اعلیٰ دماغ مغربی ممالک کی کوویڈ سے نمٹنے کی حکمتِ عملی سے اس تاثر کو مزید تقویت مل رہی ہے کہ کوویڈ کا متاثر بظاہر صحت یاب ہو جائے تب بھی اثرات جسم اور ذہن کے مختلف افعال پر عرصے تک غالب رہتے ہیں اور ان سے چھٹکارا رفتہ رفتہ ہی ممکن ہے۔
اس تناظر میں مغربی بالخصوص یورپی دنیا کی ذہنی کیفیت کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کوویڈ کی نئی قسم اومیکرون سے بچنے کے لیے اپنی بری، بحری اور فضائی سرحدیں تو بند کر رہے ہیں مگر زائد از ضرورت کوویڈ ویکسین ذخیرے کو ایکسپائر ہونے سے پہلے پہلے دیگر ضرورت مند انسانیت کو عطیہ کرنے کے بجائے اسے کروڑوں کی تعداد میں ضایع کرنا زیادہ بہتر سمجھ رہے ہیں۔ ان ممالک کی قیادت یہ بنیادی نکتہ بھی سمجھنے سے بظاہر قاصر ہو چکی ہے کہ جب تک پوری دنیا محفوظ نہیں ہو گی تب تک پابندیوں کی اونچی اونچی دیواریں کسی بھی خطے کو وائرس سے محفوظ نہیں رکھ سکیں گی۔
مغربی ممالک سرحدوں کو بند کرنے، پروازوں کو محدود کرنے اور لاک ڈاؤن کی قیمت پر کھربوں ڈالر کا معاشی خسارہ برداشت کرنے پر تو آمادہ ہیں مگر غریب امیر کے فرق کو بالائے طاق رکھ کے عالمی ویکسینیشن کے لیے آستینیں چڑھانے اور صرف چند ارب ڈالر خرچ کر کے اپنی معیشت کوویڈ سے مستقل محفوظ کرنے کا ہدف حاصل کرنے کے بارے میں سوچنے سے معذور ہیں۔
چلیے مان لیا کہ آپ کسی بھی وجہ سے اپنے اضافی ویکسین ذخیرے پر سانپ بن کر بیٹھے ہیں۔ ظاہر ہے آپ نے اس ذخیرے کو خریدا ہے یہ آپ کی ملکیت ہے۔ اب آپ اسے استعمال کریں یا سمندر میں پھینکیں۔
مگر جب سو سے زائد ممالک بشمول اقوامِ متحدہ اور عالمی ادارہِ صحت گزشتہ ایک برس سے مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں کہ مغربی حکومتیں ویکسین ساز کمپنیوں پر انٹلکچوئل کاپی رائٹس قوانین سے عارضی دستبرداری کے لیے دباؤ ڈالیں تاکہ اس انہونی عالمی وبا کا تیزرفتاری سے مقابلہ کیا جا سکے تب برطانیہ اور یورپی یونین (بالخصوص جرمنی، سوئٹزر لینڈ، برطانیہ) اس ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے لبیک کہنے کے بجائے دوا ساز کمپنیوں کے وکیل بن جاتے ہیں کہ وہ نجی شعبے کو کاپی رائٹس سے دستبرداری پر ایک حد سے زیادہ مجبور نہیں کر سکتے۔
اس بابت عالمی تجارتی ادارے (ڈبلیو ٹی او) کے سامنے چونسٹھ ممالک کی درخواست گزشتہ ایک برس سے پڑی ہے۔ مگر جن ممالک کی دوا ساز کمپنیاں ویکسین تیار کر رہی ہیں ان کی حکومتوں کے لیے انسانیت کو درپیش بحران کے مقابلے میں چند دوا ساز کمپنیوں کا منافع مقدم ہے۔ اسی لیے ڈبلیو ٹی او کی رکنیت کے باوجود یہ حکومتیں ہاں اور نہ کے درمیان نہ صرف خود لٹک رہی ہیں بلکہ باقی دنیا کو بھی لٹکا رکھا ہے۔
ننگے پن کا اندازہ اس سے بھی ہو سکتا ہے کہ خود ویکسین ساز کمپنیاں کاروباری رقابت میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور زیادہ سے زیادہ بزنس ہتھیانے کی دوڑ میں ایک دوسرے کی ویکسین کی افادیت پر اپنی اپنی پسندیدہ اجرتی ریسرچ لابیوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً " تازہ ترین تحقیق " کے نام پر جاری رپورٹوں اور آنکڑوں کو اچھالتی ہیں تاکہ حکومتیں اور عام لوگ کنفیوز ہوں اور ایک ویکسین پر اٹھنے والے سوالوں کے جب تک تسلی بخش جوابات تلاش کریں تب تک دوسری کمپنی زیرِ تفتیش کمپنی کا بزنس لے اڑے۔
