا دیتا ہے۔ یعنی یہ سب سننا، یاد رکھنا اور داد دینا ہماری ذہنی تربیت کے لیے معمول کا نصاب ہے۔
اور پھر جب ہم درس گاہ میں آتے ہیں اور تاریخ پڑھتے ہیں اور یہ پڑھتے ہیں کہ فلاں بادشاہ نے اپنے بھائیوں کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروا دیں، یا گدھے کی کھال میں سلوا دیا، یا دیوار میں زندہ چنوا دیا، یا کھال کے جوتے بنوا لیے یا کھال میں بھوسہ بھروا دیا، یا بغاوت کے جرم میں ہاتھی کے پاؤں تلے کچلنے کی سزا دی، یا تیل کے کڑھاؤ میں ڈلوا دیا، یا فصیل سے نیچے پھنکوا دیا، یا سر قلم کروا کے لاش کو شہر کے صدر دروازے سے لٹکوا دیا تاکہ آنے جانے والے عبرت پکڑیں یا لاش کو شہر سے دور پھنکوا دیا اور اسے اٹھانے کی ممانعت بھی کر دی تاکہ چیل کوؤں کو غذا مل سکے یا لاشوں کو گھوڑوں کے سموں تلے روند دیا یا سر کاٹ کے کئی سو کوس پرے دربار میں بھیج دیا۔
اور پھر ہمیں مسجد کے منبر پر بیٹھا شخص حجاج بن یوسف کے قصے سناتا ہے کہ مجھے تمہاری داڑھیاں خون سے تر نظر آ رہی ہیں اور تمہارے سروں کی فصل لہلہاتی دکھائی دے رہی ہے۔ اور ہم سب بغیر سوچے سمجھے کہتے ہیں سبحان اللہ۔
اور پھر محاذِ جنگ سے لوٹنے والا کوئی جواں سال غازی بتاتا کہ کس طرح ہم روسی فوجیوں کی کھال پیٹ سے لے کر گردن تک اتار کر انھیں تڑپنے کے لیے چھوڑ دیتے تھے تو ہماری آنکھوں میں ایک نسیم حجازیانہ چمک آ جاتی۔
مجھے یاد ہے کہ جب کابل میں نجیب اللہ کی لاش طالبان نے کھمبے سے لٹکائی اور لاش کے نتھنوں میں سگریٹ گھسانے کے بعد تصویریں کھینچیں اور پھر یہ تصاویر دیگر اخبارات کی طرح ہم نے بھی خوشی خوشی شایع کیں۔ تب ہم میں سے کسی کے ذہن میں شائبہ بھی نہ تھا کہ یہ فعل جس نے بھی انجام دیا ہے وہ ہرگز ہرگز مہذب کہلوانے کا حقدار نہیں۔ بلکہ ہم نے خوشی خوشی تصویر کے نیچے اس طرح کے کیپشن لگائے " دیکھو مجھے جو دیدہِ عبرت نگاہ ہو۔ ظالم کا عبرت ناک انجام۔ یقیناً اس میں آنکھوں والوں کے لیے عبرت ہے " یا " کتا کتے کی موت مارا گیا " وغیرہ وغیرہ۔۔۔
اور پھر ایک عرصے تک سمجھایا جاتا رہا کہ سروں سے فٹ بال کھیلنے والے اور لاشوں کو کھمبوں سے لٹکانے والے طالبان دراصل ہمارے گمراہ بھائی ہیں جنھیں حکمت کے ساتھ راہِ راست پر لانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔ اور پھر ایک دن اے پی ایس کے قتلِ عام کے بعد ہم سب کو سمجھایا گیا کہ یہ گمراہ نہیں بلکہ بھیڑئیے ہیں۔
کیا مولانا مفتی محمود کی تربیت میں کوئی کمی رہ گئی تھی جب انھوں نے سقوط مشرقی پاکستان کے بعد کہا تھا کہ یحیی خان کو قصہ خوانی چوک میں پھانسی دی جائے یا ایئر مارشل اصغر خان کو ہم میں سے کوئی اس بیان کی بنیاد پر ایب نارمل کہتا ہے کہ میں بھٹو کو کوہالہ کے پل پر پھانسی دوں گا یا کسی نے پرویز مشرف کو صدارت کے لیے ان فٹ سمجھ کر چیلنج کیا جب انھوں نے کہا کہ کچھ عورتیں کینیڈا کا ویزہ لگوانے کے لیے جان بوجھ کر ریپ کروا لیتی ہیں یا کوئی شہباز شریف کی دماغی حالت پر شک کرتا ہے جب اس نے کہا کہ میں زرداری کا پیٹ پھاڑ کر قومی دولت نکالوں گا۔
یہ سب ہمیں تب تک نارمل لگتا ہے جب تک ہم میں سے ہی کوئی اٹھ کے اپنے کسی جملے، فیصلے، بیان یا واردات سے ہمیں کچوکہ نہیں لگاتا۔ پھر ہم یہ جاننے کے لیے دوڑ پڑتے ہیں کہ یہ شخص اتنے اعلیٰ منصب پر کیسے پہنچا، یہ کس طرح کی زبان استعمال کر رہا ہے۔ اور پھر ہم کسی ایک شخص کو مس فٹ سمجھ کر ایک بار پھر اس شخص کی " مس فٹ نیس " کی وجوہات جانے بغیر فوراً ہی حالتِ خراٹا میں چلے جاتے ہیں جب تک کہ اگلی، نئی اور تازہ جھنجھوڑ کا مرحلہ نہ آئے۔
کل عبداللہ پان والے نے پوچھا " بھائی اگر یہ جج مشرف صاحب کے بجائے مجھ جیسے کسی آدمی کے بارے میں یہی فیصلہ لکھتا تب بھی کیا اتنا ہی شور مچتا؟ میں نے عبداللہ کے کان کے قریب منہ لا کر کہا " آیندہ ایسی بات سوچنا بھی نہیں۔ بس پان لگاؤ، سگریٹ بیچو اور اللہ اللہ کرو "۔