ویکسین کی یہ جنگ محض کمپنیوں تک محدود نہیں۔ ریاستیں بھی ویکسین سازی کے کاروبار کو تحفظ دینے کے لیے ایک دوسرے سے مصروفِ پیکار ہیں۔ جیسے متعدد مغربی ممالک اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے والے دوسری دنیا کے چند متوسط ممالک چینی، روسی، بھارتی یا دیگر غیر مغربی ویکسینز کی افادیت تسلیم نہیں کرتے اور اصرار کرتے ہیں کہ مسافر اور مقامی شہری صرف وہی ویکسینز لگوائیں جو مغربی کمپنیاں بناتی ہیں۔ حالانکہ عالمی ادارہِ صحت کی منظور شدہ ویکسین فہرست میں غیر مغربی ویکسینز نہ صرف شامل ہیں بلکہ انھیں محفوظ اور موثر بھی قرار دیا گیا ہے۔
گویامغرب نہ تو ویکیسن کا فالتو ذخیرہ ضرورت مندوں کو عطیہ کرنے پر آمادہ ہے، نہ ہی ویکسین کی ترقی پذیر دنیا میں مقامی تیاری کی خاطر کاپی رائٹس قوانین کی عارضی معطلی میں تعاون کر رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظریے پر کاربند ہوتے ہوئے بھی مغرب کو یہ پہلو تنگ نہیں کر رہا کہ منڈی بیمار ہو گی تو مال کون خریدے گا اور مال نہ بکا تو خود مغربی معیشتوں کا کیا حال ہوگا۔ اور اگر حال دگرگوں ہوا تو چین کو ہدف بنا کر نئی سرد جنگ کے ایجاد کردہ خوف کا مستقبل کیا ہوگا؟ اس بوالعجبیانہ تضاد کا علاج کوئی مہان ماہرِ نفسیات ہی بتا سکتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس اور عالمی ادارہِ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ایڈہنوم کا موقف ہے کہ کوویڈ کی وبا سے نمٹنے کی کوششوں میں گہری عدم مساوات کا مسئلہ تب ہی حل ہو سکتا ہے جب اسے بھی بنیادی انسانی حقوق کی عینک سے دیکھا جائے۔
مگر دونوں اعلیٰ عالمی عہدیدار یہ بھی جانتے ہیں کہ مغرب چونکہ گرم و سرد جنگ کا برس ہا برس سے چشیدہ ہے۔ لہٰذا ذہنی عینک بھی وہی ہے جو اس نے دوسری عالمی جنگ کے بعد سے نہیں اتاری۔ مغرب کے لیے آج کا چین اور روس کوویڈ سے بڑا خطرہ ہے۔ کوویڈ اگر جوہری ہتھیاروں سے لیس ہوتا یا کوئی خود کش بمبار ہوتا تب شاید دنیا کو اس خطرے سے بچانے کے نام پر مغرب کب کا دوڑ پڑتا۔
مغرب کوویڈ سے پہنچنے والے معاشی خسارے سے اتنا ہونق نہیں جتنا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے ہے۔ اس منصوبے کے مقابلے کے لیے مغرب نے تین سو ارب یورو کے فنڈ کے قیام کا اعلان بھی کیا ہے تاکہ ترقی پذیر ممالک کو چین کے قرضوں کے جال والی سفارت کاری سے بچاتے ہوئے انھیں انفرااسٹرکچر منصوبوں کو کھڑا کرنے میں رعائیتی نرخوں پر مدد فراہم کی جائے۔ مگر مغرب چین کی کوویڈ ڈپلومیسی کے مقابلے میں تیسری دنیا کو کوویڈ ویکسین سے بھر دینے یا ویکسین کی تیاری کے لیے انٹلکچوئل کاپی رائٹس معطل کروانے کے کام پر ہرگز آمادہ نہیں۔ اگر یہی اعلیٰ دماغ سفارت کاری ہے تو پھر بین الاقوامی بد دماغی اور بے دماغی کیا ہے؟